ربیع الاول اور عشقِِ مصطفٰی

ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کے معاشرے میں ایمان کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے  اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ جڑنے  اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن پناہ لینے   کے لئے چاروں طرف مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی داءروں میں بھی درود  و سلام کی محفلیں سجتی ھیں  آقا کے اسم گرامی سے دل و دماغ کی دنیا معطر معطر ہوتی یے اور کوئ حوالہ ایسا نہیں ہوتا جو ویران رہ جائے ہر حوالے سے نبی آخرالزماں کے ساتھ عقید ت ، محبت اور عشق کے جتنے عنوانات ہیں وہ سجا ئے جاتے ہیںاور مختلف حوالوں سے محفلیں آراستہ و پیراستہ کی جاتی ہیںقرآن و سنت کے علمبردار، دین کے دعوے دار ، داعیان الی اللہ کے لئے جہاں ایک طرف محبت کا مقام لے کر آتا ہے اہیں جدوجہد کی نئ داستانیں رقم کرنے اور کشمکش کے نئے عنوانات بھی مول لینے کے لئے بھی انسانوں کو آمادہ کرتا ہے

تاریخ کے جھروکوں میں جھانکئے اور ماضی سے رشتہ استوار کیجئئےصفا کی چوٹیوں پر مروہ کی پہاڑیوں پر رسول پاکٌ‌  باآواز بلند لوگوں کو اپنی طرف بلاتے نظر آتےایل مکہ کے لئےیہ پکار  کسی خطرے سے کم نہ تھی اس آواز کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس آواز پر لبیک کہیں نبی ٌ کی آواز پر لوگ جوق در جوق دوڑ پڑے آپٌ نے فرمایا کہ اگر میں کہوں پہاڑ کے دامن میں دشمن چھپا تو کیا تم میری بات پر یقین کرو گے ؟؟؟سب نے با لاتفاق کہا کہ آپ پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہیں جو کچھ اس کے دامن میں ھے وہ آپ دیکھ سکتے ہیںاور دوسری بات یہ کہ آپ صادق اور امین ہیں آپ جہ کچھ کہیں گے وہ ہم سنیں گے اور مانیں گے اس کے بعد آپٌ گویا ہوئے شیطان تمھاری گھات لگائے بیٹھا یے عنقریب تم پر حملہ آور ہونے والا ہے  اس سے بچنے کے لئے اپنے رب کی پناہ حاصل کرواس رب کی طرف دوڑو ،بڑھو ،جو سمیع و بصیر یے، جو حاضر و ناظر ہے،جو علیم و خبیر یے، جو شہ رگ سے زیادہ قریب یےاس رب کے ھو رہو ہر خطرے سے ہر شر سے محفوظ رہو گے آپٌ کی بات سن کر پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو گیا وہ آپس میں باتین بناتے ہوئے برا بھلا کہتے  ہوئےوہاں سے رخست  ہوئےلمحہبھر پہلے جو لوگ آپٌ کی صداقت کے گن گا رہے تھے آپٌ پر اعتماد کرتے تھے جب ان کے سامنے کائنات کی سب سے بڑی سچائ وا شگاف ہوئ کائنات کی حقیقت کھول کر بیان کی گئ تو وہی لوگ جو گواہی کا پیکر بنے ھوئے تھے وہ مجسم انکاری ھو گئے بھر پہلے جو لوگ آپٌ کی صداقت کے گن گا رہے تھے آپٌ پر اعتماد کرتے تھے جب ان کے سامنے کائنات کی سب سے بڑی سچائ وا شگاف ہوئ کائنات کی حقیقت کھول کر بیان کی گئ تو وہی لوگ جو گواہی کا پیکر بنے ھوئے تھے وہ مجسم انکاری ھو گئےاور آپٌ کو تنہا چھوڑ گئے یہ واقعہ ایک دفعہ کا نہیں ہے یہ سانحہ روز پیش آتا ہےہم آپٌ کی صداقت کے گن گاتے آپٌ پر ایمان کا اعلان کرتے ہر طرح کی گواہی اور شھادت دیتے  آپٌ کے نام کا کلمہ پڑھتے جنتوں کی بشارت دیتے دامنِِِِِِِِِ مصطفٰی میں پناہ لینے کے گن گاتے لیکن کتنے لوگ ہیں جو آپٌ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے آپٌ کی سنت مطاہرہ کے لئے اٹھکر جدوجہد کرتےاسکے اتباع اور پیروی کے لئے اپنی زندگی کو تج دیتے  یہی سوال آج ربیع الاول ھم سے کر رہا ہے کہ اے لوگوں جو ایمان کا دعوٰی کرتے ہو جو شفاعت کے عنوانات  سجا تے ہو کس کس طرح پیارے نبیٌ کی ناموس کو للکارا گیا ان کی عزت اور توقیر پر حملے کئے گئے کیا تم اٹھے تمھاری زبانیں کھلیں تم نے پیروں کو غبار آلود کیا تم نے سر سے کفن باندھ کر عزم کیااسیرت کے جتنے بھی واقعات ہیں چاہے حالتِِ  جنگ میں ہوں یا امن میں ھوں اخوت اور بھائئ  چارے میں پروئ ہوئ اجتماعیت کے ہوں یا منافقین کی سر کوبی کے ہون ہمیں اپنی طرف کھینچتے ہیں  اور یہ حادثاتی یا اتفاقی واقعات نہیں تھے  نبی اکرم ٌ ایک مشن کے علمبردار تھے آپٌ دنیا میں شریعت لائےغلبہ دین آپٌ کا مشن تھا اقامتِ دین آپٌ کی منزل تھی قرآن و سنت کی فرمانروائ  اورشریعتِ  مطاہرہ کا نظام آپٌ کا  مقصد زندگی تھا

فیس بک تبصرے

Leave a Reply