ڈاکٹر عافیہ کا شکوہ ::: کیا میں ارفع کی قوم کی بیٹی نہیں

فروری میں وہ سولہ برس کی ہو جاتی لیکن 14 جنوری بلاوا آنے پر وہ حاضر ہو گئی اپنے رب کے حضور۔۔۔ اسنے بہت کچھ کیا اتنی سی عمر میں اور اس کے جانے کے بعد ہم نے ثبوت دیا کہ ہم بھی ایک زندہ قوم ہیں ہم تو کھلاڑیوں کو ایسی عزت اور توقیر دیتے ہیں کہ “جو قوم کے لئے ورلڈ کپ لے کر آئے قوم کی تقدیر اسکے حوالے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں! ہمارا میڈیا تو کھلاڑیوں کو وہ درجہ اور مقام دیتا ہے جو دنیا کی تاریخ میں ایک مثال ہے۔

ثانیہ اور شعیب کی شادی میں‌ ہر چینل نے قوم کے کئی دن برباد کئے۔ لمحہ لمحہ کو یوں‌ کوریج دی کہ جس ہوٹل میں چند گھنٹے قیام کرنا تھا انہیں، وہاں  کے باورچیوں تک کے انٹرویو دکھائے! پھر اعصام الحق کی شادی کی یوں کوریج دی کہ ساری دنیا جان گئی سترہ کڑور جیتی جاگتی قوم کے مسائل اور دلچسپیاں‌کیا ہیں؟ اور کتنا وقت اور وسائل ہمارے پاس برباد کرنے کو؟ ہم کھلاڑیوں، اداکاروں، گلوکاروں، سازندوں، ٹی وی کے میزبانوں سب کو وہ عزت دی ہے کہ انہیں قوم کے بچے بچے کے لئے ہیرو بنا دیا ہے۔ اب یہی رول ماڈل ہیں اس قحط الرجال کے دور میں‌۔۔۔

لیکن ارفع سچ مچ اعزاز تھی افتخار تھی ملک اور قوم کے لئے۔ اسکی زندگی میں اسے”پرائڈ آف پرفارمنس” دیا گیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں “فاطمہ جناح گولڈ میڈل” دیا گیا وہ آئی ٹی بین الاقوامی سیمیناروں میں پاکستان کی نمائندگی کر کے قوم کا سر فخر سے بلند کرتی تھی۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں نے اسے ایوارڈ اور میڈل دئے تھے۔۔۔۔

قدردانی میں ہم بھلا کب اور کسی سے پیچھے ہیں بعد از مرگ سے اسے “نشان امتیاز” دینے پر غور کیا  جا رہا ہے “یادگاری ٹکٹ” جاری ہو رہا ہے، وزیر اطلاعات نے اطلاع دی ہے کہ اسکی زندگی پر حکومت “ڈاکومینٹری فلم” بنائے گی، کتاب شائع کریگی، وزیراعلٰی پنجاب نے اعلان کیا ہے بعد ازمرگ اسکی خواہشوں کو پورا کریں گے اور آئی ٹی پارک کو اسکے نام سے منسوب کر دیا ہے۔ وزیراعلٰی سندھ نے بھی کچھ ایسا ہی اعلان کیا ہے۔ ارفع کی جو بھی قدردانی کی جائے جو بھی انداز دیا جائے وہ اسکی مستحق ہے زندہ قومیں ذہانتوں کی یونہی قدردانی کیا کرتی ہیں‌لیکن۔۔۔۔
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی۔۔۔

برنیڈیز یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ لینے والی 7 سال ظلم کی چکی میں پسنے والی، 86 سال قید کی سزا پانے والی وہ عظیم سائنسدان عافیہ صدیقی بھی تو اسی قدرداں قوم کی بیٹی ہے۔ اپنے اسلحہ خانے میں‌ 15 ہزار ایٹمی ہتھیار رکھتے سپر پاور جسکی ذہانت اور صلاحیتوں سے خوفزدہ تھی— ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے “تحفظ ” کے لئے ناگزیر تھا کہ اس نحیف ونزار لڑکی کو مزید 86 برس قید میں رکھا جائے اور اب انکے “کینسر” جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کی اطلاعات میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ وہ تو سترہ کڑور کی اس قوم سے جو کھلاڑیوں کو “تخت وتاج” دینے کو تیار ہے! کوئی تخت وتاج طلب نہیں کررہی۔ اسنے کب کسی “پرائڈ آف پرفارمنس”  کا تقاضہ کیا؟ حکومت کے ایوانوں سے۔ وہ تو خود کو کسی “نشان امتیاز” کا مستحق نہیں سمجھتی۔۔۔۔۔ وہ تو ریمنڈ ڈیوس جیسی فائیو اسٹار اسیری بھی نہیں مانگ رہی۔۔۔ اسکی زندگی پر تو کئی ڈاکومینٹری فلمز بن چکی ہیں، کئی کتابیں لکھی گئی ہیں اور کئی کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ لیکن وہ کال کوٹھری میں اس عقوبت زدے میں اپنی توریف و توصیف سے بے نیاز ہے۔ اسکا دھان پان جسم جو امریکی تشدد کی پہ در پہ ضربیں سہہ کر اب کینسر میں مبتلا ہوگیا ہے وہ اس قوم سے کوئی ایوارڈ و اعزاز طلب نہیں کررہی لیکن ارفع کی قدرو منزلت (جسکی بجا طور پر وہ مستحق ہے) عافیہ اور اسکے خاندان کے لئے سوالیہ نشان ضرور ہے! کہ یہ قوم تو اپنی بیٹیوں کی یوں قدر کرتی ہے انہیں ماتھے کا جھومر بناتی ہے، یوں زندگی میں اور بعد از مرگ یادگاری ٹکٹ جاری کرتی تو قوم اس سائنسدان اعلٰی تعلیم یافتہ حافظہ بیٹی کو کیوں فروخت کردیا گیا؟ بچوں سے جدا کردیا گیا؟ وہ اذیتیں دی گئیں کہ یوان ریڈلے نہ بتاتیں  تو ہم جان بھی نہ پاتے کہ قیدی نمبر 650 تو اس قوم کی بیٹی ہے جسکے حکمرانوں نے ڈالروں کے عوض فروخت کر کے فخریہ اپنی سرگزشت میں اسکا تذکرہ بھی کیا ہے۔

بل گیٹس آعلٰی دماغوں کی قدر دانی جانتے ہیں سات سمندر پار اس بیٹی کے لئے بیماری کی خبر پا کر متحرک ہو گئے۔ امریکا اور دبئی میں میڈیکل بورڈ تشکیل دیدئے اور امریکا اور لاہور کے ڈاکٹروں کو ویڈیو کانفرنسز تک کر ڈالیں اس لئے کہ وہ ذہانتوں کی قدر جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نرگس صدیوں بے نوری پر رو کر چمن میں ایسے دیدہ ور پیدا کرتی ہے اور عافیہ کی یہی دیدہ وری اسے مہنگی پڑی۔ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانؤن کی کھلم کھلا حمایت اور پاکستانی ہونے کی اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی سترہ کروڑ کی زندہ قوم میں کوئی ایک بھی بل گیٹس جیسا دل نہیں رکھتا جو عافیہ کے کینسر کا سن کر یوں بے چیں ہو جاتا اٹھ کھڑا ہو تا۔ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ متحرک ہو جاتا ایک تحریک بپا کر دیتا کہ قیدیوں کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی اسے علاج معالجے کی تمام تر سہولتیں حاصل ہو نی چاہئے۔ ہمارے حکمران کم ازکم علاج معالجے کے لئے ہی ریاستی دباؤ ڈالتے وہ  ریاستی دباؤ جو بارک اوباما تمام تر استعمال کیا  اپنے ایک قاتل ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کے لئے۔ وہ تین افراد کا قاتل تزک و احتشام کے ساتھ امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے اور ہم قوم کے ایک اعلٰی ترین دماغ ایک حافظہ قرآن سائنسدان بے گناہ بیٹی کے لئے نہ حکومتی ایوانوں میں نہ کوئی ہلچل دیکھتے ہیں نہ بل گیٹس جیسی دل سوزی، نہ کسی میڈیکل بورڈ کی تشکیل ہوتی ہے نہ حکومتی عہدیداروں کا کوئی بیان سامنے آتا ہے کہ انکو اسکی بیماری پر کوئی تشویش ہے۔ اپنی تجوری میں ایٹم بم رکھنے والی کڑوروں کی قوم اپنے حکمرانوں کی بے حمیتی کے باعث مکھیوں کی اجتماعیت میں تبدیل ہو گئی ہے جسکی فوجی چوکیاں اور فوجی جوان تک محفوظ نہیں جو امریکی کالونی ہے جہاں کبھی کسی وقت 02 مئی کی ایبٹ آباد کی رات طلوع ہو سکتی ہے۔

اغیار ہماری سرزمین پر کسی بھی وقت کوئی بھی آپریشن کرنے، کسی کو اغوا کرنے ، کہیں بھی ڈرون حملے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ اسوقت کے تیمور اپنی بیٹیوں کی حمیت کی حفاظت نہیں کرسکتے جو بجلی، گیس، امن و امان سے غیرمحفوظ قوم کو میمو گیٹ اسکینڈل میں الجھائے اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرسکتے ہیں۔ جہاں حکمران خود اپنے سیکیورٹی گارڈز کے حصار میں غیر محفوظ اور مقتول ہوں، یزیدوں کے یہ گروہ کیسے حسینی قبیلے کی عافیہ کو “عافیت” کی نوید  دے سکتے ہیں؟ عافیہ اس قوم کا فرض کفایہ ادا کر کے یقیناً “عافیت” کے سفر پر روانہ ہونگی۔۔۔۔۔۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے ہمارا ایمان ہے کہ وقت کی سپر پاور بھی  کسی کی زندگی کا ایک لمحہ بھی کم نہیں کر سکتی، نہ بل گیٹس کی کوششیں  معصوم ارفع کو چند سانس کی بھی زندگی دلا سکیں۔ عافیہ اس جان لیوا بیماری سے کتنا لڑپاتی ہیں، وہ جنکے اعصاب مفلوج کر نے کی ساری کوششیں کی جا چکی ہیں نجانے کب تک زندگی کی جنگ لڑپائیں گی؟ ہاں جب وہ سفر آخرت پر روانہ ہونگی تو ارفع سمیت ہم سترہ کروڑ لوگوں سے ایک سوال ضرور کرینگی” میں کس جرم میں زندہ گاڑی گئی؟

فیس بک تبصرے

ڈاکٹر عافیہ کا شکوہ ::: کیا میں ارفع کی قوم کی بیٹی نہیں“ پر 2 تبصرے

  1. اسلام علیکم
    آہ ! افشاں بہن کچھ کہنے کا یارا نہیں-ہم مجرم ہیں عافیہ کے اور اس کی بے بسی اور ذلت کا کیا کہنا جو خود اپنے خلاف گواہی دے-
    بڑا ستم یہ نہیں ہے کہ ہم ہوئے بے حس
    ستم تو یہ ہے کہ احساس بے حسی بھی گئ

    مگر یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ ایک حد تک ہی ظلم کو پھیلنے دیتا ہے – اسکے بعد وہ ظالم کی رسی کھینچ لیتا ہے-
    درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
    اللہ ہم سب کو حق کے لیئے جینے مرنے کی تڑپ دے آمین-

  2. جیسا کہ اوپر کہا گیا ہم سب اس کے مجرم ہیں۔ ۔ ۔ لیکن میرے خیال میں سب سے بڑے مجرموں میں جنرل(ر) پرویز مشرف ، خورشید احمد قصوری ، اس وقت کا ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایم آئی ، ڈئی آئی جی پولیس سندھ ، سی سی پی او کراچی ، ایس ایچ او ایئرپورٹ ، ایف آئی اے ، آئی بی اور دیگر متعلقہ افراد اور ادارے ہیں جنہوں نے قوم کی بیٹی کو کراچی ایئرپورٹ سے زبردستی پکڑ کر اس سے اس کے بچے چھین لئے اور ڈاکٹر عافیہ کو امریکی کتوں کے حوالے کردیا جو انھیں بگرام(افغانستان) لے گئے ایس میں امریکی سی آئی اے کے علاوہ حامد کرزئی انتظامیہ بھی برابر کی مجرم ہے جس نے اسلام دشمن امریکی صدربش کے کہنے پر افغانستان سرزمین پر پاکستانیوں جن میں بے گناہ ڈاکٹر عافیہ کو بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا،ان سب چیزوں کی خبر سیاسی ، مذہبی جماعتوں کے علاوہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف اور ایجنسیز کو تھی۔ اس کے بعد جب قوم کو پتہ چلا تو قوم سوئی رہی اور ڈاکٹر عافیہ پر زرندگی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔ اگر اس وقت قوم پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، ایم کیوایم ، قوم پرستوں ، مذہبی گروہوں اور لسانی گروپوں میں تقسیم ہونے کی بجائے ایک آواز بلند کرتی تو شائد امریکی بد کردار عدالت یہ ظالمانہ فیصلہ نہ دیتی۔

Leave a Reply