ہم کس گلی کو جارہے ہیں؟

قارئین کرام آج ہم نے ایک سروے رپورٹ کا اپنا موضوع بنایا ہے،پہلے یہ سروے رپورٹ آپ کے سامنے رکھتے ہیں اس کے بعد اس پر بات کریں گے۔”حال میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق والدین کی اکثریت یہ سوچتی ہے کہ ان کے بچوں سے ان کی معصومیت چھینی جارہی ہے ان کو زبردستی وقت سے پہلے بڑا کیا جارہا ہے ۔ سروے کے مطابق والدین کا یہ کہنا ہے کہ بچوں کو قبل از وقت بالغ کرنے میں سیلیبرٹی کلچر، بالغوں جیسے کپڑوں اور میوزک وڈیوز کا سب سے زیادہ حصہ ہے ۔88  فیصد والدین کی رائے ہے کہ بچوں کے قبل از وقت بالغ ہونے میں کمرشلائزیشن اور جنسیت زدگی کا دباؤ بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔جبکہ 50فیصد سے زیادہ والدین ٹی وی پر رات 9بجے سے پہلے کے پروگراموں اور اشتہارات سے خوش نہیں ہیں۔ سروے کے مطابق والدین کا کہنا ہے کہ بچوں کو جو کپڑے پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے وہ ان کی عمر سے مطابقت نہیں رکھتے۔اسی طرح ان کے لئے بنائی جانے والی میوزک وڈیوز میں جنسی مواد اور سوپ آپیرا میں بالغوں والا مواد زیادہ ہوتا ہے۔والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ بچے ایسے غیر ضروری آئٹمز کے لئے پریشر میں رہتے ہیں جو ان پر جبری مسلط کئے جاتے ہیں ان پر جبراً کمرشلائز اور جنسیت زدہ کلچر مسلط کیا جارہا ہے۔ جبکہ 40فیصد والدین کی رائے یہ ہے کہ شاپ ونڈوز اور اشتہاری بورڈز پر جو جنسیت زدہ مواد دکھائی دیتا ہے وہ بچوں کے لئے قطعی ناموزوں ہے۔ 41فیصد والدین نے ٹی وی کے اشتہاروں اور پروگراموں میں پیش کئے جانے والے مواد کو بچوں کو کے لئے ناموزوں قرار دیا ہے۔
قارئین کرام آپ سمجھ رہے ہونگے کہ یہ سروے شائد پاکستان میں کہیں کیا گیا ہوگا۔ تو ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ سروے پاکستان میں نہیں بلکہ برطانیہ میں کیا گیا۔یہ سروےgovernment-commissioned review into the sexualisation of children کی ایک ریسرچ کا ایک حصہ تھا۔ اور یہ سروے 1025ایسے والدین سے کیا گیا جن کے بچوں کی عمریں 5سے 16سال کے درمیان تھیں . اس سروے کا لنک یہاں دیا جارہا ہے
http://www.bbc.co.uk/news/uk-13034053
اور
http://www.google.com/hostednews/ukpress/article/ALeqM5iSaywhDQ7aKWFmkJ5QP80bp5TGw?docId=N0511511302486864231A
اب ذرا غور کیجئے کہ جو چیز مغربی معاشرے کے لئے موزوں نہیں ہے،جس چیز سے مغربی معاشرہ بیزار ہوتا جارہا ہے ہم انہی چیزوں کو اپنا کر سوچتے ہیں کہ کامیاب ہوجائیں گے،ہم سمجھتے ہیں کہ شائد یہی مدر پدر آزادی،ناچ گانا،راگ رنگ،اور ایسی ہی چیزوں سے ہم ترقی کرلیں گے تو ہماری ناسمجھی ہی ہوگی۔ آج اگر ہم اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں تو چاروں طرف ایسے ہی جنسیت زدہ سائن بورڈز ہمارا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ گھروں میں اگر ٹی وی دیکھیں تو چاہے خبریں ہی کیوں نہ دیکھ رہے ہوں ان خبروں کے درمیان ایسے اشتہارات آجاتے ہیں کہ جب تک لوگ ریموٹ لیکر چینل تبدیل کریں اس وقت تک وہ اپنا کام کرچکا ہوتا ہے۔

اشتہارات میں کیا نہیں دکھایا جارہا ہے؟۔اب گھروں میں بچوں اور خواتین کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہم لوگ فیملی پلاننگ ،نوجوانوں کی دوستیوں،خواتین کی پوشیدہ باتوں کے بارے میں ساری باتیں تفصیل کے ساتھ دیکھنے پر مجبور ہیں۔ جوسز کے اشتہارات دیکھیں تو وہ جوس کے اشتہار کم اور ماڈل گرل کے جسم کی نمائش اور سفلی جذبات کو بھڑکانے کا اشتہار زیادہ ہوتے ہیں۔اشتہارات میں ناچ گانا،اچھل کود اور جسم کی نمائش زیادہ ہوتی ہے اور پروڈکٹ کی مشہوری کم ! ڈراموں کی بات کیجائے تو ڈراموںمیں تو لگتا ہے کہ اس وقت پسند کی شادی،کورٹ میرج،شادی شدہ مردو خواتین کے افئیرز،اور روشن خیالی کے نام پر دین بیزاری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ٹاک شوز کو دیکھا جائے تو ان میں سیاسی موضوعات کے علاوہ اگر کچھ ہوتا ہے تو وہ علما،شریعت اور شعائر اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ اور دین کے خلاف ذہن سازی کی جارہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگر کچھ و قت بچتا ہے تو اس میں دنیا بھر میں ہونے والے فیشن شوز وغیرہ دکھائے جاتے ہیں۔

مذکورہ بالا سروے رپورٹ دیکھیں اور پھر سوچیں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ کونسی منزل کی جانب رواں دواں ہیں؟ مغرب کی اندھی تقلید میں ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آیا مغربی معاشرہ خود بھی اپنے معاشرہ اور روایات سے مطمئن ہے یا نہیں؟ ان کی اسی روش اور مدر پدر آزادی ،مذہب سے دوری اور جنسیت زدہ زندگی نے انہیں سکون نہیں دیا،وہ فرسٹریشن کا شکار ہیں اسی لئے آئے دن وہاںیہ واقعات پیش آتے ہیں کہ کسی فرد نے بلاجواز فائرنگ کر کے لوگوں کو قتل کردیا۔(حال ہی میں برازیل میں بھی ایسا ہی لرزہ خیز واقعہ پیش آیا تھا جہاں ایک نوجوان نے12بچوں کو قتل کرکے خودکشی کرلی) اہلِ مغرب تو اپنی اس روش اور روشن خیالی سے تنگ ہیں اور ہم ان کی تقلید کی کوشش میں ایک ایسے سفر پر چل رہے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہے اور یہ سفر ایک بند گلی میں اختتام پذیر ہوگا جہاں سے آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور بالآخر ہمیں وہاں سے واپس ہی آنا ہے۔ تو پھر ہم ابھی سے اس سفر کو کیوں نہ ختم کرلیں؟ کیوں کہ نہ ہم اسی موڑ سے اپنی راہیں الگ کرلیں۔

غور کریں کہ یہ سروے جس چیز کی نشاندہی کررہا ہے کم و بیش 80سال قبل روشن ضمیر اور دیدہ بینا رکھنے والے صاحب دل شاعر حضرت علامہ اقبال نے اس بات کی پیش گوئی کردی تھی کہ یہی مغربی تہذیب اپنی روش سے بیزار ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا تھا کہ:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

اب یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ ہم کسی نازک شاخ پر ناپائیدار آشیانہ بناتے ہیں یا اپنی تہذیب اور دین سے رشتہ جوڑ کر ایک مضبوط قلعے کی تعمیر کرتے ہیں۔

فیس بک تبصرے

ہم کس گلی کو جارہے ہیں؟“ ایک تبصرہ

  1. ہمارے بچوں کے وقت سے پہلے بالغ ہونے میں ذرائع ابلاغ کا بہت بڑا ہاتھ ہے، خاص طور پر بھارتی ڈراموں کی نقل میں ہم نے ان ہی کی طرز پر ڈرامے بنانا شروع کردئیے ہیں جس میں عشق و محبت اور بیہودہ باتیں ذو معنی جملے اور اسی قسم کی لغویات عام ہوتی جارہی ہیں، جبکہ رہی سہی کثر نیٹ نے پوری کردی ہے ، جب ہمارے کم عمر بچے نیٹ پر بیٹھتے ہیں تو والدین کا فرض ہے کہ ان پر کڑ ی نظر رکھیں کہ وہ کس قسم کی چیٹنگ کررہے ہیں اور کس سے کر رہے ہیں لیکن ہم نے بچوں کو مادر پدر آزادی دے رکھی ہے ان پر کسی قسم کا کوئی چیک نہیں اور اس کا نتیجہ جو نکلنا چاہئے آج وہی ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے دین اسلام نے معاشرے کے تمام افراد پر، وہ خواہ کسی بھی عمر میں ہوں، جو پابندیا عائد کی ہیں ہمیں ان کا پاس ضرور کرنا چاہئے ورنہ حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جائیں گے۔

Leave a Reply