21ویں آئینی ترمیم اور دہشت گردی

parliament-house

21ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد مذہبی سیاسی جماعتوں اور ددیگر سیاسی جماعتوں میں اختلافات سامنے آرہے ہیں۔ 6جنوری 2015 کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اس ترمیم پر رائے شماری کے موقع پر جماعتِ اسلامی اور جمعیت علما اسلام نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف ایوان سے غیر حاضر رہی۔لیکن ایک عجیب سی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اگرچہ اس ترمیم کے حق میں ووٹ تو دیا لیکن مطمئن وہ بھی نہیں ہیں، رضا ربانی جیسے منجھے ہوئے اور سنجیدہ رہنما کا یہ کہنا تھا کہ آج میں نے ضمیر کے خلاف ووٹ دیا، اعتزاز احسن نے بھی ان خیالات کا اظہار کیا کہ اگر چہ وہ ذاتی طور پر اس ترمیم کے حق میں نہیں لیکن پارٹی کا جو فیصلہ ہوگا وہ اس کی پابندی کریں گے۔اگلے روز بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹر پر یہ پیغام دیا کہ اس ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے اپنی ناک کٹوا دی ہے۔ گویا کہ اس ترمیم پر تحفظات تو ووٹ دینے والوں کو بھی ہیں، تو پھر اپنے تحفطات کا کھل کر اظہار کرنے والوں اور تحفظات کے باعث ووٹ نہ دینے والوں کو ہی تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے؟

مولانا فضل الرحمن وہ پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے کھل کر اس کے خلاف بات کی ، جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے بعد جماعت اسلامی نے بھی اس میں نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ جب جماعت اسلامی ، جمعیت علما اسلام اور پی ٹی آئی نے نا چاہتے ہوئے بھی فوجی عدالتوں پر رضامندی ظاہر کردی تھی تو پھر ایسی کیا بات ہوئی جس پر ان جماعتوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ ابتدا میں دہشت گردی کے خلاف بات کی گئی اور بعد میں اس ترمیم کے ذریعے صرف مذہبی طبقے کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس ترمیم میں واضح طور پر یہ بات شامل ہے کہ ’’ اس میں قانون کے تحت منضبط کوئی سیاسی جماعت شامل نہیں ہے‘‘۔گویا کہ سیاسی جماعتوں کے پالے ہوئے دہشت گرد، بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز جو کچھ بھی کریں اس کو دہشت گردی میں شامل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔ 21ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ایک خبر نظر سے گزری جس کے مطابق سیکورٹی ادارے اور سول ارکان کسی بھی وقت کسی بھی مدرسے یا مسجد کی تلاشی لے سکتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ قوم کو مذہبی طبقے نے نہیں بلکہ لبرل سیکولر طبقے اور جماعتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اس اہم موقع کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرکے ضائع کردیا اور قوم کو دراصل اس طبقے نے تقیسم کیا ہے۔

اب ذرا ہم ان جماعتوں کے موقف کی بات کریں جنہوں نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ ان کا موقف کیا ہے؟ کیا انہوں نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کی یاقومی اتفاق رائے کے برخلاف کوئی قدم اٹھایا ہے؟ انہوں نے تو صرف اتنی سے بات کی ہے کہ دہشت گردی کو مذہب سے نہ جوڑا جائے، اور ترمیم میں مذہبی دہشت گردی کے الفاظ میں سے مذہبی ہٹا کر صرف دہشت گردی کا لفظ لکھا جائے۔کیا اصولی طور پر یہ بات غلط ہے؟ جب ہم کہتے ہیں کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ صرف دہشت گرد ہوتا ہے توپھر دہشت گردی کے ساتھ مذہبی کا دُم چھلا کیوں لگایا جارہا ہے؟ جب ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اس وقت پوری قوم دہشت گردی کے خلاف یکسو ہوچکی ہے تو پھر مذہبی اور غیر مذہبی کی بحث کیوں چھیڑی جارہی ہے؟
دراصل اس ترمیم میں دہشت گردی کے ساتھ مذہبی کا لفظ شامل کرکے سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی اور ایک دوسرے کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔مجھے ایک بات بتائیں کہ کیا کسیدہشت گردکو محض اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا کارندہ ہے؟ کسی پیشہ ور قاتل کو سیاسی جماعت کا کارکن ہونے کی بنیاد پر آزاد کردیا جائے؟ بھتہ خوری ، جبرہ چندہ، جبری زکوٰۃ اور زبردستی کھالیں چھیننے والوں کو صرف اس بنیاد کو چھوڑ دینا انصاف ہوگا کہ وہ یہ کام مذہبی جماعت کے نام پر نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے نام پر کررہے ہیں؟ انصاف تو اندھا ہوتا ہے،جب تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف یک آواز ہوچکی تھیں تو اس وقت یہ شوشہ چھوڑنا لبرل سیکولر جماعتوں کی بد دیانتی اور تعصب ہے۔مجھے بم دھماکے کرنے والوں ، معصوم بچوں کی جان لینے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور ان کی صرف پھانسی کافی نہیں ہے بلکہ ان کو دن دیہاڑے اور سر عام پھانسی دی جائے لیکن سو قتل کرنے والوں، ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد کے قاتل دہشت گرد کو ، ماڈل ٹاؤن میں نصف درجن انسانوں کے قاتلوں کوبھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

بچے تو بچے ہوتے ہیں ناں! پشاور واقعے کے بعد پور املک اسی لیے سوگوار تھا کہ دہشت گردوں نے بچوں کو ظلم کا نشانہ بنایا لیکن میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، زرا دل پر ہاتھ رکھ کر اور اچھی طرح سوچ کر اس کا جواب دیجیے کہ اگر ہمارا میڈیا اس واقعے کو اس طرح سے نہ اٹھاتا ، اس کو اتنی کوریج نہ دیتا تو کیا اس وقت بھی آپ کا یہی رد عمل ہوتا جو اس وقت ہے؟ کیا اس وقت بھی آپ ظلم اور دہشت گردی کے خلاف اتنی ہی شدت سے آواز بلند کرتے جتنی اس وقت کررہے ہیں؟ اگر آ پ کا جواب نفی میں ہے تو اس کا مطلب آپ ایک حقیقت پسند انسان ہیں اور اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو پھر میرا اگلا سوال ہے کہ جب 2004میں باجوڑ کے مدرسے پر میزائل حملہ کرکے چھیاسی بچوں کو قتل کیا گیا اس پر خاموشی کیوں؟ وہ بھی تو دس سے سولہ سال تک کے بچے تھے۔ کیا صرف اس لیے کہ وہ امریکی میزائل سے مرے تھے؟ کیا ایک مدرسہ میں پڑھنے والے بچے ، بچے نہیں ہوتے؟ کیا ان کی مائیں نہیں ہوتیں؟ کیا ان کی ماؤں کے سینوں میں دل کی جگہ پتھر ہوتا ہے؟۔آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو سر عام لٹکا دیں لیکن دو لفظ ان چھیاسی معصوم بچوں کے حق میں بھی کہیں جنہیں دہشت گرد کہہ کر میزائل سے اڑا دیا گیا۔

آخری بات بہت تلخ ہے اور بہت سے افراد کے لیے ناقابل برداشت بھی لیکن بات تو سچ ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے قوانین پشاور واقعے کے بعد ہی کیو ں بنائے جارہے ہیں؟ کیا اس سے پہلے اسکولو ں پر حملے نہیں ہوئے؟ کیا اس سے پہلے لوگوں کو قتل نہیں کیا گیا؟ کیا اس سے پہلے بچوں کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا تھا؟ کیا وہ بچے انسان کے بچے نہیں تھے؟ ابھی تک جتنے بھی دہشت گردوں کو پھانسی دی گئی ہے ان کے جرائم کی فہرست پڑھیں تو اکثریت کے جرائم میں ایک قدر مشترک نظر آئے گی ۔ اس پر غور کریں گے تو بہت کچھ سمجھ میں آئے گا۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply