احساس کے انداز

feelings

سنو، کبھی ایسا ہوا ہے کہ تمہاری زبان بات کرنے کو ترس گئی ہو؟؟ میں نے خلامیں تکتے ہوئے سوال بہر حال اس سے ہی کیا تھا، جی نہیں ہمارے یہاں ایسا کوئی دستورِ زباں بندی نہیں ہے، علامہ کے شعر کی ترکیب کا استعمال کرتے ہوئے اس نے لا پرواہی سے سر کو جھٹکا اور سامنے رکھا چائے کا کپ اٹھا لیا، ویسے محترمہ آج اتنی یاسیت کا شکار کیوں ہو آج؟ وہ میری خاموشی سے شاید تنگ آ گئی تھی، ارے نہیں یاسیت نہیں بس ایک مشکل کا شکار ہوں میں نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی، افوہ، تمہاری اونگی بونگی مشکلات کو نا میں اچھی طرح جانتی ہوں، پھر پال لیا ہو گا کسی کی بے اعتنائی، یا لاپرواہی کا روگ وہ شاید میرے مسائل سے چڑ سی گئی تھی جن کو وہ صاف صاف خود ساختہ گردانتی تھی، حنا آج تین دن ہو گئے ہیں پاپا کی میں نے شکل بھی نہیں دیکھی، میری آنکھوں میں پانی بھر گیا تھا اور آواز رندھ گئی تھی، اسد الگ اپنے کاموں میں مصروف ہے اسکی پینٹنگس کی نمائش جو ہونے والی ہے، بس آتے جاتے ایک مسکراہٹ میری طرف اچھال دیتا ہے، مجھے ماما بہت یاد آتی ہیں حنا بہت زیادہ، اس سے آگے میں بات کر ہی نہیں سکتی تھی حلق میں آنسووں کا گولہ سا اٹک گیا تھا، اچھا اب رو لو کھل کے ایک ہی بار ، اسنے گویا مجھے اجازت دی تھی اور مجھے خود پر قابو نہ رہا۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا ماما کے انتقال کو پانچ ماہ گزر چکے تھے ، مگر مجھے صبر ہی نہیں آ رہا تھا ،منجھے لگتا تھا کہ میں دنیا کی سب سے مظلوم لڑکی ہوں، اسوقت مجھے احساس نہیں تھا لیکن میں شدید خود ترسی کا شکار ہو گئی تھی، ہم گھر میں لوگ ہی کتنے تھے، میں اسد، ماما اور بابا۔ بابا کا بزنس بہت پھیلا ہوا تھا بلکہ پھیلتا چلا جا رہا تھا، اور اسد کو آرٹ کالج کی مصروفیات گھیرے میں لیے رکھتی تھیں، ایسے میں، میں اور ماما ہی تھے ایک دوسرے کے لیے، کالج سے آنے کے بعد میرا لمحہ لمحہ ان کے ساتھ گرزا کرتا تھا، میں انکو اپنے کالج کی ایک ایک بات بتاتی اور وہ ادھر سے ادھر چھوٹے چھوٹے کام نبٹاتی ہوئی مسکرا مسکرا کر میری اوٹ پٹانگ باتیں سنتی جاتیں۔۔۔ وہ بہت اچھی تھیں، بہت زیادہ اچھی، مگر پھر بھی مجھے ا ن سے ایک شکایت ہے، انہوں نے مجھے اپنے بغیر جینا سکھلایا ہی نہیں۔

حنا میری زندگی کا ایک اور اہم کرادر تھی، جس سے میں اپنی ہر بات کر لیا کرتی تھی، نہ بھی کروں تو وہ جان لیا کرتی تھی، ماما کے جانے کے بعد میں کئی مرتبہ اس کے کندھے پر سر رکھ روئی تھی ،کتنی مرتبہ اس کے اچھے خاصے موڈ کو اپنے آنسووں کا شکار کر ڈالا تھا، اس کے پاس میرے لیے وہ چیز تھی جو ماما کے جانے کے بعد کسی کے پاس نہیں تھی ،اس کے پاس میرے لیے وقت تھا ۔جو وہ ہر صورت مجھے دیا کرتی تھی ،اپنی تمام دیگر مصروفیات کے باوجود۔

اور آج میں حیران تھی کہ وہ اداسی اور پریشانی جو عموماً میری شناختی علامت ہوا کرتی تھی ،آج حنا کے چہرے پر نظر آ رہی تھی، کلاس لیتے ہوئے میں سارا وقت اس کی طرف دیکھتی رہی ،اس کی نظریں کہیں اور تھیں لیکن دھیان کہیں اور، آخر تم مجھے بتا کیوں نہیں دیتی ہوا کیا ہے؟ میں اسکی مستقل خاموشی سے اکتا سی گئی تھی، وہ کیفے میں میرے بالکل سامنے والی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی اور ٹھنڈی چائے کا کپ اس کے سامنے رکھا ہوا تھا، صبا وہ، وہ اس کی بچی بہت چھوٹی ہے، اور وہ تین دن سے اس کو صرف پانی پلا رہی ہے، اس نے بمشکل آنسووں پر قابو پاتے ہوئے اپنی بات مکمل کی، کون؟ کس کی بچی؟ مجھے اس کی بات ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں آئی تھی، ہے ایک مجبور عورت، بچے بہت چھوٹے ہیں اس لیئے باہر نکل کر کام نہیں کر سکتی، جیسے تیسے گزارہ کر ہی رہی تھی کہ میاں کی نوکری بھی ختم ہو گئی، اس کے گھر میں کھانے پینے کے سامان کا انتظام تو کروا دیا ہے لیکن اس نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ بچی کا دودھ بھی اس کی اہم ضرورت ہے، وہ تو اس کے چھ سالہ بیٹے نے میرے سامنے بات کر دی تو مجھے علم ہوا، اب میں کیا کروں اس کے لیے جتنی رقم اکھٹی کر سکی تھی اس سے تو راشن کا انتظاام کر دیا، اس کی آنکھیں ایک بار پھر ڈبڈبا سی گئیں تھیں۔

آنکھیں تو میری بھی کئی بار ڈبڈبائی تھیں مگرصرف اپنے غم پر، اور آج میرے سامنے صبا بیٹھی تھی، جو روز آدھے راستے بس میں دھکے کھاتی ہوئی اور باقی آدھے راستے پیسے بچانے کی خاطر پیدل چل کرکالج پہنچتی تھی، آج پہلی بار وہ میرے سامنے بیٹھی رو رہی تھی، اس غم پر جو شاید اسکا اپنا غم نہیں تھا، یا شاید یہ ہی غم اس کا اپنا غم تھا، شاید اپنے اپنے احساس کی بات ہے۔

فیس بک تبصرے

احساس کے انداز“ پر 3 تبصرے

  1. بہت عمدہ

  2. Masha’Allah bohat khubsurat threer ha ! mukhtasar lekin pur asar !

Leave a Reply to Sarwat AJ Cancel reply