عمران خان کا انقلاب: حقیقت یا ٹوپی ڈرامہ

25دسمبر بروز اتوار کو عمران خان صاحب کو تحریک انصاف نے کراچی میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور جب تک آپ یہ سطور پڑھ رہے ہونگے اس وقت تک اس جلسے کی تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہونگی۔عمران خان کی تحریک انصاف کو کم و بیش پندرہ سال ہوچکے ہیں ۔

1992ء میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے میں کامیابی کے بعد عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اور اپنے منصوبے ’’شوکت خان میموریل کینسر ہسپٹل‘‘ کی تعمیر میں مگن ہوگئے۔ چند سال کا عرصہ وہ اپنے کام میں مصروف رہے اور پھر کینسر ہسپٹل کی تکیمل کے بعد انہوں نے اپنے سیاسی خیالات و نطریات کا اظہار شروع کیا۔ اس کی ابتدا انہوں نے اخبارات میں مختلف مضامین لکھنے کے ذریعے کی۔ ان کے مضامین اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ابتدا میں ان کے مضامین میں مذہبی رنگ نمایاں ہوتا تھا اور انہوں نے اپنے پلے بوائے کے امیج کو تبدیل کرتے ہوئے ایک میچور فرد کے طور پر پیش کیا اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے انہوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر تبدیل بھی کرلیا۔

کچھ عرصے بعد انہوں نے تحریک انصاف کے قیام کا اعلان کیا۔ لیکن ابتدائی طور پر وہ ملکی سیاست میں کوئی ہلچل نہ پیدا کرسکے اور نہ ہی انہیں ملکی سیاست میں کوئی نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ جنرل مشرف کے مارشل لاء کے دور میں ان کی شخصیت زیادہ ابھر کر سامنے آئی اور انہوں نے مشرف کے اقدامات کی حمایت کی ،مشرف سے ان کی قربت یہاں تک بڑھی کہ ان کے وزیر اعظم بننے تک کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ بعد ازاں انہوں نے جنرل مشرف سے دوری اختیار کی اور یہ ان کا بڑا پن ہے کہ وہ انہوں نے جنرل مشرف کا ساتھ دینے کو اپنی غلطی سمجھا اور اس کا اعتراف بھی کیا۔

جنرل مشرف کے ہی دور میں ان کا رجحان مذہبی جماعتوں کی جانب ہوا ور ایم ایم اے ( بالخصوص جماعت اسلامی ) سے ان کی قربت بڑھی ،اس تعلق کے نتیجے میں ان کے حلیے میں بھی ایک خوشگوار تبدیلی آئی اور ان کے چہرے پر سنت نبوی بھی نظر آنے لگی۔لیکن کچھ عرصے کے بعد ہی نامعلوم وجوہات کی بنا پر دوبارہ اپنا حلیہ تبدیل کیا اور ایک بار پھر کلین شیو ہوگئے۔

عدلیہ بحالی تحریک کے دوران بھی عمران خان اور تحریک انصاف کا رول نمایاں رہا۔ اسی تحریک کے دوران 12مئی 2007ء کا واقعہ پیش آیا اور دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے کارکن بھی تشدد کا نشانہ بنے اور ان کی ریلیوں پر بھی حملے کئے گئے ۔خان صاحب نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کیا۔ جس کے جواب میں کراچی کی دیواروں پر ان کے خلاف شرم ناک نعرے اور گالیاں لکھی گئیں۔ خان نے الطاف حسین کے خلاف لندن میں مقدمہ قائم کرنے کا اعلان کیا تو جس طرح راتوں رات یہ نعرے لکھے گئے تھے اسی طرح راتوں رات وہ نعرے مٹا بھی دیئے گئے۔لیکن اس سارے عمل کے دوران عمران خان اور تحریک انصاف ایک مضبوط اور بہادر سیاسی جماعت اور لیڈر کے طور پر سامنے آئے اور عوام نے عمران خان کا نوٹس لینا شروع کیا اور تحریک انصاف کو عوامی پذیرائی ملنی شروع ہوئی اور بالخصوص نوجوانوں کا رجحان تحریک انصاف کی جناب بڑھ گیا۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ اعمال میں تھی

یہ شعر ہمیں اس لئے یاد آیا کہ جیسے جیسے تحریک انصاف کو عوامی پذیرائی ملتی گئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی ویسے ویسے عمران خان صاحب اپنے انقلاب اور نظریات سے دور ہوتے جارہے ہیں۔وہ عمران خان جو ایک سچے ،کھرے اور بے لاگ سیاست دان کے طور پر سامنے آئے تھے اور جن کے بارے میں لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کا دامن بے داغ ہے وہ کرپشن کوختم کریں گے تو شائد اب ان کو اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑے گا۔ تحریک انصاف کو تھوڑی سی کامیابی ملنے پر ہی انہوں نے جو رنگ ڈھنگ دکھایا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ان کو اقتدار ملا تو کیا ہوگا۔

دیکھیں اگر لوگ ان کی صرف چند باتوں کا تجزیہ کریں تو ہماری باتیں سمجھ آئیں گی یعنی دیگ کے چند چاولوں کا نمونہ ہم پیش کردیتے ہیں اس کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب یہ دیگ تیار ہوگی تو کیسی ہوگی۔ سب سے پہلے ہم تحریک انصاف کے نومبر کے لاہور میں ہونے والے جلسہ عام کی بات کریں گے۔ لاہور کا جلسہ عام ایک بہت اچھا اور یادگار جلسہ عام تھابالخصوص تحریک انصاف کے لحاظ سے تو یہ ایک تاریخی جلسہ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اس جلسے کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف کے کارکنا ن اور رہنمایان کی گفتگو میں جو تکبر ،جو غرور آیا وہ دیکھنے کے قابل تھا۔ ان کے لہجے ایسے ہوگئے گویا کہ بس اب یہ شائد ملک کے مالک ہوگئے ہیں اور اپنے مزارعوں کے بارے میں باتیں کررہے ہیں۔ یقیناً مجرموں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جانی چاہیے اور ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے لیکن غرور و تکبر اللہ کو پسند نہیں ہے۔جب آپ کو اقتدار ملے تو اس وقت مجرموں کا سزا دیں لیکن وقت ست پہلے ایسے تکبر بھرے الفاظ کہنا مناسب نہیں ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں نے یہ بتایا کہ وہ کامیابی کو ہضم نہیں کرسکیں گے۔

اس کے بعد آئی ایس آئی کے سابق چیف اور شاہ محمود قریشی کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد تو گویا کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کی ایک لائن ہی لگ گئی۔ اب یہاں بھی عمران خان نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ انکی باتیں اور نعرے صرف نعرے ہی ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اگر ایک فرد (ن ) لیگ سے (ق ) لیگ میں جائے تو وہ لوٹا ہے، اگر ایک فرد پی پی پی سے تعلق توڑ کر (ن ) لیکھ یا (ق ) لیگ جوائن کرے تو وہ لوٹا ہے اور یہ سارا عمل ہارس ٹریڈنگ ہے لیکن اگر ن ق ج وغیرہ لیگ سے اور پی پی پی و دیگر جماعتوں سے ٹوٹ کر تحریک انصاف میں شامل ہوں تو یہ عمل لوٹا کریسی نہیں ہے بلکہ یہاں خان صاحب فرماتے ہیں کہ قائد اعظم نے بھی تو پارٹی تبدیل کی تھی۔ واہ خان واہ
ع تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائ

یعنی جو بھی کرپٹ،دھوکے باز،فراڈ سیاستدان اگر دوسری پارٹی میں ہے تو وہ غلط ہے لیکن اگر وہ تحریک انصاف جوائن کرتا ہے تو بالکل ٹھیک ہے۔ اگر ایک فرد ق لیگ یا ن لیگ میں رہ کر کرپشن کرتا ہے تو خان صاحب کے بقول لیڈر شپ کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے یعنی جو لوگ بھی اس وقت کرپشن،فراڈ، جعلسازی ،جعلی ڈگری ٹائپ کے سیاستدان ہیں وہ اپنی لیڈر شپ کی وجہ سے ہیں اور تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد وہ کوئی غلط کام نہیں کریں گے اچھے بچے بن جائیں۔

اس کے بعد قصور کے حالیہ جلسے میں جو کچھ ہوا اور جس طرح لوگوں نے لوٹ مار کی، اور کرسیاں تک لوٹ کر لے گئے۔ اس جلسے کی ساری کارروائی کو سامنے رکھیں اور پھر اس پر خان کا رد عمل دیکھیں ۔ جب خان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ ’’ غربت کے مارے لوگ اگر کرسیاں نہ اٹھائیں تو کیا کریں‘‘ ۔ سوچیں کہ اگر یہی عمل کسی دوسری پارٹی کے جلسے میں ہوا ہوتا اور کسی دوسری پارٹی کے کارکنان نے یہ کام کیا ہوتا تو شائد خاننے ایک طوفان مچا دینا تھا۔ لیکن خان صاحب نے یہ بیان دیکر بتادیا کہ دیگراحتساب اور سزائیں صرف دوسری جماعتوں کے لئے ہونگی،تحریک انصاف کے کارکنان و لیڈران اگر کچھ کریں تو اس کا جواز تراشا جائے گا۔

اس کے بعد عمران خان صاحب کے جلسوں میں جس طرح میوزیکل شوز کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے لوگوں کو اپنی جانب راغب کیا جارہا ہے تو یہ بھی قابل غور ہے۔ ابھی آج 13دسمبر کے اخبارات میں ہی خان صاحب کا بیان شائع ہوا ہے کہ ’’‘کراچی کے جلسے میں عوام کو بھر پور انٹرٹینمٹ ملے گی‘‘ تو یہ معلوم ہوا کہ روشن خیالی کے نام پر جنرل مشرف نے جو کام شروع کیا تھا اور محترم عمران خان جو اس روشن خیالی کے ناقد تھے ،مشرف کے دور میں وہ جنرل مشرف کی روشن خیالی کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے وہ سب غلط تھا اور اصل بات یہ ہے کے عمران خان اسی روشن خیالی کو ہی پروان چڑھائیں گے اور ملک میں آج جو بے حیائی اور فحاشی کا ایک طوفان جنرل مشرف کے دور سے شروع ہوا تو عمران خان کے دور میں اس میں مزید شدت آئے گی۔

قارئین کرام ان سب باتوں کا خلاصہ نکالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نمبر ایک عمران خان صاحب اپنے اقتدار،اپنے مطلب کے لئے ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ اتحاد کرسکتے ہیں ہر کرپٹ،فراڈ کو اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں۔ نمبر دو احتساب، سزائیں،تنقید صرف دوسروں کے لئے ہوگی اور تحریک انصاف سے وابستہ افراد کو نہ صرف یہ کہ ہر قسم کی چھوٹ دی جائے گی بلکہ ان کے جرائم اور غلط عمل کے جواز تراشے جائیں گے جس طرح کہ پی پی پی ،ق لیگ، ن لیگ ایم کیو ایم وغیرہ تراشتے ہیں۔ اور پھر سوچنے کی بات ہے کہ کیا وہی آزمائے ہوئے ،لوٹے سیاستدان کیا کوئی انقلاب لاسکتے ہیں؟ نمبر تین یہ کہ مشرف اور دیگر سیاسی جماعتوں پر عمران خان کی تنقید محض ایک ڈھکوسلا ہے وقت آنے پر یہ بھی جنرل مشرف ہی کی پالیسیوں کو بر قرار رکھیں گے اور چوتھی بات کہ یہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ پر تنقید کرتے ہیں وہ بھی وقت آنے پر غلط ثابت ہوگی اور لگتا یہ ہے کہ فی الحال چونکہ ان کے پاس اقتدار نہیں ہے اس لئے وہ ان ایشوز پر عوامی امنگوں کے مطابق بات کررہے ہیں لیکن حالات یہ بتا رہے ہیں کہ اقتدار ملنے پر یہ اپنے اس موقف سے بھی پلٹ جائیں گے۔ شواہد اور حالات یہ بتا رہے ہیں کہ ن لیگ، ق لیگ، پی پی پی ،متحدہ اور عمران خان کی تحریک انصاف میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ ہاں انقلاب کے جھوٹے نعرے ضرور لگائے جاسکتے ہیں۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

 

یاد رکھیں انقلاب وہی کامیاب اور حقیقی انقلاب ہوگا جو دین سے دوری نہیں بلکہ دین سے جڑا ہوا ہوگا،وہ انقلاب جس کی قیادت واقعتاً مخلص اور دین دار ہوگی۔ وہ انقلاب جس کا رابطہ دنیا بھر کی تحریکوں سے جڑا ہوا ہوگا۔ وگرنہ یہ انقلاب کے نعرے لگتے رہیں گے اور وقتی طور پر ایسا لگے گا کہ واقعی انقلاب آبھی چکا ہے لیکن مفادات کے تحت اکٹھے ہونے والے کبھی انقلاب نہیں لاسکتے، ہاں وقتی طور پر ایک ہلچل ضرور مچا سکتے ہیں اور یہ عناصر جب دیکھیں گے کہ مفادات پورے نہیں ہورہے تو پھر کسی طرف نکل جائیں گے ۔ انقلاب آئے گا اور کامیاب بھی ہوگا لیکن صرف اسلامی انقلاب اور کوئی انقلاب نہیں

فیس بک تبصرے

عمران خان کا انقلاب: حقیقت یا ٹوپی ڈرامہ“ پر 7 تبصرے

  1. سليم اللہ شيخ صاحب ۔ السلام عليکم
    ميں عملی دنيا ميں پڑنے کے بعد محمد ايوب خان سے لے کر آج تک آدھی درجن سے زائد حکمرانوں کو قريب سے ديکھ چکا ہوں ۔ اس سال جب عمران خان نے سياست ميں بھرپور قدم رکھا تو ميرے ذہن ميں جو خيال اُبھرا يہ تھا”يہ جديد دور کا نمائندہ لگتا ہے”۔ بعد ميں اُس کی مذيد تقارير اور ٹی وی پر مذاکرات ميں گفتگو نے ميرے خيال کی تائيد کی ۔ کچھ باتيں علی الترتيب يہ ہيں
    1 ۔ سب چور ہيں
    2 ۔ سونامی آ رہا ہے
    3 ۔ قائد اعظم نے بھی جماعتيں بدليں
    4 ۔ پارٹی ميں شامل کرنے کيلئے فرشتے کہاں سے لاؤں؟
    نمبر 1 سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف “ہم چناں ديگرے نيست” ہيں
    نمبر 2 تکبّر کا اظہار ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 3 جولائی 1977ء کو ايک جلسہ ميں کہا “يہ کرسی بڑی مضبوط ہے”۔ 4 اور 5 جولائی کی درميانی رات وہ کرسی ٹوٹ گئی تھی
    نمبر 3 سے ظاہر ہے کہ موصوف حقائق اور تاريخ سے نابلد ہيں
    نمبر 4 سے واضح ہوا کہ قول اور فعل ميں تضاد ہے [کيا اسی کو منافقت نہيں کہا جاتا؟]

  2. مجھے تو یہ لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف دوسری “ق لیگ” بننے والی ہے.

  3. نیب سے سزا یافتہ لوگ اپنی پارٹیوں میں پسند کی ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض یا تحریک انصاف کو ایسٹیبلشمینٹ کی پسندیدہ پارٹی سمجھ کر شامل ہونے والے انقلاب لائنگے؟ دوسری جماعتوں میں لوگوں کے جانے اور تحریک انصاف میں جانے میں ایک بڑا فرق ہے۔ دوسری جماعت مثلاً پی پی پی میں جماعت اسلامی کا کوئی شخص جا کر ساری پی پی پی کو تبدیل نہیں کر سکتا لیکن تحریک انصاف میں جو لوگ جارہے ہیں یہی اس کا کل اثاثہ ہیں اور تحریک انصاف کے مستقبل کی تشکیل ینہی لوگوں نے کرنا ہے۔ یہ لوگ جیسے ہوں گے کل کی تحریک انصاف ویسی ہی ہوگی۔

  4. ایک ہی تھالی کے چٹر پٹر ہیں۔۔ سب ۔۔۔

  5. عمران خان بھی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے جیسے 15 سال کرسی کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے ہیں تو اب کرسی کو حاصل کرنے کے لیے وہ بھی روایتی سیاستدانوں کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ اب اللہ جانے کہ وہ کرسی کو حاصل کرپاتے ہیں یا نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر انکو انہی سیاستدانوں کے ساتھ اتحاد کرنا تھا تو 15 سال پہلے جب میاں نواز شریف نے انہیں پارٹی کا ٹکٹ دیا تھا تو اس وقت کیوں انکار کردیا تھا؟ تب انہی سیاستدانوں کو کرپٹ کہہ کر چھوڑدیا تھا تو اب کیا وہ پاک صاف ہوگئے ہیں؟

    اصل بات یہ ہے کہ اب وہ بھی اقتدار کے کھیل میں پڑگئے ہیں۔ ایک ہی شخص تھا جس سے کچھ اچھے کی امید تھی لیکن وہ بھی ختم۔ اب تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اللہ اس ملک کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

  6. Pingback: عمران خان:انقلاب کے چہرے سے نقاب اتررہا ہے | قلم کارواں

  7. عمران خان نے داڑھی کب رکھی تھی؟ ثبوت؟

Leave a Reply