آؤ ایک بنیں

abdul-quader-mollah-02کیسے غم ناک دن ہیں اور راتیں۔ دسمبر ایک بار پھر آنکھوں کو لہو رلاگیا۔ میرے قبیلے کے ایک سردار کو سرِ دار چڑھادیا گیا۔۔۔
باکردار اور باہمنت، جری اور بہادر سردار مسکراتے ہوئے اپنے رب کا کلمہ بلند کرنے کے جرم میں پھانسی کے پھندے کو چُوم گیا۔ فطری نیند کو کوئی روک نہیں سکتا لیکن آنکھیں بند ہوں یا کھلی، بیداری کے عالم میں ان میں ایک ہی منظر سجا رہتا ہے، ایک ہی تصویر سامنے رہتی ہے۔

 

ڈھاکہ، سمبر کی یخ رات، رات کا سنّاٹا، جیل کی دیواریں، کال کوٹھری اور سزائے موت کا قیدی عبدالقادر مولا۔ اسکے اور بھی ساتھی اسی جیل میں ارض پاک کی محبت کے جرم میں یوسف علیہ السلام کی سنت پوری کررہے ہیں۔ قیدی کو آخری سفر پر تیاری کا حکم ملتا ہے اور وہ اس سفر سے پہلے عشاء کی نماز کی تیاری کرتا ہے۔ وہ غسل کرتا ہے، نیا لباس زیب تن کرتا ہے اور اپنے اُس رب کے حضور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ہے جس سے کچھ دیر بعد اسے ملاقات کرنی ہے، اپنی قربانی پیش کرنی ہے۔ جس رب کی طرف اُس نے دن اور رات لوگوں کو دعوت دی، جس رب کے قانون کی سربلندی کے لیے، جس رب کے نظام کی حکمرانی کے لیے اس نے زندگی کے سارے ماہ و سال لگائے، زندگی کی ساری بہاریں خرچ کردیں۔ صرف عبادت نہیں، صرف سجدے نہیں، صرف اذکار نہیں، اس سے بہت آگے کی وہ چوٹیاں جن کی طرف دیکھ کر بھی دل کانپ جاتا ہے۔ اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سر کیں، اقامت دین کی جدوجہد کا اعلیٰ ترین مقام جس کے لیے قرآن کہتا ہے “وہ قتل ہونے ہیں” سورۃ توبہ۔

 

سزائے موت کا وہ قیدی جسے تصور کی آنکھ حقیقت کی طرح دیکھ رہی ہے۔ حضرت خبیب رضی اللہ تعالی کی سی نماز ادا کرتا ہے اور پھر۔۔۔ پھانسی کے لباس میں تختہءدار پر چڑھنے کا عمل۔ میرا دل یہاں بند ہوجاتا ہے، دھڑکنا بھول جاتا ہے۔ میں ساتھ چلوں، میں آپکے ہاتھ چُوم لوں، میں آپکے ایمان کی روشنی سے کوئی کرن لے لوں اسے آفتاب کرلوں؟

 

بنی اسرائیل نے اپنے انبیاء کو قتل کیا، یحییٰ علیہ السلام اور بے شمار نبی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے کا اہتمام کیا گیا اور کلمہ گوؤں نے نبی آخرالزماںؐ کی امت کے اولیا کو پھانسی گھاٹوں پر چڑھایا، گولیوں کا نشانہ بنایا۔

 

منظر سارے یکساں ہیں، صدیوں پہلے یحییٰ علیہ السلام کے قتل کی رات بھی ایسی ہی ہوگی؟ سرد، تاریک اور خاموش، ایسے ہی بادشاہ کے سپاہی آئے ہوں گے، تلوار سے گردن تن سے جُدا کی ہوگی اور اسی طرح آج کی رات کی طرح انکے چاہنے والوں نے آنسوؤں سے مرثیے لکھے ہوں گے، نوحوں کو دعاؤں میں ڈھالا ہوگا اور اپنے بے گناہ ساتھی کی نماز جنازہ ادا کی ہوگی۔ فرید پور گاؤں کے قبرستان میں بنی تازہ قبر اور اس میں رکھا نور سے جگمگاتا چہرہ۔ عزیزوں کے، ساتھیوں کے نالے، بے قراری اور بے تابی۔ اللہ اکبر، بے شک اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ الصمد، بے شک اللہ بے نیاز ہے۔ اللہ حلیم شکور، بے شک اللہ اپنے بندوں کا سب سے بڑا قدر دان ہے۔

 

ڈھاکہ، سلہٹ، کُھلنا، چٹاگانگ کیسے پیارے نام تھے، کیسے ہریالے شہر تھے جو اپنے تھے وہاں کے رہنے والے۔۔۔ ہم ان کے تھے، وہ ہمارے تھے، دریاؤں کا پانی، ناریل اور انناس، خوشبودار چائے کے باغات، املی، پان، بانس، کشتیوں میں بنے گھر، سفید اور گلابی پرل، ململ کے لمبے کُرتے اور خالص کاٹن کی ساڑھیاں سب خواب ہوگیا، سب ہمارے لیے اجنبی بنادیے گئے۔ بیت المکرم مسجد کی اذان کی آواز سے ہمارے کام محروم ہوگئے۔ کیسے طویل خزاں کے موسم آئے، کیس آندھیاں چلیں، آسیبوں نے گلی کوچوں میں بسیرا کرلیا، کلمہ طیبہ کے پاک رشتے سے جُڑے شجر کو دولخت کردیا گیا۔

 

خون کی ندیاں بہیں، آگ نے جنگلوں کا حُسن کم کردیا، بے گناہی گُناہ بنی اور وفا جُرم۔ وفاداریوں پہ مقدمے بنائے گئے، خود ساختہ بے بنیاد مقدمے، جھوٹی گواہیاں اور شہادتیں۔ پاکباز اور پاکدامن لوگوں پر اسفل الزام لگائے گئے، عدالت سجائی گئی، فیصلہ سنایا گیا اور وفا کا مجرم پھانسی کا مستحق ٹھرا۔ اللہ اپنی الکتاب میں کہتا ہے۔ “جو لوگ پاکدامن مومن مردوں اور عورتوں پر الزام لگاتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب اور رسوائی ہے۔ جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو اذیت دیتے ہیں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ اُس دن اللہ لوگوں کو انکے کیے کا پورا بدلہ دے گا اور انکے منہ، ہاتھ اور پاؤں انکے جھوٹ کی گواہی دیں گے۔ سورۃ نور۔

 

المیہ تو یہ ہے کہ مسلم دنیا کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا، بانٹ لیاگیا، جغرافیائی سرحدیں محبتوں کے درمیان فصیل بن گئیں، ایک حصہ سے دوسرے حصہ تک پیغام محبت پہنجانے کے ذرائع بند کردیے گئے، سب اپنی اپنی فصیلوں میں گھرے اپنی دیواریں چاٹ رہے ہیں۔ لیکن ایمان کے رشتہ سے جڑے نفوس، محبت کی شمع تھامے، اپنے قبیلہ کے شہیدوں، زخمیوں، قیدیوں کے چہرے ڈھونڈتے رہتے ہیں، تسلی اور دلاسا، ہمت اور آفرین کے پھول بانٹنا چاہتے ہیں۔ آؤ ہم ساتھ چلیں، آؤ ہم ایک بنیں۔۔۔

 

ہماری زندگی، زندگی کے مقاصد، ہمارے راستے طریقے ایک ہیں، ہمارے جُرم ہماری سزائیں، ہم پہ کئے گئے جبر اور ہماری موت سب ایک جیسی ہیں۔ عربی بولو یا انگریزی، زنان اردو ہو یا بنگالی، گورے ہو یا کالے، لمبے قد کے ہو یا چھوٹے لاالہ کا اقرار کروگے، لاالہ کو زندگی میں اتاروگے، لاالہ کی بالادستی چاہوگے تو ایسی ہی سزاؤں کے مستحق بنوگے، یونہی قتل کئے جاؤگے۔۔
آؤ ہم ساتھ چلیں، آؤ ہم ایک بنیں۔۔۔

فیس بک تبصرے

آؤ ایک بنیں“ ایک تبصرہ

  1. bht durust farmaya hum tu tukro me batey huey hy alag alag derh ent ki masjid bnai hui hy lekin hmarey dushmano k liye hm sb ek hyn aur laillah hi hmara jurm hy

Leave a Reply