دعا۔۔۔

duaہر واقعے، یا حادثے میں مختلف افراد پر پڑنے والے اثرات بھی جدا ہوتے ہیں اور ردّ عمل بھی الگ کرتے ہیں! کچھ کی بھوک اڑ جاتی ہے کچھ کی بھوک ٹینشن میں بڑھ جاتی ہے، کسی کی نیند اڑجاتی ہے تو کسی پر سکینت طاری ہوجاتی ہے! کوئی قنوطیت کا شکار ہوجاتا ہے تو کوئی امیدوں کا کنول کھلا بیٹھتا ہے۔

کاش میں سولہ دسمبر کا جنگ اخبارنہ دیکھتی۔ جس کے ایک طرف تو سقوط ڈھاکہ کے عنوان سے دورسمی مضامین تھے جبکہ دوسری طرف بھارتی اداکار عامر خان کا مکمل صفحے کا انٹرویو! تر جیحات کا تعین نفاق کو واضح کرتا ہے۔ پھر اسی دن وہ المناک واقعہ پیش آیا جس نے پوری قوم کو ایک دم سکتہ اور پھر صدمے میں مبتلا کردیا ۔اس سانحے کی رپورٹ کے فوراً بعد موسیقی کی تانیں ، ڈراموں کی باز گشت، اشتہارات کی دھنیں دل کو مزید غمگین کر رہی تھیں ۔نوحے اور ماتم کے بعد وہی روٹین کے پروگرامز! تلاوت قرآن اور دعائیں کہیں بھی نہ تھیں ! ایک طرف خوف زدہ کرنے والے مناظر تو دوسری طرف رنگ و بو اور لذتوں کے مناظر!

کاش جمعے کے دن ہاکر غلطی سے جنگ اخبار نہ ڈال دیتا جس میں سنڈے میگزین کا اشتہار تھا!ٹائیٹل پر کسی ماڈل کی تصویر، ڈراموں اور فلموں کے اشتہارات تھے۔ اور اس سے بد ترین یہ تبصرہ ’’ہاں یہ تو شائع کرتے ہی ہیں ۔۔۔‘‘ لہجے میں ندامت یا تنقید نہیں بلکہ فخر کا اظہار!

یہ تو ہمارے زوال کا نقطہ آغاز ہے جب بے حیائی پالیسی بن جائے! اور جب اللہ ناراض ہو تو نہ دعائیں قبول ہوتی ہیں نہ عبادات!(صرف جنگ اخبار کا نام لینے پر کوئی معذرت نہیں کیونکہ یہ ٹرینڈ بناتے ہیں ،قوم کے مزاج کی عکاسی کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں ۔ یہ بات نہیں کہ باقی سب ٹھیک کر رہے ہیں ! جی نہیں کچھ استثناء کے علاوہ سب ایک ہی ڈگر پر ہیں۔)

ہم تقریباتی کلچر کے دلدادہ! ہمیں منانے کا بہت شو ق ہے! جشن ہو یا ماتم، ہڑ تال ہو یا بائیکاٹ! یوم سیاہ ہو یا یوم تشکّر! ہم خوب دھوم دھام سے مناتے ہیں سو یوم دعا بھی منا لیا! لیکن ایک اور بھی قسم کا منانا ہوتا ہے! جی ہاں روٹھے ہوئے کا منانا! وہ شاید ہمیں نہیں آ تا! ( محض فوٹو سیشن کے لیے مسکرانا ہر گز دلجوئی نہیں ہوتا ) نہ ہم بندوں کو منانے کی کوشش کرتے ہیں نہ ہی اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں! اس وقت پوری دنیا میں ذلیل ہورہے ہیں۔ عذاب کی ہر شکل سے دوچار ہیں مگر دعا کی نہ فرصت ہے نہ توفیق! ہلاکو خان کی بیٹی اور عالم دین کا مکالمہ حالات حا ضرہ کے تنا ظر میںبڑا معنی خیز ہے! جب تک مسلمان اللہ کی اطاعت میں واپس نہیں آجاتے اسی طرح ذلت کا شکار رہیں گے!

اللہ منتظر ہے اپنے بندوں کے واپسی کا !صرف ایک اللہ کو مناناتھا ، راضی کرنا تھا،اپنے گناہوں کی مغفرت مانگنی تھی ! ایسا کیوں نہ ہوا کہ پوری قوم قرآن ہاتھوں میں تھام کر سڑکوں پر آ گئی ! یہ کیوں ہوا کہ ایک نئی بحث چھڑ گئی ۔ مذ ہب بیزاروں کو ایک نیا شوشہ ہاتھ لگ گیا۔ شہادت اورجہاد کے موضوعات پر وہ بھی بات کرنے لگے جنہیں اس کے معنی بھی نہیں آ تے!

جان اور مال کے تحفظ کا فلسفہ کچھ یوں ہے کہ کبھی مال کے لیے جان اور کبھی جان کے لیے مال قربان کرنی پڑتی ہے۔حیرت انگیز بات کہ انجام دونوں کا ایک ہے یعنی شہادت کا رتبہ ! اس بات کا فیصلہ حسب موقع کیا جا تا ہے کہ کب جان کے لیے مال اور کہاں مال و متاع کے لیے جان دینی ہے!فوجی ادارے میں تعلیم پانے والے بچے یقینا مستقبل میں ارض وطن کے لیے جان قربان کرنے کی امنگ رکھتے ہوں گے، جو انہوں نے کر دی! شہادت کے خواب دیکھتے ہوں گے تو وہ انہیں اس نوعمری میں ہی مل گئی۔ دعائیں کرتے ہوں گے۔ ان کی دعائیں تو قبول ہوئیں! اصل دعا تو ہم پیچھے رہنے والوں کی ضرورت ہے۔

دعا کیا ہے؟ کیوں مانگی جائے؟ کب مانگی جائے ؟
کس سے مانگی جائے؟ کس کے لیے مانگی جائے؟
یہ سوال کبھی اٹھتے ہی نہیں مگر ہاں سولہ دسمبر کے بعد ان سوالات پر ضرور غور و فکر ہورہا ہے۔ وہ ہاتھ بھی اٹھے اور اٹھ رہے ہیں جو اپنے آپ کو دعائوں سے بے نیاز سمجھتے تھے! ان کے خیال میں دعائوں کی ضرورت گناہ گار یا پسماندہ فرد کوہوتی ہے! جبکہ دعا تو تقدیر بدل دیتی ہے! عذاب ٹال سکتی ہے آئیے دست دعا اٹھائیں! یہ ہماری ضرورت ہے! ہر وقت، ہر لمحہ! آنے والا منظر نامہ خوش کن ہو سکتا ہے مگر اس کے درمیان بہت کچھ رکاوٹیں ہیں ان کو پار کرنا دعا سے ہی ممکن ہے! فلسطین اور شام کے بچوں کے قتل عام پر ہماری مجرمانہ غفلت اور خاموشی ہمارے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے! اور اس گھیرے سے نکلنا اللہ کو راضی کیے بغیر نا ممکن ہے!

فیس بک تبصرے

Leave a Reply