نفرتوں کے سوداگر

اس وقت پورے ملک میں قوم پرستی کی آگ بھڑکائی جارہی ہے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں اس آگ کی تپش کچھ زیادہ ہی ہے۔ ایک بڑا عجیب معاملہ یہ ہے کہ سندھی قوم پرست خود علی الاعلان سندھو دیش کا نعرہ لگائیں، سندھ کو توڑنے کی بات کریں ۔ ان کے جلسوں اور ریلیوں میں پاکستان توڑنے کی بات کی جائے ۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب مرحوم بشیر قریشی نے کراچی میں ریلی نکالی تھی۔ نمائش چورنگی پر یعنی مزار قائد کے سامنے کون توڑے گا پاکستان ۔ بشیر خان بشیر خان“ کے نعرے بلند کئے گئے تھے۔ (اب یہ اتفاق ہے کہ اس ریلی کے چند دن بعد ہی اللہ تعالیٰ نے بشیر خان مرحوم کو اپنے پاس بلالیا) ایک طرف تو یہ حال ہے دوسری جانب اگر کوئی دوسری پارٹی سندھ میں مزید صوبوں کا مطالبہ بھی کردے تو یہ یہی قوم پرست فوراً حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ کر اس کی مخالفت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسے کسی بھی موقع پر معلوم ہوتا ہے کہ شائد ان کے سے بڑھ کر کوئی بھی پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہے لیکن جب بھی ان کو موقع ملتا ہے تو یہ سندھو دیش اور پاکستان توڑنے کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔ یہ بات بھی آن ریکارڈ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے انتقال کے موقع پر گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں ”پاکستان نہ کھپے کا نعرہ“ بلند کیا گیا تھا۔سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا یہ انکشاف بھی آن ریکارڈ ہےکہ” بی بی کے قتل کے بعد ہم نے پاکستان توڑنے کا منصوبہ بنا لیا تھا مگر صدر زرداری نے ہمیں ایسا کرنے سے روک دیا “ اگر چہ انہوں نے یہ بات صدر آصف علی زرداری کی حمایت میں کہی تھی لیکن بہر حال سچ تو سامنے آگیا۔

 

سندھ پاکستان کا حساس ترین صوبہ ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کے لئے ایک سے ایک شوشہ چھوڑتی رہتی ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟؟ لسانی بنیاد پر صوبے کے نام کی تبدیلی سے لسانیت کی جو آگ بھڑکائی گئی تھی وہ بڑھتی ہی جارہی ہے، سیاسی پارٹیاں اور نام نہاد قومی لیڈر ز اس آگ کو بجھانے کے بجائے اس مزید پیٹرول چھڑک رہے ہیں۔اے این پی، پی پی پی ، مسلم لیگ نواز، ایم کیو ایم سب کے سب صرف پوائنٹ اسکورنگ میں لگے ہوئے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ان کے کہے گئے چند الفاظ سے عوام پر کیا گزرتی ہے۔ کیا کبھی سندھی قوم پرستوں نے یہ سوچا ہے کہ وہ جو ایم کیو ایم اور مہاجروں کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں اس کا کراچی میں موجود سندھیوں پر کیا اثر پڑتا ہے؟؟ اور کیا ایم کیو ایم نے کبھی یہ نہیں سوچا ہے کہ وہ جب سندھی اور پختون قوم پرستوں کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں تو اس کا اندرون سندھ اردو بولنے والوں پر کیا اثر ہوتا ہے؟؟یا کراچی کے کچھ مخصوص علاقوں میں رہنے والے مہاجروں پر کیا گزرتی ہے؟میرے خیال میں ہمارے یہ لیڈرز اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے بلکہ شائد قصداً وہ ایسے بیانات دیتے ہیں جس سے فسادات ہوجائیں اور ان لوگوں کی سیاست چمکے، عوام آپس میں دست و گریباں ہوں، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں، ایک ہی محلے میں برسوں سے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جائیںاور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ لیڈرز دو دن بعد اسمبلی میں یا میٹنگوں میں ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول ہوتے ہیں۔

 

پختونخواہ میں ہزارہ صوبہ اور پنجاب میں سرائیکی صوبے کی بات چلی تو سندھ کیوں پیچھے رہتا ، یہاں بھی مہاجر صوبے کی تحریک شروع ہوگئی۔ اب اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ اس کے پیچھے ایم کیو ایم ہی ہے۔ بہر حال مہاجر صوبے کی بات سنتے ہیں وہ سندھی قوم پرست جو دو ماہ پہلے تک سندھو دیش اور پاکستان توڑنے کے نعرے لگا رہے تھے اچانک محب وطن بن گئے اور اس مطالبے کو انہوں نے غداری کہتے ہوئے کراچی میں سندھ محبت ریلی نکالی، اس ریلی کے شرکاءپر گولیاں برسائی گئیں، اس سانحے میں بارہ افراد اپنی جان سے گئے۔ اب یہ بھی سامنے آگیا ہے کہ فائرنگ کرنے والے کون تھے اور مقصد کیا تھا؟ ادھر کراچی میں سندھ محبت ریلی پر فائرنگ کی گئی اس کے چند دن بعد ہی نوابشاہ میں مسافر بس پر فائرنگ کا اندوہناک سانحہ پیش آیا ، اس سانحے میں آٹھ افراد جاں بحق اور 25مسافر شدید زخمی ہوئے تھے۔ 29مئی کو پولیس نے اس سانحے کے مرکزی ملزم اعجاز پیرادہ کو گرفتار کرلیا ہے۔ ملزم کا تعلق جئے سندھ قومی محاذ ہے۔

 

قوم پرستی کی آگ میں جھلسے ہوئے یہ گروہ بے گناہ لوگوں کا خون بہا رہے ہیں اور کوئی نہیں سوچ رہا ہے کہ اس کا انجام کیاہوگا؟؟؟ مجھے یہ بتائیںکہ سندھ محبت ریلی پر فائرنگ کے متاثرین ، انکے اہل خانہ اور دیگر دوست احباب کیا اب اردو بولنے والوں کے لئے اچھی رائے رکھیں گے؟ کیا ان کے دلوں میں مہاجروں کے خلاف نفرت نہیں بیٹھ جائے گی، اگر کوئی بہت ہی سمجھ دار ہوگا تو وہ شائد پوری کمیونٹی کو برا نہ کہے لیکن سانحے کے ذمہ داران کے بارے میں تو اس کے دل میں ہمیشہ نفرت رہے گی۔اسی طرح سانحہ نوابشاہ کے جو متاثرین ہیں کیا وہ سندھیوں کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم کریں گے؟؟ کیا وہ سندھی قوم اور سندھ کے ہمیشہ کے لئے دشمن نہیں بن جائیں؟؟ بالخصوص سندھی قوم پرستوں کے لئے تو اب ان کے دلوں میں ہمیشہ نفرت ہی رہے گی۔

 

انہی نفرتوں کا شاخسانہ ہے کہ کراچی پھر لہو لہو ہے، ایک جانب بلوچ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہیں تو دوسری جانب اردو بولنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے۔ آئے روز بوڑھے ماں باپ جوان بچوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں اور نفرتوں کے سوداگر اسی میں خوش ہیں۔ ان لاشوں پر سیاست چمکائی جاتی ہے۔ سندھ ریلی میں فائرنگ سے انسان ہلاک ہوئے تھے، لیکن لطیف پلیجو نے اس موقع کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کیا اور مرنے والوں کے لئے کہا گیا کہ سندھی مرے ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کا معاملہ ہے ، وہ بھی لاشوں کی سیاست کررہی ہے ۔سارے لوگ عوام کی لاشوں پر سیاست چمکا رہے ہیں اور ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ مرنے والوں کے اہل خانہ پر کیا بیت رہی ہے؟؟ ان لوگوں کو تو ایسی ہر واردات سے خوشی ہوتی ہے کہ چلو ایک اور شہید کا اضافہ ہوگیا، چلو اب کچھ دن تک ان پر بیان بازی کی جائے گی۔

 

لیکن میں عوام سے یہ کہوں گا کہ خدا کےلئے اس بات کو سمجھیں کہ جب تک ہم قوم پرستی کی لعنت میں مبتلا رہیں گے یہ معاملات ایسے ہی رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ ”اورسب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو“

اللہ کی رسّی سے مراد اس کا دین ہے ، اور اس کو رسّی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہلِ ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسّی کو ”مضبوط پکڑنے“ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت”دین“ کی ہو، اسی سے ان کو دلچسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجّہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیاءعلیہم السّلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصدِ حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے۔ (سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفھیم القرآن)۔

جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لیس منا من دعا الی عصبیة ولیس منا من قاتل عصبیة ولیس منا من مات علی عصبیة۔ رواہ ابوداود ترجمہ :جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں،جس نے عصبیت کے لیے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں،جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے.

آپ بھی ان لوگوں سے اعلانِ برات کردیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا ہزارہ، سرائیکی، سندھی یا مہاجر کے نام پر نہیں۔ اس لئے قوم پرستی کی سیاست کرنے والوں کو رد کردیں اور آپس میں اتحاد و اتفاق برقرار رکھیں۔

فیس بک تبصرے

نفرتوں کے سوداگر“ ایک تبصرہ

  1. All the stake holders in karachi are being worried on this increasing discrimination and polarization, feeling insecure .this is the agenda of anti-Pak element to not to unite but divide in small fractions so that easy to perish!

Leave a Reply to فرحت طاہر Cancel reply