علمِ ہدایت کا پہلا زینہ

turkish-mosqueعبادت انسان کی فطرت میں شامل ہےاور ہر انسان کسی نہ کسی رب کی عبادت کرتا ہے۔ وہ بھی جو کسی کو رب مانتا ہے، اور وہ بھی جو زبان سے کسی رب کے ہونے کا ہی انکار کرتا ہے!

عبادت تو اللہ کے علاوہ زندہ و مردہ انسانوں کی بھی کی جاتی ہے، جنوں اور پریوں کو پوجنے والے بھی موجود ہیں اور پتھر لکڑی کے بتوں کو ماننے والے بھی ، اور اپنے نفس کو ہی خدائی کا درجہ دے لینے والے بھی موجود ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اصل میں عبادت دو میں سے ایک کی ہے !اللہ کی۔۔۔ یا شیطان کی!
اس سے پہلے عبادت کا لفظ ذرا توجہ چاہتا ہے۔ عبادتیں دل کی بھی ہیں ،زبان کی بھی اور عمل کی بھی۔

عبادت صرف دعا و پکار، مدد، پناہ وغیرہ، سجدہ ، رکوع، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، نذر و نیاز، ذبح، کا نام نہیں ہے!

اس میں تو:

اطاعت، محبت ،فیصلے، حکومت، حلال و حرام اور قانون سازی کا اختیار سب عبادت کے مختلف روپ ہیں۔

سو اگر ہر انسان کا کوئی رب ہوتا ہے ، وہ مانے یا نا مانے ، تو ہر عبادت یا اللہ کی ہوتی ہے یا غیر اللہ کی۔۔۔ اور غیر اللہ کی ہر عبادت حقیقت میں شیطان کی عبادت ہے۔۔۔ اب شیطان کا شاطر پنا اور مکاری ملاحظہ ہو کہ اگر وہ سیدھا کہے ”میری عبادت کرو!“ تو کون تیار ہو؟۔۔۔ سو اس کی کوشش بس اتنی سی ہے کہ انسان کو اللہ کی عبادت سے ہٹا دے، اور وہ اکثر کامیاب ہوتا ہے! اب انسان حقیقی معبود کو چھوڑ کر جس کی بھی عبادت کرے۔۔۔ شیطان سرخرو ہے۔۔۔ اصل میں عبادت اس کی ہو رہی ہے!

دعا خدا کو چھور کر کسی کسی فوت شدہ بزرگ سےکرو، یا قانون اور آئین کسی زندہ انسان کے ہاتھ میں پکڑا دو۔۔۔ ان سب کے ”بیک اینڈ“ پہ، پردے کے پیچھے شیطان صآحب کھڑے دانت نکال رہے ہوتے ہیں کہ اس بندے کے پتر نے میری بات کو سچ کر دکھایا۔۔۔ جب میں نے کہا تھا کہ اے پروردگار! تو ان میں سے کم ہی کو شکرگزار پائے گا!پس اب کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ انسان اب بھی یہ بات نہ سمجھ سکے کہ عبادت کا مسئلہ بنیادی مسئلہ ہے۔۔۔ اس فانی دنیا کا، جو عمل کا گھر ہے، اور اس آخری فیصلے کے دن کا، جو بدلے کا گھر ہے!

اسی کے لیے رسول نبی بھیجے گئے، کتابیں اتاری گئیں، ان پاکیزہ ہستیوں نے ساری زندگی تکلیفیں بدراشت کیں، گھر بار چھوڑے، آگ میں کودے اور آروں سے کاٹے گئے، جہاد اور شہادت کے راستے اختیار کیے۔۔۔ دنیا پر ایک خدا کی خدائی کا جھنڈا بلند کرنے کی جدوجہد کی۔۔۔ اس سارے کچھ کی بنیاد ”عبادت ایک خدا کی“ وحدہ لا شریک لہ!

پھر اس کے ساتھ لازمی ہے کہ بندہ ان صورتوں، ان فریبوں سے اچھی طرح آگاہ ہو جائے جو اس کی عبادت کا مرکز سچے معبود کے بجائے کسی بھی اور کو بنا ڈالتی ہیں۔۔۔ اسے ”شرک“ اندھے کنویں یا ”کفر“ کی خوفناک کھائی میں پٹخ دیتے ہیں۔۔۔

خالق کی یہ پہچان، عبادت کو اس کے لیے خالص کرلینا اور اس کے علاوہ ہر کسی سے ہٹ جانا۔۔۔ یہ معرفت، یہ پہچان ہی علم کا نقطہ آغآز ہے۔۔۔ وہ علم جو ”ہدایت کا علم“ کہلاتا ہے۔۔۔ توحید اس علم کا سب سے پہلا اور بنیادی زینہ ہے۔۔۔ باقی سب ہدایت اسی کی شاخیں ہیں۔۔۔ اور اسی پر عمل نجات کی کنجی ہے، اس کے بغیر کوئی بھی کچھ بھی نہیں!

حق تو یہ ہے کہ زندگی کے ڈیرے یہاں ڈال دیے جائیں، اس کی ہر ہر تفصیل سے واقفیت حاصل کی جائے، ہر ہر جمال کو نظروں میں بسا لیا جائے اور دل و نظر کو لبالب بھر لیا جائے۔۔۔ حق تو یہ کہ اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔۔۔ پھر بھی کوشش کی انتہا ہی مطلوب ہے، لازم ہے!

فاعْلَم أَنَّہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔
پس (اے نبی) خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، (محمد:19)۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply