کنیکٹ فار چینج— میری روداد

بعض ایونٹ ایسے ہوتے ہیں جن کو سوچا جائے تو ناک کے نتھنوں سے آکسجن جانے کے بجائے اک خوشگوار احساس جسم میں داخل ہونا شروع ہو جاتا ہے جس سے سارے وسوسے اور اندیشے باہر نکلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور روح پر ایک محبت کا ہیولا سا چھا جاتا ہے میں وہاں خاصی دیر سے پہنچا تھا لیکن شکر کرتا ہوں کہ وہاں پہنچا ضرور تھا ورنہ اس نعمت سے خود کو محروم پاتا – میرے پاس کوئی نوٹس نہیں جیسا کہ تحریک اسلامی کے پروگرامات میں اپنی ڈائری ساتھ رکھنا ایک اچھے کارکن کی نشانی سمجھی جاتی ہے اس لیے صرف اپنی قوت حافظہ پر گزارا کرتے ہوئے اس پروگرام کی یادیں اور سوغاتیں چند جملوں کی صورت آپ میں بانٹنا ضروری سمجھتا ہوں۔

 

اس پروگرام کا نام ہی خاصہ دل لبھانے والا تھا ” کنیکٹ فار چینج”، مثبت تبدیلی کے لیے پاکستان بھر سے سوشل میڈیا کے میدان اول سے لوگ جمع ہوئے تھے، ایک دوسرے کی آوازوں اور چہروں سے نا آشنا لیکن ایک مقصد سے جڑے اور ایک منزل کے لیے یکسو ساتھیوں کے لیے یہ مل بیٹھنے کا پہلا موقع تھا تو کہیں محبت سے گلے ٹکرا رہے تھے تو کہیں حیرانگی سے آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں کہ یہ اسی شخص کا وجود ہے جس کا سکرینی چہرہ کچھ اور ہی نظر آتا تھا ویسے سوچا جائے تو یہ فیس بک کی دنیا بھی کتنی عجیب چیز ہے دور پار کے لوگوں کو یوں قریب لا بٹھایا ہے جیسے اپنے گھر کے ہی افراد ہوں صبح سے شام تک باتیں کرتے جانا، ہسنا کھیلنا اور دکھ سکھ بانٹنا ایک روٹین سی ہو گئی ہے لیکن یہ مشینی دور جتنا بھی احساسات کو قریب کر دے گوشت پوشت سے بنے انسانوں کے حقیقی چہروں کے تعلق کا کسی صورت متبادل نہیں ہو سکتا-ایجنڈا اپنی جگہ لیکن میرے لیے اس پروگرام کی افادیت الیکٹرانک رشتوں کا حقیقی رشتوں میں داخل ہونا ہے اس کا احساس کسی دوسرے دن کے بخار کی صورت چڑھ رہا ہے کہ ایسے پروگرامات ہوتے رہنے چاہییں جو تعلقات کی جان ہوتے ہیں خاص کر جن رشتوں کا آغاز ان سوشل ویب سائٹس سے ہوا ہو۔

 

دو روزہ “کنیکٹ فار چینج” کے نام سے رکھی گئی ورکشاپ میں پہلے روز شام ڈھلےمنصورہ میں داخل ہوا نماز مغرب اسی مسجد میں ادا کی جس کو دیکھتے ہی احساس غالب ہوتا ہے کہ کاش اکیسویں صدی کے عظیم مفکر سید مودودی ؒ سے کتابی تعلق کے بجائے مقرر و سامع جیسا رشتہ ہوتا تو زندگی اتنی مشکل نہ ہوتی جیسی کہ آج کل ہے، نماز سے نکلا تو آنکھیں کسی ایسے فرد کی تلاش میں تھیں جو تعارفی کارڈ جیسا کردار ادا سکے ورنہ خدشہ تھا کہ کوئی شعیب سلیم نما آڈیٹوریم کے دروازےپہ کھڑا شخص یہ کہہ کر اندر داخل ہونے سے روک دے کہ چلو بھاگو یہاں بچوں کا کوئی کام نہیں، لیکن شکر اللہ کا کہ مسجد کی سیڑھیاں اترا ہی تھا تو اپنے گھر سے ہی ملاقات ہو گئی طاہر وسیم بھائی ہم شہر، ہم ثقافت اور ہم زبان اور کہوں تو ہم قلب بھی ہیں جب بھی ملیں سب سے پہلے میرے دل پہ ہاتھ رکھتے ہیں چناچہ حسب معمول انہوں نے دل کی دھڑکنوں کی بابت دریافت کیا ابھی ان کی محبت کے سحر سے نکل نہیں پایا تھا تو فیصل آباد سے آئے بلاگر مصطفٰی ملک صاحب سے پہلی بار تعارف ہوا اب جھنگ سے طاہر وسیم بھائی اور فیصل آباد سے مصطفٰی ملک کے ساتھ ہوتے ہوئے سارے خطرات ختم ہو گئے اور گپ شپ میں آڈیٹوریم جا پہنچے وہاں شاہد عباسی بھائی کا ٹویٹر پر لیکچر آغاز پکڑ چکا تھا اس کا آغاز ہی خاصہ جاندار تھا انہوں نے ہال میں موجود لوگوں کے ٹویٹر استعمال پر سروے کیا اور پھر کسی اچھے ٹیچر کی طرح ٹویٹر کی الف ب شروع کر دی ” پاپولیشن’ز رینڈم ڈسٹریبیوشن” کو مدنظر رکھ کر گویا شاہد بھائی نے ہال کے چالیس فیصد افراد کی انگلی پکڑ لی اور ٹویٹر کی سیر کروا نے لگے، اتنے میں ڈاکٹر نعیم صفدر بھائی کا حکم ہوا کہ کل الصبح ہمارے فورم کے بارے گھنٹہ بھر صرف کیا جائے گا اور اس بارے کیوں نہ تبادلہ خیال کر لیا جائے، خاموشی سے ہال سے کھسکے اور آئی ٹی آفس میں جا پہنچے تووہاں سالار اعلٰی شمس الدین امجد بھائی موجود تھے شمس بھائی ایسی شخصیت ہیں کہ جن سے انسان دور بھی بھاگنا چاہے تو شائد نہ بھاگ سکے کیوں کہ ان سے دور ہونے کا صاف صاف مطلب اپنی دل کی دیواروں کو لہو لہان کر دینا ہوتا ہے ان سے شفقت بھری ملاقات نے دل کو سکون سے بھر دیا فورم کی پریزنٹیشن فائنل کر کے باہر نکلے تو عشاء کا وقت تھا اور ورکشاپ کے پہلے دن کا ایجنڈا اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا، باہر ہی کچھ ساتھیوں سے ملن ہوا جن میں سے الہی مغل بھائی کو میں بھولے نہیں بھول سکتا ناجانے کیوں وہ مجھے ہمیشہ علمی شخصیت لگے ہیں اس خیال پر مہر تصدیق اس وقت ثبت ہوئی جب موصوف تیسرے دن منصورہ سے کتابوں کی گٹھڑی لے کر نکل رہے تھے ، نماز سے فراغت کے بعد دستر خوان پر اویس اسلم مرزا بھائی کے ساتھ پیٹ پوجا کی ان کے ساتھ وہیں سے سیدھا پنجاب کے دفاتر پہنچے تو وہاں ایک اورہی میلہ سج رہا تھا پنجاب کےساتھی اپنا اپنا “نامہ اعمال” لے کر پہنچے ہوئے تھے اس میٹنگ کی سربراہی میاں محمد زمان اور اویس اسلم مرزا کر رہے تھے میاں صاحب کی ابتدائی گفتگو کے بعد دائیں جانب سے آغاز ہوا رپورٹس سننا مجھ جیسے لا پرواہ شخص کے لیے خاصا کٹھن کام ہوتا ہے لیکن سرگودھا کی رپورٹ ایسی تھی جیسے صبح سویرے کسی بچے نے تھپڑ لگا کر جگا دیا ہواس لیے بغیر کسی بوریت کے سب سنتے چلے گئے اویس اسلم مرزا بھائی کا ٹویٹر اور فیس بک پر تجرباتی لیکچر بہت ہی دلچسپ تھا اور گھڑیوں کی جانب کوئی دیکھنا گوارا نہیں کر رہا تھا اللہ بھلا کرے ان واپڈا والوں کہ لوڈ شیڈنگ کے ایک جھٹکے سے ہمیں کھسکنے کی سہولت مل گئی لیکن کہاں تک بھاگ سکتا تھا باہر عثمان گورایہ بھائی مجھ سے پہلے بھگوڑا بن کے پہنچ چکے تھے جان پہچان تو پہلے بھی تھی لیکن وہ دوران میٹنگ سر عام میری تعریفیں کر کے اک قرض چڑھا چکے تھے تعریف کر کے احسان چڑھانا ہائے۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک عام مرض ہے لیکن احسان فراموشی بھی تو اک اخلاقی جرم ہے مجبورا ان کے ساتھ ہو لیا وہ مجھ سے گرافکس کے حوالے سے کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے میں نے ایک اچھا ٹیچر بننے کی کوشش کی اور انہیں “پینٹ” پر تصویریں ڈیزائن کرنا سکھا دیں اور انہی مہمانوں کی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔

 

اگلے دن ناشتے کی میز پر بہت سے ساتھیوں سے تعارف ہوا اور یہیں ازراہ مزاح ایک بلاگران یونین کا قیام بھی عمل میں آیا فہد کہر بھائی، وقاراعظم بھائی، کاشف نصیر بھائی اور مصطفٰی ملک صاحب کے ساتھ بیٹھ کر کیا گیا ناشتہ کبھی نہیں بھولے گا کیونکہ اس ناشتے کے ذائقہ کی حلاوت چنے نان، دہی اور چائے میں نہیں ساتھیوں کے چہروں اور آوازوں میں تھی جن کے ساتھ گزرنے والا ایک ایک لمحہ یادوں کے حسین اوراق پر ثبت ہو رہا تھاناشتے سے فارغ ہو کرآڈیٹویم کی جانب نکلے اور دارالضیافہ کے سامنے کراچی سے آئے ساتھیوں سے ملے — اسد فاروق بھائی —- اف خدایا—- زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں — یہ تو سنا تھا پر اسد فاروق بھائی ایسے زندہ دل کہ جو صرف خود نہیں دوسروں کے جینے کا بھی بہانہ بنتے ہیں اور یہ بہانہ مجھے یوں پسند آیا کہ پھر سارا دن کسی دوسرے کو بھی بلاتے تو میرے کان کھڑے ہو جاتے باقی سب تو اپنے کمروں کی چلے گئے اور میں انہی کراچی کے ساتھیوں میں ایک بابا جی کے ہمراہ آڈیٹوریم آ گیا سرراہ معلوم ہوا کہ یہ باباجی ہمارے ٹویٹر کے کمانڈر سراج الاسلام صاحب ہیں تب احساس ہوا کہ صرف الفاظ ہی نہیں چہرے دیکھنا بھی کتنا ضروری ہوتا ہے۔

 

ڈاکٹرنعیم صفدر بھائی کا فورم کے حوالے سے لیکچر تھا ، ڈاکٹر صاحب سے میرا کوئی نیا تعارف نہیں سوشل میڈیا پر ملنے والا وہ پہلا جماعتی تھا بالکل ایسے ہی جیسے پہلی محبت ہوتی ہے انہی کی رہنمائی میں ، میں نے جماعت کے لیے سوشل میڈیا پر کام کرنا شروع کیا اور آج بھی انہی کو سوشل میڈیا کا رہبر مانتا ہوں حقیقتا کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو پلان جو منصوبہ ان کے دل و دماغ میں ابھرے اس کے لیے خود ہی اسباب پیدا کرتے ہیں، خود ہی مواد اکٹھا کرتے ہیں اور پھر خود ہی کسی مزدور کی طرح جاں کنی سے کام شروع کر دیتے ہیں ڈاکٹر نعیم صفدر بھائی ان جیسوں کی ایک پرعزم اورزندہ مثال ہیں ان کے بعد فہد کہر بھائی کا بلاگنگ کے حوالے سے پروگرام تھا اور اس ورکشاپ سے کچھ سیکھنے اور حاصل کرنے کے متعلق پوچھا جائے تو اس کا آغاز بھی یہیں سے ہوتا ہے فہد کہر بھائی کے بارے ہمیشہ یہ خیال رہا کہ وہ اپنے کام اور مرتبہ کے لحاظ سے ایک بڑی شخصیت ہیں اور حقیقتا ایسا ہی ہے ان کے ساتھ میرا دوسرے دن کا پیشتر وقت گزرا اپنے علم و عقل میں وہ بڑی عمر کے ہیں لیکن مجھے ساتھ رہتے ہوئے زرا احساس نہیں ہونے دیا بلکہ یوں لگا جیسے مجھ سے بس ایک دن پہلے ہی اس دنیا میں قدم رکھا ہو گا وقفے کے بعد زبیر منصوری صاحب کا پروگرام تھا، وہی صاحب جن سے تھوڑی دیر پہلے شمس الدین بھائی کے توسط سے ملا تھا وہ ہاتھ میں ٹافیوں کا ایک ڈبہ لیے ہال میں داخل ہوئے اور پھر جس طرح انہوں نے بلاگ لکھنا سمجھایا مجھے برٹش کونسل کی “ٹیلینٹڈ ریسرچر ایکسچینج پروگرام” کے نام سے ہونے والی ورکشاپ یاد آ گئی جس میں مختلف سرگرمیوں سے سکھایا اور سمجھایا جاتا ہے نام سے تو پہلے ہی واقف تھا لیکن اپنے کام میں استاد کی حیثیت میں انہیں پہلی بار دیکھ رہا تھا اور ایک ہی گھنٹے میں انہوں نے بہت کچھ سکھا دیااس کے بعد سید منور حسن صاحب کا الوداعی خطاب تھا۔

 

ایجنڈا کے لوازمات ختم ہوئے لیکن یادوں کے دیپ نہیں بجھے سعد خان بھائی ، ابراہیم قاضی بھائی اور کئی ساتھیوں سے تعارف اور اخوت کے نظارے جملوں کے محتاج نہیں، آخری لمحے رابیل چوہدری آ ملے وہ ابوظہبی سے تشریف لائے تھے مجھے افسوس رہے گا کہ ان سے کچھ زیادہ گپ شپ نہ ہو سکی، رات ارشد اللہ بھائی سے بھی دلچسپ انداز میں تعارف ہوا موصوف آئی ٹی لیب میں مصروف تھے اور میں ان کی شکل سے نا واقف تھا خیر سب کو سلام کیا اور شمس الدین بھائی سے لیپ ٹاپ لے کر ان کے قریب جا بیٹھا 10 منٹ بعد وہ اٹھ کر جانے لگے سلام کر ہی رہے تھے کہ شمس الدین بھائی نے پوچھ لیا کہ یہ ساتھ بیٹھے کون ہیں اور خود ہی جواب دے دیا کہ یہ غلام اصغر ساجد ہیں اور مجھے بتایا کہ یہ ارشد اللہ بھائی ہیں فلاں پیج والے دوبارہ گلے لگ گئے، رات سعید کیانی بھائی کے ساتھ منصورہ یاترا کی حزب کے چاچا بغدادی کی چائے اورصلاح الدین کی پر مزاح باتوں سے لطف اندوز ہوئے-
اگلی صبح ادارہ معارف اسلامی میں حافظ ادریس صاحب کے ہاں حاضری دی اوریوں ڈھیر ساری یادیں سمیٹ کر منصورہ کو اللہ حافظ کہا۔

 

اس ورکشاپ میں اخوت بھی تھی، محبت بھی تھی، جذبات اور احساسات بھی تھے اورآگے بڑھنےکےعزائم تھے احتشام شاہد بھائی، فیاض بھائی اور بشیرالدین بٹ بھائی بھی اس موقع پر بہت یاد آئی لیکن مجھے ایک شخص کی بہت کمی محسوس ہوئی کہ سوشل زندگی میں زندگی کا احساس وہی ہے بلال ساجد بھائی  اگر سچ میں میرے ساتھ وہاں موجود ہوتے تو ورکشاپ کا مزہ دوبالا ہو جاتا۔

دائیں سے بائیں: سعد احمد، سراج الاسلام، فہد کہر، کامران نواز، غلام اصغرساجد (راقم)، کاشف نصیر، وقاراعظم اور اسدفاروق

فیس بک تبصرے

کنیکٹ فار چینج— میری روداد“ پر 2 تبصرے

  1. برادر ! آ پ نے ورکشاپ کے ان حصوں کو موضوع گفتگو بنا یا جو ہماری پہنچ میں نہ تھے۔ ادب اور طنز کا بہترین امتزاج ہے۔اللہ کرے اور زور قلم زیادہ!

  2. واہ جی کیا بات ہے بہت خوب آپ نے اس پروگرام کی روداد بھی پڑھا دی جس میں میں شریک نہیں ہوسکا.

Leave a Reply