تو جُھکا جب غیر کے آگے!

tu-jhuka-jabایک دن کی اخبار کی تین خبریں ملاحظہ فرمائیں اور ان کے بیچ ربط بھی۔
٭  ملک کے اندرونی سیکیورٹی کا ڈرافٹ تیار کرلیا گیا ہے اور علماء نے وفاقی وزیر داخلہ کو تجویز دی ہے کہ اشتعال انگیز لٹریچر ضبط کرکے مصنفین کو سزائیں دی جائیں۔
٭  راولپنڈی کے سانحہ کے معطل کئے جانے والے آر پی اورزعیم اقبال شیخ نے’’ فیکٹ فائیڈنگ کمیٹی ‘‘کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ فائرنگ کے دوران انکے اسکواڈ کے لوگوں نے انہیں گلی میں چھپا دیا تھا ۔ اور واقعہ کی اطلاع انہیں خاصی تاخیر سے ملی اور کسی جونیئر افسر تک نے انہیں فون پر اطلاع نہیں دی ۔ وہ ساڑھے پانچ بجے جب راولپنڈی پہنچے تو 100 کے قریب فائر ہوئے اور ان کے جونیئر انہیں چھوڑ کر فرار ہوئے۔
٭  پی آئی بی (کراچی ) تھانے کی حدود میں بدھ کو محافظ فورس کی موبائل پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے جان بحق ہونے والے دو پولیس اہلکاروں  کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ۔اعلیٰ حکام نے پولیس اہلکاروں کو آنے او ر جانے کے دوران وردی پہننے سے گریز اور بلٹ پروف جیکٹ پہننے کا حکم دیا ہے ۔مذکورہ جان بحق ہونے والا اہلکار پولیس وردی میں تھا جبکہ دوسرا اہلکار گاڑی میں۔(تنہا ) بیٹھا تھا اور گولی بالکل قریب سے ماری گئی۔

 

جس دن کی یہ خبریں ہیں اسی رات کو انچولی میں یکے بعد دیگر دو دھماکے ہوئے اور دھماکوں کے کئی گھنٹوں بعد تک میڈیا کی خبروں کے مطابق رینجرز اور پولیس اہلکار جائے و قوعہ پر نہیں پہنچ سکے تھے۔
کسی فرد یا ادارے کا تشخص اسکی کارکردگی سے متعین ہوتا ہے۔اب پولیس کی کاکردگی اور پولیس اور عوام کے درمیاں کا فاصلہ اور اس ریاستی ادارے پر سے عوام کا نہ صرف اعتماد کا اٹھ جانا بلکہ فِی نَفسہ انکے لیے انتقامی جذبات ہونا اور پولیس اہلکاروں کی تربیت خود ایک سوال رہی ہے ہمارے ملک کی تاریخ میں۔  دہشت گردوں کے پاس اتنا اسلحہ ہے اور وہ اتنے جی دار ہیں کہ ہیں کہ پولیس گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔ کسی ادارے کی کارکردگی کیلئے اس سے بڑا سوالیہ نشان کیا ہوگا کہ وہ اپنے اہلکاروں کو وردی پہننے سے اس لئے روکے کہ وردی گویا انکے ’’مجرم‘‘ ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ قومی مجرم ہونے کے ناطے سرعام جس طرح نفرت کا نشان بنتے ہیں پہلے تو صرف آواز ے کسے جاتے تھے پولیس پر اب دو قدم آگے انکی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ دہشتگرد انہیں وردی میں دیکھتے ہی گولی ماردیتے ہیں۔ اگر دہشتگرد اتنے منظم، اپنے ہتھیاروں کے استعمال میں اتنے ماہر اور اتنے نڈر اور بے خوف ہیں تو پولیس والوں کو رئٹائرکرکے دہشتگردوں ہی کو پولیس میں بھرتی کیا جانا چاہئے۔۔۔۔ ! وہ اپنے ہدف تک پہنچنے میں تو کامیاب رہتے ہیں۔ ہماری پولیس مجرموں کو پکڑنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ بلکہ یہ بات بطور ضرب المثل کے کہی جاتی ہے کہ جس علاقے میں نیا تھانہ کھلتا ہے وہاں جرائم کا گراف تیزی سے بڑھ جاتا ہے۔جس ملک میں پولیس اتنی غیر محفوظ ہو کہ انکے اعلیٰ حکام ہدایات جاری کریں کہ وہ بلٹ پروف جیکٹ کے بغیر نہ نکلیں اس ملک میں عام آدمی کیسے محفوظ ہوسکتا ہے۔ ۔۔؟پولیس کیلئے تو بلٹ پروف گاڑیوں اور جیکٹس کا انتظام ریاستی خرچے پر ہوجائیگا مگر عوام کیلئے ان بلٹ پروف جیکٹوں کا انتظام کون کرے گا؟ سو عوام تو یہاں ’’کالا انعام ‘‘ہیں ہی ذبح ہونے کیلئے ۔۔۔

