عبدالقادرمُولا شہید: تمام سینے تمہارے گھر ہیں!

abdul-qadir-victory

 

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھرے نہیں حادثہ دیکھ کر

 

سقوط ڈاھاکہ کی کہانی کا سب سے المناک پہلو ہی یہ ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کھو کر بھی اسے بھلا بھی دیا۔ہر سال 16دسمبر کو ہم  سانحہ مشرقی پاکستان کی ایک رسمی سی یاد مناتے ہیں اور بس۔مگر اس بار تو 16دسمبر اس انداز میں آیا کہ ماضی کے سب زخم ہرے ہوگئے۔ ہماری قومی سوچ۔قومی کردار۔اجمتاعی نسفیات، بے حسی اور بے حمیتی کا ایک اور باب رقم ہوگیا۔ بنگلہ دیچ میں پاکستان پر جان قربان کرنے والے مولانا عبدالقادر کی پھانسی پر قومی اسمبلی ایک مذمتی قرارداد تک منظور نہ کرسکی۔ حکومتی ترجمان کا بیان آیا کہ’’یہ بنگلہ دیچ کا داخلی معاملہ ہے۔اور ہم کسی کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے‘‘عبدالقادر شہید بنگلہ دیش کیلئے غدار ہوں تو ہوں ہمارے تو ’’محسن‘‘ تھے۔ اور انکا جرم کیا تھا؟؟ یہی نا کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ کیا بنگالیوں کے حقوق عبدالقادر یا ان جیسوں نے غضب کئے تھے یا عوامی لیگ کو اقتدار کی راھ میں وہ اور ان کے ساتھی رکاوٹ تھے۔؟ سوال یہ ہے کہ 65ء  کی جنگ کے ہیر و ہوں یا کارگل کے سپاہی یا سیاچن گیاری سیکٹر میں برفانی تودوں کے نیچے دب جانے والے فوجی۔ایک ’’پاکستان کی محبت‘‘ہی تو قدر مشترک ہے ان سب میں کہ ہم 65ء  کے شہداء کی یادگاریں بناتے ہیں ان پر پھول چڑھاتے ہیں کارگل کے شہدا یا سیاچن کے شہدا کو سیلوٹ پیش کئے جاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے وطن کی خاطر جان قربان کی۔ پھر71ء میں فوج کا ساتھ دینے والے کیوں ہمارے ہیرو نہیں۔۔؟ اگر پاکستان کی تاریخ میں کسی وقت ریاست پاکستان اور فوج کا ساتھ دینے والے غدار بھی قرار پاسکتے ہیں تو پھر آنے والے وقت میں ہر اک اس وفاداری سے پہلے سو بار سوچے گا۔!کیا بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ساتھ ہونے والے مظالم صرف جماعت اسلامی کا ایشو ہیں۔؟یا ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کا ایشو ہونا چاہیں؟لیکن سیاسی جماعتوں، حکومتی نمائندوں اور افواج پاکستان کی خاموشی تو یہ ثبوت دے رہی ہے کہ پاکستان کا ساتھ دینے والے جس طرح بنگلہ دیش میں غدار ٹھرے اسی طرح پاکستان میں بھی غدار گردانے جائیں گے۔! اور آج 42برس گذرنے کے باوجود قوم اندھیرے میں ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار کون ہیں۔۔؟نہ انکو منظر عام پر لایا گیا نہ سزائیں دی گئیں۔اسلئے کہ ہمارے ملک کے فیصلے کب ہماری ریاست اور حکومت کرتی ہے وہ فیصلے تو ہمیشہ بڑی طاقتیں کرتی ہیں۔ وہ طاقتیں جو اپنے قاتلوں تک کیلئے حساس ہیں اور انہیں ایک اسلامی ’’قانون دیت‘‘ کا سہارا لیکر چھڑالیتی ہیںمگر مسلمانوں کیلئے نہ انکی عالمی عدالتوں کے پاس کوئی انصاف ہے نہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جاگتی ہیں جو پاکستان میں ایک عیسائی لڑکی یا لڑکے کو پتھر لگنے پر بھی یورپ بھر میں شوروغوغا کرتی ہیں۔ جو بن مانس کیلئے تو انسانی حقوق کی آوازیں اٹھاتی ہیںاور مسلمانوں کو جانور وں سے بھی نچلے حقوق کا مستحق گردانتی ہیں شاید۔بنگلہ دیش کی متنازعہ جنگی جرائم ٹربیونل اپنی سماعتوں میں پے درپے ڈیتھ وارنٹ جاری کررہی ہے عمر قید کی سزائیں سنارہی ہے لیکن اقوام متحدہ کے کسی ادارے کو انسانی حقوق یا د نہیں آتے۔۔

 

لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسمیں جتنا قصور غیروں کا ہے اتنا ہمارا اپنا بھی ہے ۔ کل ایک ’’اس ایم ایس نے مجھے گھنٹوں یہ سوچنے پر مجبور رکھا کہ واقعی گذشتہ42برس میں دنیا کو درکار خود پاکستان کی موجودہ نسل کو بھی’’الشمس ‘‘اور ’’البدر‘‘کے حوالے سے کوئی آگہی نہیں دی گئی۔ خود ہماری نسل جو سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے اسوقت باشعور نہیں تھی۔اور ہمارے بعد کی نسل تو اس حوالے سے بالکل لا علم ہے ۔البدر کے بارے میں موجودہ نسل شاید وہی کچھ جانتی ہے جب میرے 16برس کے بیٹے نے مجھ سے بحث کی کہ ہر ملک اپنے باغیوں کو پھانسی دیتا ہے انکا جرم ایسا ہی ہوگا۔؟تو مجھے لگا کہ ہم سب قومی مجرم ہیں ۔نہ ہماری نسل کو ’’البدر‘‘ کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات میسر آسکیں ماسوائے دور چار مضامین جو کہیں چھپے ہوں نہ ہمارے اس وقت کی نوجوان نسل البدر کے عظیم الشان کردار سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سقوط ڈھاکہ جیسے قومی سانحے سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ اور اس وقت مولوی عبدالقادر کی شہادت کو شاید ہر سطح پر اسلئے جماعت اسلامی کا ایشو سمجھا جاتا ہے رہا ہے کہ وہ خود ہم نے بھی یہ آگہی عام کرنے میں مطلوبہ کردار ادا نہیں کیا۔ مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش کے دکھ بھرے ماہ وسال نہ ہماری گفتگو کا ویسے حصہ ہوتے ہیں نہ ہماری توجہ حاصل کرپاتے ہیں۔ مولانا عبدالقادر کی شہادت نے خود مجھے میری نظر میں مجرم بنادیا کہ میرے بچوں اور اس نسل کو تو علم بھی نہیں کہ مولانا عبدالقادر کو جس ’’البدر‘‘ سے تعلق کے جرم میں تختہ دار تک پہنچایا گیا وہ البدر تھی کیا۔؟ وہ کردار جو صدیوں تک یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ مغربی پاکستان میں البدر کے شہداء کی کوئی یادگار ہو نہ ہو ہمارے دلوں میں تو وہ یادگار ہونا چاہئے تھیں۔ جو دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ وہ کب مرتے ہیں۔ ہم نے کب محمد پور اور میرپور کے خستہ حال کیمپوں میں رہنے والے پاکستانیوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا جنگی دو نسلیں پاکستان سے محبت کی سزا پاکر قبرستان آباد کرچکی ہیں۔ اور جانے کتنی نسلیں ہماری وطن کی مٹکی کی خوشبو کی آس میں ان غلیظ کیمپوں میں پل کر جوان ہونگیں۔ ہم نے تو انہیں اتنا سا پیغام بھی نہیں دیا کہ
وطن کی مٹی سے دوربیٹو، جو گھر ستائے تو یاد رکھنا
مفارقت کے طویل رستے میں تم اکیلے نہیں ہو ہم بھی،
تمہاری آہٹ کے ہم سفر ہیں
تمام آنکھیں تمہارے قدموں کی منتظر ہیں
تمام سینے تمہارے گھر ہیں ۔!(امجد اسلام امجد)۔

 

اگر ہمارے سینے ان کے گھر ہوتے تو بھلا کیونکر آج قومی اسمبلی کو محض ایک تعزیتی قراداد منظور کرنا مشکل ہوتا۔ شیخ مجیب کے وہ چھ نکات جو 66؁ میں منظر عام پر آئے مگر شہرت نہ پاسکے لیکن 70ء  کے الیکشن میں انہوں نے برصغیر کی سیاست کی کایا پلٹ کر رکھ دی آج تاریخ کے طالب علموں کو بھی کم ہی پتہ ہوگا کہ ان چھ نکات کے بارے میں! جب مشرقی اور مغربی پاکستان میں اقتدار کی جنگ شروع ہوئی اور عوامی لیگ کے 2لاکھ مسلح رضاکار اور بھارتی غنڈے اس تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے حرکت میں آگئے۔ تب اسلامی چھاترو شنگھو(اسلامی جمعیت طلبائ) نے پروگرام بنایا کہ ہمیں بھی تربیت حاصل کرکے اس انتہائی حساس موقع پر پاکستان آرمی کی مدد کرنا چاہئے ۔ پاک فوج بھی وسائل اور دور دراز علاقوں تک پہنچنے میں وسائل کی کمی کے باعث مجور تھی۔ ابتدا میں عوامی لیگ اور مکتی باہنی(شیخ مجیب) کے رضاکاروں کے ساتھ ان نوجوانوں نے تربیت حاصل کی مگر اسلحہ کہاں سے حاصل کرتے ۔پھر آرمی کی خواہش پر طلباء کو پاک گارڈ کے نام سے جمع کرنا شروع کیا۔ مکتی باہنی اور بھارتی فوج ملکی املاک کو نقصان پہنچاکر فرار ہوجاتی ایسے میں المجاہد ، الشمس اور پاک گارڈ کے نام سے تنظیمیں کام کررہی تھیں لیکن اعلیٰ معیار کی عسکری تنظیم کے  رضاکاروں کی ضرورت تھی جس کیلئے کرنل عبدالعزیز کی قیادت میں جمعیت طلبہ کے نمائندوں کو اکٹھا کیا گیا ۔

 

23مئی1971ء  کو ’’البدر‘‘وجود میں آئی اور اس کے ممبر ’’البدر کیڈٹ‘‘ کہلاتے تھے۔ جو بالآخر شرپسندوں کیلئے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ البدر کا نام سنتے ہی دشمن پر خوف طاری ہوجاتا۔ مکتی باہنی کی تخریبی کاروائیاں دم توڑنے لگیں اور جگہ جگہ عوام کا اعتماد بحال ہونے لگا۔ پاک فوج کی ہائی کمان نے البدر کے جذبہ شجاعت کو دیکھتے ہوئے پورے مشرقی پاکستان میں ’’البدر‘‘کے قیام کی اجازت دیدی۔اور سرکلر کے ذریعے ہدایت دی گئی کہ اپنے اپنے مقام پر البدر قائم کرکے پاک فوج سے مکمل تعاون کریں۔ اکتوبر تک ہر چھوٹے بڑے شہر میں’’البدر‘‘قائم ہوچکی تھی اور دس ہزار کیڈٹ تیار ہوچکے تھے۔ پاک فوج نے بہت سے معرکے البدر کے تعاون سے انجام دیئے۔ البدر والوں نے انٹیلی جنس کا جو کام کیا وہ فوج کے بس کا نہ تھا۔ جب 3دسمبر کو اعلان ہوا کہ انڈیا کے ساتھ جنگ کا اعلان ہوگیا ہے ڈھاکہ میں پاک فوج نے انڈیا کے چھ جنگی طیارے گرالئے ہیں 9دسمبر تک پاک فوج اور البدر بے حد مصروف رہے ۔ کہ رات ڈیڈھ بجے البدر کیمپ میں معلوم ہوا کہ پاکستان ملٹری یہاں سے فرار ہورہی ہے تو عوام احساس تنہائی کا شکار ہونے لگے۔ 15دسمبر کو البدر کے کمانڈر کو علم ہوا کہ پاک فوج واپس جارہی ہے۔ البدر کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟ یہ اہم سوال اٹھا۔ کمانڈر البدر نے کہا کہ ہم آخری دم تک لڑیں گے ،ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔رات کے ایک بجے فوج کیمپ خالی کرگئی۔ البدر کو اطلاع دیئے اور کسی تحفظ کا انتظام کئے بغیر ، بھارتی فوج گھیرا تنگ کررہی تھی پاکستانی فوج ڈھاکہ میں سمٹنے لگی اور پھر16دسمبر کی وہ صبح طلوع ہوئی جب ڈھاکہ کے ریس کورس گرائونڈ کے وسیع میدان میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی تقریب کا اہتمام ہورہا تھا۔ جس سے اہلیان مغربی پاکستان بالکل لاعلم تھے کیونکہ میڈیا نے اتنی ترقی نہ کی تھی۔ اور یہاں’’سب ٹھیک ہے‘‘ کی اطلاعات ہی تھیں۔ بھارتی کمانڈر جنرل اروڑا سنگھ کا ہیلی کاپٹر ڈھاکہ کے ائرپورٹ پر اترا۔ جنرل نیازی آگے بڑھ کر ان کا اسقتبال کیا۔ساڑھے 4بجے سہ پہر جنرل نیازی اور اروڑا سنگھ ریس کورس میں ایک میز کے گردبیٹھ گئے ۔ پاکستان دو لخت ہونے کو تھا۔ تاریخ کی نبضیں تھمی ہوئی تھیں۔جنرل نیازی نے ہاتھ آگے بڑھایا اور سرنڈر کرنے کے آحکامات پر دستخط کردیئے۔ اگر یہ منظر براہ راست ٹی وی چینل دکھارہے ہوتے تو مغربی پاکستان میں کتنے لوگ دل کا دورہ پڑنے سے اسی وقت انتقال کرجاتے۔ہسپتالوں میں دل کے مریضوں کی لائنیں لگ جاتیں، میڈیکل اسٹورز پر ڈپریشن اور درد کی گولیاں کم پڑجاتیں۔ جنرل نیازی نے اپنا ریوالور گولیوں سے خالی کرکے جنرل اروڑا سنگھ کے حوالے کیا انکے فوجی تغمے اور رینک اتارلیئے گئے۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر جنرل نیازی کے سر پر جوتا دے مارا شاید وہ شخص کروڑوں پاکستانیوں کا سچا ترجمان تھا۔

 

90ہزار فوجی بغیر لڑے ہتیھیار ڈال دیں گے یہ کسی نے سوچا تھا۔؟ البدر نے ایک ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ پاک فوج ہتھیار ڈالتی ہے تو ڈالے لیکن جب تک ہمارے جسموں میں جان ہے ہم جہاد جاری رکھیں گے۔ اور قید ہونگے تو اپنے ہتھیار وں کو ناکارہ بناکر کہ دشمن ان ہتھیاروں سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔ پاک فوج نے اس فیصلے کی ستائش کی اور مجبوری ظاہر کی کہ وہ ہائی کمان کے فیصلوں کے پابند ہیں ۔18دسمبر کو پاک آرمی کے کمانڈر نے بتایا کہ ’’ناٹور‘‘ نارتھ بنگال کے برگیڈ ہیڈکواٹر میں شفٹ ہورہے ہیں البدر کو بھی’’ناٹور‘‘منتقل کردیا گیا۔19دسمبر کو ناٹور چھاونی کے چاروں طرف مکتی باہنی اور بھارتی فوج نے پوزیشن سنبھال لی تھیں۔ کرنل نے بتایا کہ ہائی کمان کے فیصلے پر ہتھیار ڈال رہے ہیں البدر نے بھی اپنے ہتھیار ناکارہ کردیئے۔کرنل نے انڈین آرمی سے کہا کہ البدر نیم فوجی تنظیم ہے اسکا بھی سرنڈر ہونا چاہئے مگر انڈین آرمی نے انکار کردیا کہ بنگالیوں سے خود مکتی باہنی نمٹ لے گی۔شام تک البدر کے رضاکار سول کپڑوں میں روپوش ہوچکے تھے۔ پاک فوج صبح ساڑھے آٹھ بجے سرسید کالج گرائونڈ میں ہتھیار ڈال رہی تھی ۔پاک فوج کے دستے مارچ پاسٹ کرتے آگے آتے اور باری باری اپنے ہتھیار اور بیلٹ ایک ڈھیر پر پھینکتے جاتے ۔انکے نشانات اور تغمے سینوں سے نوچ لئے گئے۔ کرنل رضوی نے کہا’’ہمیں افسوس ہے ہم مسلمان ہوکر پہلی دفعہ ہتھیار ڈال دیتے ہیں‘‘پھرالبدر کے کارکن مشقتوں سے گذرے انہیں قید کیا گیا، لوہے کے راڈ سے ضربیں لگائیں گئیں ، جسم داغے گئے۔ ان سے پوچھا جاتا تھا تمہیں پاکستان سے کتنی امداد ملتی ہے؟؟

 

البدر اب تک پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہی ہے۔ مولانا عبدالقادر اسی ’’البدر‘‘کا حصہ تھے۔میں نے بچوں کو کہانی سناکر چہرہ دوسری طرف پھیرلیا تو بیٹی بولی’’امی آپ رو کیوں رہی ہیں؟‘‘مجھے یاد آیا71ء  میں جب میں دوسری جماعت میں پڑھتی تھی تب میں نے امی سے پوچھا تھا کہ آپ رو کیوں رہی ہیں؟ اور باجی نے کہا تھا’’آج پاکستان ٹوٹ گیا ہے‘‘۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply