نامعلوم مخلوق

دیومالائی اور طلسماتی دنیا سے ہر فردکا تعارف یقیناً بچپن میں
ہی ہوا ہو گا جب وہ اپنے بزرگوں سے کہانیاں سنا کرتے تھے انہیں سننے کے بعد سب بچے یہی سوچتے رہتے تھے کیسی ہوگی وہ طاقتور دنیا جو موجود ہے ہمارے بزرگوں کو اسکا علم ہے لیکن کسی کو نظر نہیں آتی دکھائی نہیں دیتی۔دن بھر اسی نامعلوم مخلوق کے بارے میں سوچتے گزر جاتا کہ کیسے وہ سب کے سامنے طاقتور بادشاہ کی شہزادی کو اٹھا کر ایسے غائب ہو جاتے ہیں کہ کوئی اسکو روک نہیں سکتا اور نہ کوئی اسکا کچھ بھگاڑ سکتاہے۔پر جوں جوں ہم بڑے ہوتے گئے اس بات کا یقین ہوتا گیا کہ وہ صرف کہانیاں ہی تھیں حقیقت میں ایسی کوئی مخلوق اور دنیا وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔
لیکن پاکستانی میڈیا نے ہماری یہ غلط فہمی دور کر دی جو ہمیں دن رات یہ بتاتا رہتا ہے کہ تمہارے ہی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک ایسی دنیا اور مخلوق پائی جاتی ہے جسے سب جانتے ہیں پہچانتے ہیں پر وہ نامعلوم رہتی ہے ذرا سا غصہ ہو جانے پر وہ مخلوق سب کی آنکھوں اور کیمروں کے سامنے دو کروڑ انسانوں کے شہر کو مکمل طور پر مفلوج کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ جب جسے چاہتیں ہیں اٹھا لے جاتے ہیں جب چاہتیں ہیں انسانوں کے قتل و غارت کا بازار گرم کر دیتے ہیں اورجب پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے تو سیکیورٹی گارڈزاور پولیس کی موجودگی میں بنک لوٹ کر غائب ہوجاتے ہیں اور سب سے حیران کن بات یہ ہے  CC TV پر چہرے پہچان لیئے جانے کے بعد بھی وہ نا معلوم ہی رہتے ہیں۔
چلیئے بقول میڈیا کے اس غیر معمولی نا معلوم مخلوق کی مزید چند کاروائیاں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گفتگو گستاخی محسوس ہوئی تواسی نا معلوم مخلوق نے رات و رات پورے شہر کی دیواریں اتنی گندی اور غلیظ گالیوں سے بھر دیں کہ معصوم بچوں کے والدین کے سخت احتجاج پر دیواریں صاف کرنا پڑیں۔
جب سندھی عوام نے اپنے حقوق کے تحفظ کیلیئے آواز بلند کی تو چند ہی گھنٹوں میں پورے شہر میں مہاجر صوبے کے بینرز اور وال چاکنک نظر آنا شروع ہوگئے اور پھر ایک ہی اشارے سے سب بینرز اور چاکنگ غائب ہوگئی۔
2008, مئی 12
بہت غیر معمولی دن تھا جب ملک کے منصف اعلیٰ نے مجوزہ طور پر مقبوضہ کراچی میں جانے کا فیصلہ کیا جسے اس نا معلوم مخلوق اسکے سالار نے پسند نہیں کیاپھر کیا تھا آنکھیں جھپکتے ہی بھاری بھرکم کنٹینرز سڑکوں پر نظر آنے لگے وہ عوام جس نے بلا اجازت اپنے منصف اعلیٰ کے استقبال پر جانے کی گستاخی کی توان پر چھتوں،پلوں اور سڑکوں پر سے اتنی شدید فائرنگ ہوئی کہ ۵۵کے قریب انسان قتل اور سینکڑوں زخمی ہوچکے تھے پولیس اور رینجر موجود تھی پر ان کے ہاتھوں سے اسلحہ غائب ہو چکا تھاہر طرف خون کی خولی کھیلی جارہی تھی لیکن سب کی زبان گھنگ تھیں ایسے میں چند سر پھرے صحافیوں اور کیمرہ مینوں کی ہمت کی بدولت قاتلوں اور مقتولوں کو پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھاسب کے چہرے پہچانے جارہے تھے ان کے عزائم اور مقاصد سب کے سامنے تھے اور جب حقائق جاننے کیلیئے لوگ میڈیا کے سامنے بیٹھے تو یہ سن کر سب حیران رہ گئے کہ یہ سب ایک نا معلوم مخلوق کی کارستانی تھی۔
جب ایک بہادر صحافی ولی خان بابر نے اس نا معلوم مخلوق کو جاننے اور ان کے حقائق عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تو سب کے سامنے پر رونق سڑک پر اسے بے دردی سے قتل کر دیا گیا اورآہستہ آہستہ اس قتل کے جتنے بھی گواہ تھے وہ بھی اسی نا معلوم مخلوق کے غضب کا نشانہ بن گئے پر کوئی اس مخلوق کی اصلیت سامنے لانے کو تیار نہیں ہے۔
اور ابھی چند دن پہلے ہی جب چیف جسٹس نے ایک گستخانہ نوٹس جاری کیا تو اچانک پورا شہر گولیوں سے گونجنے لگا تمام مارکیٹیں، کارخانے اور تعلیمی ادارے بند کروا دیے گئے ہزاروں افراد جیف جسٹس کو گالیاں بکتے سڑکوں پر آ گئے سب حیران تھے کہ یہ ہوکیا رہا ہے اور یہ گتھی بھی پھر میڈیا نے ہی سلجھائی کہ یہ سب اسی نامعلوم مخلوق نے کیا ہے اور اس نے اپنا جمہوری حق استعمال کیا ہے کیونکہ وہ بہت غصے میں ہے ۔
میں اس سوچ میں مبتلا تھا کہ اس نا معلوم مخلوق کو کیسے معلوم کیا جائے تو اچانک مجھے بچپن کی بزرگوں کی وہ بات یاد آ گئی کہ اس طلسماتی اور دیو مالائی دنیا اور اس مخلوق کے سالار کی طاقت اور جان ایک طوطے یا کبوتر میں ہوتی ہے اگر اسے قابو کر لیا جائے یا اسکی گردن مروڑ دی جائے تو اس مخلوق اور انکے سالار کو اس غیر معلوم طاقت سے محروم کیا جاسکتا ہے ۔تو سوال یہ ہے مقبوضہ کراچی کے اس نامعلوم مخلوق اور اسکے سالار کی طاقت کس میں ہے؟؟؟
کافی سوچنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس نا معلوم مخلوق کی ساری طاقت میڈیا کی خاموشی اوربزدلی میں ہے اگر ہمارا میڈیا نڈر اور بے خوف ہو کر صرف حقائق اور سچائی کھل کر عوام کے سامنے لے آئے تو خدا کی قسم اس نامعلوم مخلوق کو معلوم بننے میں دیر نہیں لگے گی او ر پھر اہلیان کراچی سمیت ہم سب ہمیشہ کیلیئے انکے شر سے محفوظ ہوجایءں گے۔

فیس بک تبصرے

نامعلوم مخلوق“ پر 9 تبصرے

  1. بہت زبردست بلاگ ہے ۔ لیکن اس نامعلوم مخلوق کی جان میڈیا کے ساتھ ساتھ اسٹیبلیشمنٹ کی مٹھی میں بند ہے جس دن اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اس نامعلوم کو معلوم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

  2. ماشاء اللہ بہت اعلی آرٹیکل ہے جو حقائق پر مبنی ہونے کے ساتھ شہراد بھائی کے حسن تحریر کا نمونہ ہے، جیتے رہیے شہزاد بھائی

  3. بلاگ پڑھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ایک نامعلوم نے ایک نا معلوم کو معلوم کراتے کراتے خود کو معلوم میں شامل کروا لیا ہے کہ وہ نہ صرف لکھ سکتا ہے بلکہ بہت اچھا لکھ سکتا ہے ، ان دو کو معلوم کر و ا نے پر بہت بہت شکریہ

  4. بہت اچھا تجزیہ ہے! میڈیا میں غیرت کا ہی فقدان ہے ورنہ یوں ہماری آ نکھوں میں دھول نہ جھونکتا۔ کس طرح ایشوز کو مسخ کیا جارہا ہے ۔ اب یقین ہوتا جارہا ہے کہ ہماری تاریخ کے حقائق بھی اسی طرح ہمارے سامنے مسخ کر کے سامنے لائے گئے ہوں گے۔ گویا تاریخ کی درستگی کا فریضہ بھی ہمیں ادا کر نا ہے۔

  5. I appreciate you.great article

  6. A very excellent way of writer and I will say a master piece 🙂 Stay blessed and keep writing and unfold these characters of our society and let the people of Pakistan know that there is very fine line between silence and ignorance so being educated they need to raise the voice as media is also belong to us and we are Pakistan and we are Muslims. Its our prime responsibility to raise the voice against the evil of time as raising voice against the oppressor of time is sign of Faith. Stay Blessed and keep sharing knowledge to People of Pakistan and let them understand our only inheritance is knowledge learning and education .

  7. ! Shahzad bhai buhat khubsurat tehreer

  8. میں آپکی اس بات سے بلکل متفق نہیں ہو کہ اس نامعلوم قوت کی اصل طاقت میڈیا کی پردہ پوشی ہے ، درحقیقت اس نامعلوم قوت کی اصل طاقت بھیڑ چال پر یقین رکھنے والے مفلوک الحال اور تہی دامن اور کثیر تعداد میں غرابا ہیں جو جنہیں یہ ورغلا اور سبز باغ دکھا کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ، طاقت یعنی چھوٹی کاپی اور بڑی کاپی دیتے ہیں، اپنے جیسے لوگو ں سےپیسے کمانے ، چھیننے ، گھسیٹنے کے گر سکھتاے ہیں، انہیں عہدے دیتے ہیں، نوکری اور پلاٹ بھی دیتے ہیں، کبھی کبھی اسمبلیوں کی سیر بھی کرا دیتے ہیں۔۔ 1986 سے لے کر اب تک اس طاقت نا ایک منصوبے کہ تحت کراچی کے تعلیمی اداروں کو برباد کیا ہے جس کی وجہ سے بے عقل اور سمجھ ًحشرات العرض ً کی کھیپ کی کھیپ ان کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے۔۔۔

Leave a Reply