امید کا قتل

میں لکھنا نہیں چاہتا تھا ، مجھے معلوم ہے کہ میرے عزیزوں میں کسی کا دل دکھے گا اور کسی کا جگر تڑپے گالیکن کیا کروں کچھ موضوع بہت ضدی ہوتے ہیں لوگوں کے احساسات سے لاپرواہ ، ہوا کی روش کے الٹ اور نتائج سے بے نیاز – میرے مہربان کبھی کبھی اس بے رنگ سے موضوع پر جاذب نظر سبز رنگ پینٹ کر کے     دکھاتے تھے اور کہتے تھے کتنا پیارا لگ رہا ہے اور میں چند لفظوں کا تبادلہ کر کے رک سا جاتا

جی ہاں میرا موضوع وہ امید ہے جسے سونامی کا نام دے کر ڈرانے کا کام لیا جاتا ہے اس نے پاکستان کے بچے بچے کے آنگن میں امید کا چراغ روشن کر کے خوش نما مستقبل کےسبز باغ دکھاۓ نوجوان اس کی زد میں آ ئے کہ ایم اے پاس دماغ بھی کچھ کام نہ آ ئے اور اس آس نے یوں دلوں میں جڑ پکڑی کہ بینزی بیٹر (ایسا اسپرے جس سےغیر ضروری جڑی بوٹیوں کا صفایا کیا جاتا ہے ) کا اسپرے بھی کر لو تو پھلنے پھولنے لگے لیکن ابھی چند ماہ ہی گزرے کہ دھند چھٹنے لگی اور مطلع صاف ہو رہا ہے نظر آرہا ہے کہ جس نے پاکستان کے سیاسی گند کو صاف کرنے کا نعرہ لگایا تھا اس نے مزید اس کو پراگندہ کر دیا ہے
آج اس امید کا حال اس پودے کا سا ہے کہ جسے آپ روزانہ خون پسینہ دیتے ہوں ، اپنے آئیڈیاز کی کھاد دیتے ہوں اور جسے صبح شام دشمن نما مخالفوں کی تپش سے بچاتے ہوں صرف اور صرف اس یقین پر کہ بڑا ہوگا تو میٹھے اور لذیز پھل دے گا لیکن ہوا کچھ یوں کہ جوں جوں یہ پودا بڑھنے لگا پھلوں کے پھول کی کونپلوں کے بجاۓ نوک دار کانٹوں کے مسام نظر آنے لگے سوچئے اس وقت ایک بے لوث کارکن کی صورت حال کسی ہپاٹائٹس کے مریض جیسی ہوتی ہے جسے اچانک پتا چلا ہو کہ اسے یہ مرض لاحق ہو چکا ہے پھر یاد آتا ہے کہ ایک نادان سی سوچ دل و دماغ پر دھند کی طرح چھا جاۓ تو ہم کس حد تک بہہ جاتے ہیں اور کھلی آنکھوں کے آگے بھی اندھیرا سا ہو جاتا ہے چند لفظوں کے بعد آپ کی اس ٹوٹی امید کو ایک توانا آس و یقین کی جانب لیے چلتا ہوں ، بس مجھے یہ بتا دیجئے کہ اقتدار کا لالچ اس قدر منہ زور کیوں ہوتا ہے کہ اچھے اور برے کا فرق مٹ جاتا ہے اور لیڈروں کو اپنے قول و عمل کی سیاہی بھی نظر آنا بند ہو جاتی ہے ، دوستوں ذرا سوچو کیا ایسی امیدوں اور لیڈروں کو ، چوروں اور لٹیروں کو، جاگیرداروں اور وڈیروں کو ، گیلانیوں اور زرداریوں کو ،  حاجیوںاورشریفوں کو ، بھتہ خور دہشت گردوں اور فطرانہ خوروں کو، لبرز اور روشن خیالوں کو گھر میں پڑے مرے ہوۓ چوہے سے زیادہ اہمیت دینا چاہے ؟ جسے آپ فوراّ اٹھا کے باہر پھینک آتے ہیں
چلیں کہ سوچوں کو بدل ڈالیں”سب چور ہیں ” کو دماغ سے نکال دیں کیوں کہ اللہ کی زمین کبھی بھی نیک اور صالح لوگوں سے بانجھ نہیں رہی ، ہر دور میں موسیٰ اور فرعون موجود رہے ہیں بس ہماری آنکھیں ہیں کہ دیکھ نہیں پاتی ورنہ مکہ کا وہ عظیم شخص جس پر میرے اور آپ کے ماں باپ قربان، امانت اور سچائی میں پورے عرب میں مشہور و ممتاز، اپنے پیروکاروں کی گنتی ایک دو سے شروع نہ کرتا- میں پاکستان کے ان صالح افراد کا ذکر کروں گا تو بہت سے لوگ “لو جی ” کہہ کر ناک بھویں چڑھائیں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان ملک کی صاف اور شفاف منظم پارٹی ہے لیکن اس کی بابت ہماری راۓ کا حال اس مکھی جیسا ہے جو میڈیا کی مکڑی جال میں پھنس چکی ہو چہ جائیکہ میڈیا گیٹ نے سب عیاں کر کے انکو ننگا کر دیا ، ہم پھر بھی اسی جال میں پھنسے ہوۓ ہیں بہتر ہے کہ جماعت اسلامی کا خود سے مشاہدہ کیا جاۓ طالب حق کی حثیت سے اپنی ذہنی بدگمانیوں کو ٹھیک کیا جاۓ یہاں کوئی فرد محض نعرہ لگانے والا کارکن نہیں ہے وہ ایک با اختیار اور احتساب کا حق رکھتا ہے

محترم ڈاکٹر فیاض عالم صاحب سے کسی نے دریافت کیا کہ بھلے اتنے دانا بینا ،” آپ کیوں جماعت اسلامی میں ہیں ؟” انہوں نے دس نکات پیش کیے
١ – جماعت اسلامی کوئی مورثی پارٹی نہیں ہے
٢ – جماعت اسلامی کی لیڈر شپ کرپٹ نہیں ہے
٣ – جماعت اسلامی جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، وڈیروں، سرداروں اور لینڈ مافیا کی جماعت نہیں ہے
٤- جماعت اسلامی کے کسی لیڈر نے بنکوں کے کروڑوں روپے ہڑپ نہیں کیے
٥- جماعت کے کسی لیڈر نے پلاٹ، پرمٹ اور پراڈو حاصل نہیں کیے
٦- جماعت اسلامی کے کسی لیڈر کا پیسا سوئس بنکس میں نہیں ہے
٧- جماعت اسلامی مسلکوں سے بالاتر ہے
٨- جماعت اسلامی لسانیت سے ماورا ، رنگ ، نسل اور صوبائی عصبیت کی سیاست نہیں کرتی
٩- جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جمہوری پارٹی ہے
-١٠ جماعت اسلامی قرآن و سنت کی دعوت دیتی ہے اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے اتحاد کی داعی ہے

آپ بھی آگے آئیے کم سے کم جماعت اسلامی پاکستان  کی سرگرمیوں کو جا نچئے لیکن محض تنقید براۓ تنقید کو چھوڑئیے یہ ملک کی خدمت ہے نہ کار ثواب بلکہ میرے پیارے بھائی اختر عباس کہتے ہوتے ہیں کہ لڑنے والے لڑتے ہی رہ جاتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ ان کے پاس مشکلات سے لڑنے کا جذبہ تو دور کی بات بڑا خیال اور بڑی سوچ بھی نہیں ہوتی –

فیس بک تبصرے

امید کا قتل“ پر 3 تبصرے

  1. ایک بات سمجھ سے باہر ہے۔چلیں یہ بات تو حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اسلام اور پاکستان کیلئے حق کی آواز اٹھاتی ہے اور ریلی جلسے جلوس کے ذریعے اپنا موقف بیان کرتی ہےلیکن لیکن۔۔لیکن اس کے نتائج کیوں نہیں نکلتے ۔ چاہے و ہ عافیہ صدیقی کا معاملہ ہو ، ڈرون اٹیک ہو یا گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہو۔۔یا پھر “شاندار اسلامی انقلاب“ غرض لوگوں کے سمندر کا ٹھاٹھیں مارتا سیلاب ہوتا ہے اور جناب امیر جماعت اسلامی لوگوں سے خطاب کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ معذرت کے ساتھ جناب امیرجماعت اسلامی صرف ایک زبانی کلامی تنظیم تو نہیں ہے۔کیونکہ 12 سال سے تو میں دیکھ رہا ہوں ڈرون اٹیک کا مسئلہ تو ان سے حل نہ ہوسکا۔ کیونکہ اگر یہ واقعی یہ عملی طور پر کام کرنے والی تنظیم ہوتی تو اب تک “شاندار اسلامی انقلاب“ کے جلسے جلوس کے بات ، “امریکہ مردہ باد“ جیسے جوش و جزبے والے نعرے لگانے کے بعد جلسہ ختم ہونے کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں میں ۔۔ بینر جس میں “اللہ محمد“ کا نام ہو ۔اس طرح سڑکوں پر گرا ہوا نہ ہوتا۔ وہ جوش جزبہ زبانی کلامی پر ختم نہ ہوتا۔۔MQM,PPP,ANP جیسی پارٹیاں آپ لوگوں کا مذاق نہیں اڑاتی۔۔کہی بادل نخواستہ جماعت اسلامی بھی کہی امریکی ایجنڈے پر تو کام نہیں کررہی۔۔برائے مہربانی میرے سوالات کے جوابا ت دیں ۔۔
    ایک عام مسلمان پھر اس کے بعد
    ایک عام پاکستانی