 

عوام کی کیا مجال کہ اعلیٰ ریاستی اداروں کی کارکردگی زیر بحث لائیں، کتنی سادہ اور معصوم سی بات ہے کہ ۱۰۰فائر سن کر آرپی او چھپ گئے یا بقول ان کے انہیں ’’چھپادیاگیا‘‘ تو ہم سب جانتے ہیں کہ قیمتی چیزوں کو چھپا کر ہی رکھا جاتا ہے۔ اب وہ عوام میں سے تو نہیں جو چاہے ڈرون کا نشانہ بنیں یا ٹارگٹ کلرز کا یا مہنگائی کے ہاتھوں خودکشی کریں۔آرپی او کو چھپا کر جونیئر اہلکار خود بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ ظاہر ہے گولی سے ڈر تو سب کو لگتا ہے، اب پولیس ہو یا رینجرز ۔کے جوان جان تو انہیں بھی پیاری ہے۔ اب فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کا کام کتنا ہلکا ہوگیا۔ بلکہ ’’فیکٹ‘‘ کو ’’فائنڈنگ‘‘ کرنے کیلئے کسی تکلف کی ضرورت ہی نہیں۔ فیکٹ تو خودبخود ن کی روشنی کی طرح عیاں ہے۔ جب اسلام آباد کے بلیو ایریا میں سکندر نامی خبط الحواس شخص نے ۴گھنٹے تماشہ لگائے رکھا اس کے دونوں ہاتھوں میں ہتھیار دیکھ کر ریاست کے سب سیکورٹی ادارے بے بس ہوگئے ۔ خود رینجرز کے اہلکار اسکی فائرنگ کی آوازوں پر بھاگتے ہوئے دیکھے گئے اور وہ تنہا شخص پورے ملک کی سیکورٹی کو للکار تا رہا ۔ اس وقت بھی فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کے سامنے یہی بیان آیا تھا کہ سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کے ہتھیار زنگ آلود تھے۔ اب یہ ’’فیکٹ‘‘ کون’’فائنڈ‘‘ کرتا کہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ،
مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

 

ملک اسوقت دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے اور ریاست کے سیکورٹی اداروں کی یہ تربیت اورجنگ کے سے حالات میں انکی یہ کارکردگی سامنے آتی ہے؟کمیشن بنتے ہیں فیکٹ فائنڈنگ ہو بھی جاتی ہیں نہ کسی کو سزا ملتی ہے نہ آئندہ کیلئے کوئی اصلاح کا پہلو نکلتا ہے۔ ہماری سرحدیں اگرمحفوظ بھی ہوں تو ہم کو سرحدوں کے اندر بھی ’’انڈر اٹیک‘‘ ہیں جہاں آرپی اوفائرنگ کی آوازوں پر چھپ جائیں سیکورٹی اہلکار جائے وقوعہ سے جان بچاکر بھاگ کھڑے ہوں عوام کو خاک وخون کے درمیان چھوڑ کر ۔جہاں پولیس کو وردی نہ پہننے کا مشورہ دیا جائے خود پولیس دہشتگردوں کے رحم وکرم پر ہو اور انکی حفاظت کا واحد ذریعہ بلٹ پروف جیکٹس اور گاڑیاں رہ جائیں وہاں پر اندرونی سیکورٹی کا ڈرافٹ تیار کرنے کیلئے علماء کو ذمہ دار بنانے کے بجائے خود اپنے اداروں کی تربیت، اطلاعاتی نظام،ہنگامی تدابیر،پیشہ ورانہ تربیت کا جائزہ لیا جائے۔اب تمام توجہ اس اشتعال انگیز لٹریچر کی تلاش میں لگادی جائے کہ اصل وجہ امن وامان میں ناکامی کی وہ منصفین ہیں جو اشتعال انگیز لٹریچر تیار کررہے ہیں یا مفلوج ریاستی ادارے اسکی وجہ ہیں جو دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ جو پیشہ ورانہ اہلیت اور جذبہ جہاد سے عاری ہیں۔جو حکومت آلو، پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں کو کنٹرول نہیں کرسکتی اسکی گڈ گورننس میں زندگی کا تحفظ تو دور کی بات ہے۔۔۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply