سچی خوشی

happiness

امی بہت بھو ک لگی ہے کھانا کب پکے گا
یہ سوا ل پچھلے دو گھنٹے سے ببلو کئی با ر آ کر پو چھ چکا تھا  اور جوا ب میں نیہا نے ہر با ر یہی کہہ کر تسلی دی تھی کہ بس کچھ ہی دیر ہے  مگر اب ببلو پر ضد سوا ر ہو نے لگی تھی  اب اور کتنی دیر  ، کل سے آپ نے کچھ کھلا یا ہی نہیں ، کیوں نہیں پکا یا اب تک  کھا نا ، وہ اب جھنجلا نے لگا تھا
کہا نا تھو ڑی سی دیر  اور ہے اور کیا اپنے پا پا کا انتظا ر نہیں کرو گے  ان کو تو آنے دو  مگر مجھ سے  بردا شت نہیںہو رہا  ، نیند بھی آ  رہی ہے
تو سو جا ؤ جب کھا نا پک جا ئے گا میں اٹھا دو نگی  زخمی دل سے نیہا نے ببلو کے ایک دن کے فا قہ زدہ  ستے ہو ئے چہرے کو دیکھتے ہو ئے کہا
ہیں  بھو کا ہی سو جا ؤں آپ خود ہی  تو منع کرتیں ہیں کہ خالی پیٹ نہیں سونا  اگر کھا نا نہیں پکا تو نو ڈلز ہی بنا دیں ، بسکٹ  یا چپس ہی دے دیں  چٹاخ  سے تھپڑ ما رتے ہو ئے نیہا اب چلا اٹھی تھی نہیں ہے میرے پا س کچھ بھی تمہیں کھلا نے کو  صبح سے دما غ چا ٹ گیا ہے  ، دفع ہو جا ؤ  بے بسی و بے چا رگی سے نیہا  کو رونا آنے لگا تھا   کیا ہوا بہو کیو ں اس غریب کو ما ر رہی ہو کل سے بچے کے پیٹ میں کچھ گیا نہیں بجا ئے بہلا نے کے مزید ما ر رہی ہو ، نما ز پڑھنی میری دشوا ر ہو گئی ، حمیدہ بیگم نے سسکتے ببلو کو سینے سے لگا تے ہو ئے کہا   تو اور کس طرح بہلاؤں ،  بھوک میں سوا ئے کھا نے کے اور کیا اس کو سوجھے گا ، کہا ں سے لا ؤں چیزیں جو اس کا پیٹ بھر سکے ، جب اس کے باپ ہی کو پروا ہ نہیں ہے ، نہ اپنی ذمہ داری کا احساس ہے تو میرے کان کیو ں کھا رہا ہے ۔

ایسے تو نہ کہو  بہو کہ با پ کو احساس نہیں  اگر نہ ہو تا تو صبح سے خا لی پیٹ انتظا م کرنے نہ نکلا ہو تا
تو اب تک آ کیو ں نہ گئے ، کچھ انتظا م ہوا ہی نہ ہو گا ، مایو سی سے نیہا نے کہا
صبر سے کام لو نیہا کیو ں اتنی نا امیدی  پیدا کر لی ہے اب تک بھلا کسی چیز کی کمی ہو ئی ہے ، اگرکچھ دن سختی کے آ گئے تو  بجا ئے شکوے شکایت کے اللہ سے مدد مانگو  اس کی ذات پر بھرو سہ کرو  ، وہی عطا کرنے والا ہے
تو سمجھا لیں اپنے لاڈلے  پوتے کو یہ با ت کہ کچھ دن صبر  سے فا قہ  کر لے  بار بار  کھا نے کو مانگ کر مجھے کیوں پریشا ن کر رہا ہے
بد تمیزی سے نیہا نے ساس کو جوا ب دیا اور پیر پٹختی با ہر نکل گئی  ، اس کو ساس کی یہ بات بری طرح لگ گئی تھی  کہ بھلا پہلے کسی چیز کی کمی ہوئی ہے جس طرح وہ پیٹ کاٹ کاٹ کر خوا ہشیں  پر بند باندھ کر مہینہ پورا کرتی تھی وہی جانتی تھی ۔
حمیدہ بیگم سر پکڑ کر بیٹھ گئیں ، وہ جا نتیں تھیں نیہا ایسی نہ تھی انہوں نے اس کو اعلی اخلا ق ہی کی بنا پر پسند کیا تھا، کچھ عرصے  پہلے ان کا گھر سکون کا گہوارا تھا بے شک اللے تللے نہ تھے مگر کبھی فا قوں کی نو بت نہیں آئی تھی ،  مگر جب سے بینک میں ڈاکہ پڑنے کی وجہ سے ان کا بیٹا شدید
زخمی ہوا تھا  اور نوکری تو چھوٹی ہی تھی  لمبے علاج معالجے نے ساری جمع پو نجی  بھی ختم کر دی تھی  گھر میں فا قے ہونے لگے تھے اور اب تو حد ہی  ہو گئی تھی جب معصوم ببلو کے لیے بھی کچھ موجود نہ تھا پچھلے چو بیس گھنٹے سے نیہا اس کو بہلا تے بہلا تے تھک چکی تھی  اور اب اس کا طیش میں آجانافطری رد عمل تھا  سدا کی حلیم طبع حمیدہ بیگم  اعلی ظرفی کے ساتھ نیہا کی بد تمیزیا ں جھیل جا تیں تھیں۔

زرو دار دستک  کی آواز سے حلیمہ بیگم اپنے خیا لو ں سے چونک اٹھی تھیں ان کی گو د میں ببلو سو چکا تھا  اور سوتے میں بھی سسکیا ں بھر رہا تھا
ببلو ببلو  امان کی آواز اب کمرے تک آنے لگی تھی  نیہیا نے دروازہ کھول دیا تھا
کیا ہوا ما سٹر ہما را انتظا ر بھی نہیں کیا بھوکے ہی سو گئے وہ ببلو کو گد گدا نے لگا  ، نیہا کہا ں ہو بھئی جلدی  کھا نا لگا ؤ نہت بھو ک لگی ہے
خیریت کہا ں سے انتظام ہوا، کیا کچھ اٹھا لا ئے ، کیا کہیںسے قا رون کا خزا نہ مل گیا ہے ، حمیدہ بیگم نے پو چھا
ان حالات میں توقا رون کا خزا نہ ہی سمجھیں امی  ، امان افسردہ لہجے میں بو لا
میں تو صبح سے ہر اس جگہ گیا جہا ں نو کری کے لیے اپلا ئی کیا تھا مگر آج کل تو بی اے  ، ایم اے پاس بھی جو تیا ں چٹخا تے پھر رہے ہیں اور میں تو ابو کی نا گہانی وفا ت کی وجہ سے پورے پیپر ہی نہیں دے پا یا تھا اب بھلا بغیر ڈگری والے کو کیا نوکری ملے گی گا رڈ کی آسامی  کے لیے ایک جاننے والے سے با ت کی تھی مگر انہو ں نے بھی عید کے بعد بلا یا ہے ۔ میں تو سچی با ت ہے کہ با لکل ما یو س ہو کر سڑک کے کنا رے بیٹھ گیا تھا  ببلو کا بھو ک سے بلکتا چہرہ با ر بار آنکھو ں کے سا منے آ رہا تھا ، پھر اانے وا لی عید کے خرچے  ،  ببلو کی معصوم فر ما ئشیں ، خالی ہا تھ گھر لوٹنے کی ہمت ہی نہیں رہی تھی کہ اچا نک کسی نے پیچھے سے   آواز دی  ، وہ حسن تھا پرا نا ساتھی ، اس کے پا س میں  نے کمیٹی ڈالی ہو ئی تھی ، اس حادثے کے بعد سے پھر میں تو جا ہی نہیں  سکا تھا نا  اور وہ میرا گھر بھو ل چکا تھا بقول اس کے گھر ڈھو نڈ   ڈھونڈ کر واپس جا رہا تھا کہ مجھ پر نظر پر گئی ، بہر حال اللہ مسبب الاسباب ہے  اس نے  یہا ں تک مدد کی ہے ان شا ء اللہ آگے بھی  مدد کرے گا  ۔ بھئی نیہا اب اور کتنی دیر ہے امی جلدی آ جا ئیں  اب بردا شت نہیں ہو رہا  ، امان  نے ببلو کو گو د میں لیتے ہو ئے کچن کی جانب جا تے ہو ئے کہا  ، ہا ں تو میرے بیٹے کو کیا کیا چا ہئے تھا چوبیس گھنٹے کے بعد اس کے  منہ  میں لقمہ ڈالتے ہو ئے امان نے پو چھا اور گو یاببلو کی تو گا ڑی اسٹا رٹ ہو چکی تھی
امی میں آپ سے بہیت شر مندہ ہو ں پتہ نہیں مجھ کو کیا ہو گیا تھا بس میں اپنے آپ کو کنٹرل نہ کر پا ئی تھی  مجھ سے ببلو کی بھو ک نہیں دیکھی جا رہی تھی اپنی مشفق سا س کی  گو د میں منہ چھپا تے ہو ئے نیہا نے  معا فی ما نگی تھی۔

نہیں  بیٹا معا فی مجھ سے نہیںاپنے اللہ سے مانگو  ، اس کا شکر ادا کرو  ، ہم ہی بے صبرے ہیں وہ رحیم ذات تو  بہت کا رساز ہے ، حمیدہ  بیگم نے شفقت سے جوا ب دیا ۔
رمضان  المبا رک کی با برکت سعا دتیں اپنے جلو میں رحمتیں و بر کتیں لیے نا زل ہو چکی تھیں  نیہا نے بہت سبھا ؤ اور عقلمندی کے ساتھ   گھر  بجلی و پانی کے کرا ئے کے بعد  بچی ہو ئی قلیل رقم کو سلیقہ مندی کے ساتھ  بجٹ بنا لیا تھا تا کہ تہوار کے مو قع پر فاقے کی نو بت نہیں آئے  ، دو  دن کے فا قے نے اس  کو سہما کر رکھ دیا تھا۔

اس روز بھی بعد نما زترا ویح کے وہ سحری کے لیے جلدی جلدی کچن  میں رکھی چھو ٹی  ٹیبل لگا رہی تھی  ، نیند کے معا ملے میں وہ  ہمیشہ ہی سے کچی تھی  اور  اس کی یہی کو شش ہو تی  کہ رات ہی سے ضرورت کی تمام اشیا ء تیار کر کے رکھ لے   مبا دا آنکھ دیر سے کھلے ، اچا نک کسی کے رونے کی آ واز سے وہ چو نکی پہلے تو اپنا وہم سمجھ کر ٹالا کمرے میں جا کر ببلو کو بھی دیکھ آئی  مگر جب مسلسل آواز آتی رہی تو  مجبو را   اس نے با ہر  صحن   کی  دیوار کی جانب  کان لگا دیے  پڑوس سے مسلسل کو ئی روتے بچے کو بہلا رہا تھا   لیکن وہ ہنوذ رو ئے جا رہا ر تھا جب ہی    زوار دار  طما نچے کی آواز سے  وہ چونک پڑی ، پڑوس کی راحیلہ درشت آواز میں  اپنے بچے کو ڈانٹ رہی تھی  کیا بھو ک بھوک لگا رکھی ہے  ، ذرا سا بر دا  شت نہیں ہو تا میں ہی رہ گئی  ہوں  تمہا ری یہ لن ترا نیا ں سننے کو  جس کے اوپر ذمہ داری ہے اسے کو ئی پر واہ نہیں  آگے نیہا سے کچھ نہیں سنا گیا  اسے ببلو کی بھوک یاد آگئی تھی وہ تھرا کر رہ گئی  کیا ہوا نیہا اس وقت ایسے کیوں  کھڑی ہو  را حیلہ بیگم اپنی عا دت کے مطا بق  تسبیح ہا تھ میں لیے  درو دیوار پر  پھونک مارنے نکلی تھیں۔۔۔
وہ امی پڑوس میں بچے بھو کے ہیں میں رونے کی آواز سن کر ادھر آئی تھی
آ ئے ہا ئے پڑوسی بھو کا رہ جا ئے اور ہم شکم  سیر ہو جا ئیں  اللہ کو کیا منہ دیکھا ئیں گے جا  بیٹی جلدی سے جو بھی کچھ گھر میںہے جا کر دے آ
مگر اما ں، نیہا تذبذب میں تھی
کیا ہوا کیا سوچ رہی ہو
اما ں عید میں اب تھو ڑے ہی دن رہ گئے ہیں  ، راشن بھی  تھوڑا ہے بمشکل پو را ہو گا اگر ان کو دے دونگی تو ہم کیا کھا ئیں گے
نہ نہ بہو  یہ وقت اپنا اپنا سوچنے کا نہیں ہے پڑوسی بھو کا ہو تو ھم کیسے چین سے بیٹھیں  رہیں  اللہ کے نبی ﷺ نے پڑوسی کے حقوق کے با رے میں کتنا کچھ فر ما یا ہے کہ لوگ یہا ں تک  سمجھنے لگے تھے کہ  ورا ثت تک میں سے ان کا حصہ ہو  اور آپ  ﷺ نے قسم کھا ئی ہے کے خدا کی قسم وہ مو من نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھا لے اور اس کا پڑوسی بھو کا رہ جا ئے۔

یہ رمضان کی عبا دتیں  ، یہ طا ق را تیں ، یہ روزے  سب دھرہ رہ جا ئیں گی اگر جو  اپنے عمل سے ہم نے بندوں کے حقوق نہ ادا کیے ہو نگے  اور بیٹا اللہ پر توکل کرو جس نے پیدا کیا ہے وہی رزق دینے والا بھی ہے  وہ ذات تو پتھر میں چھپے کیڑے کو بھی رزق پہنچا تی  ہے  ہماری کیا بسا ط کہ ہم کسی کو کھلا ئیں پلا ئیں  یہ تو رب کی تو فیق ہے کہ اس نے ہم کو  بھی کسی  قا بل بنا یا  جا بیٹا کل کی فکر نہ کر ان کو ابھی دے آ  نہ جانے کتنے وقت کے فا قے سے ہیں۔

اور نیہا شر مند ہ ہو کر کچن سے آٹا  دال چا ول لینے چلی گئی۔
امی آج افطا ری میں کیا بنا ئیں گی معصوم ببلو کا سوال اس کو سن کر گیا اس نے رات ہی کو ا مان کو بتا دیا تھا کہ گھر میں سب کچھ ختم ہو گیا ہے اور اب روزہ نمک پا نی ہی سے افطا ر کرنا پڑے گا ۔ جوں جوں افطا ر کا ٹا ئم نز دیک آرہا تھا نیہا کی ٹانگو ں سے جیسے جان نکلنے لگی تھی  امان اب تک نہیں  پہنچا تھا  شام تک تو ببلو کو بہلا لیا تھا  مگر اب روزے کے وقت ببلو کو روکنا  مشکل تھا  بو ڑھی ساس  ، بیمار شو ہر  اور معصوم بچے کا ستا چہرہ اس  کو چین سے نہیں بیٹھنے دے رہا تھا بار بار یہی خیال آ رہا تھا  کہ بلا وجہ ساس کو سچ بتایا کہ پڑوس میں بھو ک سے فا قے ہو رہے ہیں  اپنی پو ری نہیں پڑ رہی تھی  خدا خدا کر کے تو عید کا انتظام ہوا تھا اب اپنے ہی ہا تھوں سے سب کچھ دے کر وہ پچھتا رہی تھی اور اپنے آپ کو کوس رہی تھی جبھی کوئی اس کے اندر سے بو لا کیا ہو گیا تم کو نیہا تم تو کبھی ایسی نھیں تھیں ہمیشہ دے کر مطمئین رہتیں تھیں آج کیا ہوا کہ اللہ کی راہ میں دے کر پچھتا رہی ہو ، تم کو تو ہر وقت شکر کرنے کی عا دت تھی اب یہ شکوہ کیسا  ، وہ ضمیر کی آواز سے  شرمندہ ہو گئی اور پورے یقین و توکل کے ساتھ اللہ کی با ر گا ہ میں جھک گئی کبھی کا سنا اس کو یاد آگیا تھا کہ ہر  مصیبت  میں صرف رب ہی سے مدد ما نگو ، پورے خشوع و خضوع  کے سا تھ اس نے نماز ادا کی تھی جب ہی ببلو کی چہکتی آواز سن کر وہ با ہر آئی تھی جہا ں بہت سا رے شا پرز  کے ساتھ امان مسکرا رہ تھا  ، مجھ کو نہ صرف نوکری مل گئی بلکہ  ایڈوانس بھی ملا ہے اور بے سا ختہ نیہا کی زبان پر شکر الحمد للہ نکلا تھا ۔ یہ تو معجزہ ہو گیا تھا جب ہر طرف سے ما یوسی ہو چکی تھی تو اللہ کی غیبی امداد پر وہ خوشی سے جھوم اٹھی تھی ، اس کا  اپنی ضرورت کو روک کر اللہ کی راہ میں دینا رائگاہ نہیں گیا تھا۔

اور جب ہی اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس میں سے پڑوس  میں بھی  حصہ نکا لے گی  کی عید کی سچی خوشی تو بھوکے کا پیٹ بھرنے اور
تن ڈھا نپنے میں ہے

فیس بک تبصرے

Leave a Reply