    • السلام علیکم
      شائد آپ جماعت اسلامی کی فکر اور طریقہ سے واقف نہیں ہیں ، جماعت اسلامی مہذب جمہوری روایت پر کام کرنے والی ایک انقلابی جماعت ہے ، دستور جماعت میں ہر غیر آئینی اور انڈر گراونڈ کام کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ، اب ایک پر امن جماعت اپنے ایجنڈے کو کس طرح نافذ کر سکتی ہے ؟ اگر راۓ عامہ کو ہموار کرنے کے علاوہ کوئی ترتیب ایسی موجود ہے جس سے مسائل حل ہوں تو ہمیں بھی بتائیں – جماعت اسلامی باقاعدہ طور پر دو شعبوں میں اپنے کام کو تقسیم کرتی ہے ، ایک اصلاح و تربیت کا اور دوسرا سیاسی جدوجہد کا یہ دونوں کام ہم لازم و ملزوم سمجھتے ہیں خالی اصلاح و تربیت بھی کوئی اسلامی معاشرہ نہیں قائم کر سکتی اور نہ خالی اسلامی حکومت – میں تھوڑا اسکو کھولنے کی کوشش کرتا ہوں آپ مسجد میں صبح و شام دین داری کی باتیں کریں اور لوگوں کو اسلام کی جانب مائل کریں یہ کتنا پر اثر ہو سکتا ہے جب ہر گھر میں ٹی وی پر چوبیس گھٹنے اسے شیطان کی طرف بلایا جا رہا ہو ؟ اب آپ کو اتنا تو معلوم ہو گیا ہو گا کہ جماعت اسلامی کیسے معاشرے کو اللہ کے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے
      اب سوال یہ کہ ہم ابھی تک ناکام کیوں ؟ عافیہ صدیقی کا معاملہ ہو ، ڈرونز کا ہو یا گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ، جماعت اسلامی نے ہر پر امن راستے سے اس کے حل کی طرف قدم اٹھایا ہے ، جماعت اسلامی کے بڑے بڑے احتجاج ہوۓ لیکن ان کا اثر اس لیے کم رہا کیوں کہ میڈیا پر پروجیکٹ نہیں ہو پاتے اور بہت سی ایسی چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ہم محسوس نہیں کر پاتے مثال کے طور دس سال سے جماعت اسلامی اس قوم کو کہتی رہی کہ امریکا ہمارا دوست نہیں ، گو امریکا گو کی تحریک امیر جماعت نے حلف کے تیسرے دن اٹھا دی لیکن پوری قوم اسلیے انکاری رہی کہ یہ داڑھیوں والے جہل بکتے ہیں اور جب امریکا نے اپنی غلطیوں سے ثابت کیا یا اپنے عزائم سے ثابت کیا تو اس قوم نے اقرار کر لیا لیکن تب تک اس ملک کی اکنامک تباہ ہو چکی اور امریکا نے اپنے پنجے مضبوط کر لیے – ہم سمجھتے ہیں قوم سیکھ رہی ہے ہماری دعوت آج بھی جاری ہے اگر یہ قوم بڑے پیمانے پر ساتھ دے تو ہم اپنی چند غلطیوں کے باوجود ہر رکاوٹ ہٹا دینے کی ہمت رکھتے ہیں –

  2. وعلیکم السلام
    سب سے پہلے آپ کا شکریہ کہ آپ نے بڑے سلیقے سے اپنے اور جماعت کے خیالات سے آگاہ کیا ۔
    صرف آخری بات۔۔“جماعت اسلامی مہذب جمہوری روایت پر کام کرنے والی ایک انقلابی جماعت ہے“۔ بھلا اسلام کا جمہوریت سے کیا تعلقِ؟۔ یہ جموریت ہی تو ہے جس کی بدولت آج زرداری صاحب نے ملک کا بھیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔MQM اور ANP جیسے بھیڑیوں کو اپنے ساتھ ملا دیا۔امریکہ کے بغیر ایک قدم بھی نہ اٹھانا۔بلیک واٹر جیسی تنظیموں کو ملک کے دارالخلافہ میں فل پروٹوکول کے ساتھ جگہ دینا۔
    PPP نے تو جموریت کا سل بٹا عوام کے سینوں میں رکھ دیا ہے کیا جماعت اسلامی بھی “جمہوریت کی بدولت اسلامی انقلاب لائے گی۔
    میری ناقص رائے تو یہ ہے کی انھیں عوام کے زہنوں میں یہ شعور بیدار کرے کہ ملک کے حکمرانوں کے خلاف عملی طور پر کچھ کریں ، کہ اب ان سے کچھ نہیں ہونے والا ۔نہ مہنگائی ، نہ غربت،بیروزگاری،دہشتگردی،لوڈشیڈنگ۔۔کچھ نہیں ہونے والا۔فوراً سے پیشتر اپنی سیٹ چھوڑدیں ورنہ اس عوام کے صبر کا پیمانہ اگر لبریز ہوگیا تو آپ کو اپنے گھروں سے کھینچ کے لائے گی۔ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی مضبوط کریں کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ کے بس میں اب کچھ نہیں رہا بالکل بےبس یا “بس“ کردیا ہے۔

Leave a Reply