2 جون 2014 کو اخبار کے دفتر جاتے ہوئے موبائل فون کی گھنٹی بجی، دفتر کے ایک ساتھی کا فون
سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے معصوم بچوں نے اپنا لہو دیکر قوم کو متحد کردیا ہے۔ اس دلدوز سانحے
میری ماما! میرا کرتا دھودینا میر ی کتابیں بھی صاف کرنا! مجھے ڈانٹنا نہیں ہے ، مجھے مارنا نہیں مجھ
16دسمبر پاکستان کی ملی تاریخ کاایک انتہائی افسوسناک دن۔۔۔ جب ہمارا ایک بازو ہم سے جدا ہو گیا۔بہت کچھ اس
16 دسمبر ہماری تاریخ کا وہ سیاہ ترین باب جب ہمارا شرقی بازو ہم سے جدا ہوا۔ اس سانحے کے
میں ایک پاکستانی شہری ہوں اور میرے والد ایک پاکستانی فوجی تھے۔ ان کی باتیں سن سن کر اپنے ملک
موبائیل کی میسج ٹون نے مجھے چونکا دیا! دیکھا تو ایس ایم ایس میں لکھا تھا کہ: “ہماری ساتھی نمرہ
“مایوں، مہندی ہورہی ہے؟” “میلاد کا مہینہ شروع ہوگیا ہے کیا؟” “قرآن خوانی کی محفل منعقد کی جائے گی کیا؟”
پچاس ایکڑ خطہ زمین پر خیموں کا جو عارضی شہر آباد تھا جہاں ایک ٹاریخ رقم کی جا رھی تھی
انسانی سروں کا ایک سلسلہ تھا جوچلا آرہا رہا تھا۔ چھوٹے بڑے انسانی سر گویا امڈے چلے آرہے تھے۔ بغیر










