ملال کا ملال

جمعہ11اکتوبر کو پوری قوم ایک ہی خبر کی منتظر تھی کہ’’امن کا نوبل انعام جرات مند ملالا یوسف زئی نے حاصل کیا‘‘ بلاآخر وہ خبر نشر ہوئی جس سے طالبان خوش ہوئے اور بہت دیگر بھی۔ اور کچھ سیاستدان اور دانشور خاصے ناراض کہ ایک بار پھر ’’اسلحہ نے تعلیم‘‘ کو شکست دیدی وغیرہ وغیرہ۔

 

یہ امر تو بھرحال طے ہوگیا ہے کہ یہ عالمی اعزازات اب ان لوگوں کے حصے میں آئیں گے جو پاکستان کا تیزاب زدہ چہرے دنیا کو ’’سیونگ فیس‘‘ کی صورت میں دکھائیں گے۔ اقوام متحدہ نے ’’ملالا ڈے‘‘ منایا تو امریکی تعلیمی اداروں میں بچے ایک دوسرے کو ملالا کا تعارف یہی کہ کر کراتے ہوں گے نا کہ ’’پاکستان میں لڑکیوں پر ظلم ہوتا ہے وہ تعلیم کیلئے گھروں سے نکلتی ہیں تو جنگجو دہشتگرد ان پر گولیاں برساتے ہیں۔ جن پر تعلیم اور تہذیب کے دروازے بند ۔داڑھی اور پگڑی والے بندوقیں تھامے گلی کوچوں میں دندناتے پھرتے ہیں اورگلی محلوں میں ملالائیں سسک رہی ہیں‘‘ بس کچھ ایسی ہے روشن پاکستان کی تصویر یورپ کی اور ساری دنیا کی نظر میں۔

 

malalaاب سوچیں ذرا ۔مختاراں مائی جب امریکہ، کینڈا اور یورپ کا دورہ کررہی تھیں وہاں کی یونیورسٹیوں میں بلائی جارہی تھیں ایوارڈز اور اعزازات وصول کررہی تھیں تو بھلا یورپ کے نوجوان کیا تعارف رکھتے ہوں گے مختاراں مائی کا۔۔وجہ شہرت کیا تھی انکی۔۔؟ ظلم بلاشبہ ظلم ہے چاہے ملالا پر ہو ، مختاراں مائی پر ہو یا تیزاب کاشکار عورتوں پر لیکن ’’مظلومین‘‘ کو پاکستان کیخلاف اشتہار بازی کیلئے استعمال کیا جائے اور پاکستان کا جھلسا ہوا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ، یہ تو مَرگ مفاجات کی سزا ہے جو ہم بھگت رہے ہیں۔۔حکمران استعماری قوتوں کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں اور درد کے مارے عوام اپنا درد لے کر پر آجاتے ہیں کبھی سوشل میڈیا پر اپنے دل کا غبار نکالتے ہیں۔ اور سچ پوچھیں تو عوام تو نوبل انعام کا حقدار ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سمجھتے ہیں۔ مظلوم تو عافیہ بھی ہے اور وہ جو ملالا کو ایک گولی لگنے پر اقوام متحدہ کے تحت’’ملالا ڈے‘‘ مناتے ہیں اور اسے ’’سخاروف ایوارڈ‘‘ سے نوازتے ہیں وہ ہماری قوم کی ایک عظیم بیٹی (جس کی علمی اور تحقیقی اور انسان دوست خدمات واقعی اس لائق تھیں کہ اسے یورپ کی یونیورسٹیاں اعزازات سے نوازتیں) اسے قید وبند میں انسانیت سوز سلوک کا مستحق سمجھتے ہیں۔ اسے انکی عدالت86برس قید کی سزا سناتی ہے جو دین کے ساتھ ساتھ دنیا کی مایہ ناز یونیورسٹی کی فارغ التحصیل تھی، کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا جسے ۔ ایک سچی مسلمان پاکستانی جس کی علم کیلئے خدمات کسی سے کم نہ تھیں وہ بھیڑ یوں کے نرغے میں کیسے پہنچی ، کون سی اذیت ہے جو بے نام جرم کی پاداش میں اسے نہیں دی گئی۔ چوک چوراہوں پر عافیہ کی نیم مردہ تصویر جس طرح 18کروڑ عوام اور حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے اسی طرح کا طمانچہ ملالا کی نوبل انعام کیلئے نامزدگی ہے۔

 

اور وہی نوبل انعام کی تاریخ تو جاننے والے جانتے ہیں کہ انکی نامزدگیوں کے پیمانے کیا ہوتے ہیں۔ اور وہ یہ اعزاز جن لوگوں کے سرپر سجاتے ہیں انکو کس طرح اپنے مفادات کے گھناؤنے کھیل کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اسی لئے بغاوت کی بو آتی ہے۔ نوبل انعام سے جب اسکی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ ، عبدالستار ایدھی، سید علی گیلانی(جو استعمارہ ہیں کشمیر میں ظلم وجبر کیخلاف بغاوت کااس اعزاز کیلئے وہ نامزدگیوں سے بھی کوسوں دور ہیں) ہاں اعزاز کے مستحق ٹھرتے ہیں تو اسرائیلی وزارئے اعظم بینجمن یاہو، رابن اور شعمون پریز۔اور نوبل انعام بھی انسانی حقوق کی پاسداری پر دیا جاتا ہے انہیں۔۔وہ ہنری کسنجر کو امن کا سفیر گردان کر نوبل انعام کا حقدار ٹھراتے ہیں اور کہیں ورڈولسن کو، ٹھیوڈرروزویلٹ کے سرپر نوبل کی ہُما بیٹھتی ہے تو کبھی جمی کارٹر اور بارک اوباما کے سرپر۔ اقوام متحدہ ٹھری ان کے گھر کی باندی۔ خاموش تماشائی مسلمان دنیا بھر میں ایک عظیم ظلم سے دوچار ہیں لاکھوں کی تعداد میں قتل کردیئے جائیں چاہے کشمیر میں، بوسینیا میں، مصر میں ، شام یا افغانستان وعراق و پاکستان میں۔۔ اقوام متحدہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر ۔؛ اس اعلیٰ خدمت کے عوض کوفی عنان اور البرادعی کو نوبل انعام کا حقدار ٹھرایا گیا۔ کیا پھر بھی نوبل انعام کو واقعی اہم اعزاز سمجھتے ہیں۔اور اس جیوری کے بارے میں کیا رائے رکھنا پسند کریں گے جو انسانیت کے قاتلوں اور اسلام دشمنوں کو اس اعزاز کا مستحق سمجھتی ہے۔ان کی اپنی لغت ہے اور اپنے سچ اور جھوٹ۔ اگر صدراوباما نے امن کا نوبل انعام اس لئے جیتا کہ وہ افغانستان ، عراق، مصر، شام اور لیبیا اور پاکستان میں’’امن‘‘ کی فاختائوں کو دانہ ڈال رہے ہیں۔ اور ’’ڈرون کی گل پاشیوں سے فضائیں معطر ہیں چار سو تو واقعی نوبل انعام کمیٹی کی بصیرت پر داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ ماضی بعید کی تاریخ پر نہ بھی جائیں تو ماضی قریب کی تاریخ ان سب کو ’’جھوٹ کا گواہ‘‘ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔خود9/11کو امریکی ادارے اور ایجنسیاں شواہدکی روشنی میں جھوٹ ثابت کررہی ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن کو ہم سچ اور مقدس گردانتے رھے ہمارے وزیراعظم نے قوم کو اس عظیم کارنامے پر مبارکباد پیش کی جبکہ خود امریکہ میں اس ڈرامے کے فراڈ ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ اور ہم ہیں کہ اس مقدس جنگ کو جاری رکھنے پر مصر ہیں جس میں 50ہزار سے زائد پاکستانی بے گناہ شہری اور فورسز کے جوان کام آچکے اور 100بلین ڈالر کا نقصان ایک غریب قوم پر برداشت کرچکی۔

 

اور قوم تو جگ ہنسائی بھی برادشت کرتے کرتے تھک چکی چاہے شرمین عبید چنائے کی صورت میں ہو یا مختاراں مائی اور ملالہ کی صورت میں۔ کہنے والے کہ رہے ہیں کہ نوبل انعام نہ بھی ملا تو دختر پاکستان ملالہ آج پاکستان کا وہ پرومو(Promo)بن چکی ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کے سافٹ امیج کو فروغ دے رہا ہے اور ملالہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہے۔ لیکن وہ کروڑوں دل کیسے شقی القلب ہیں جو قومی جگ ہنسائی اور رسوائی کو برادشت کررہے ہیں۔ اور اسکا ثبوت خود ملالہ کی حال ہی میں منظر عام پر آنے والی کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘ ہے۔کتاب کا ہر ورق شہادت دے رہا ہے کہ یہ بچی استعمار کے نرغے میں ہے اور وہ کیوں نہ وہ سب کہتی جو اس نے کہا جبکہ وہ گورڈن براؤن کی شاگردی میں ہے۔ اس کے اوپر’’مغربی ایجنٹ‘‘ ہونے کا اب تک الزام تھا لیکن اس کتاب نے اس کی تصدیق کردی۔ اسکے خیال میں سلمان رشدی کو ’’اظہار کی آزادی‘‘ کا حق ہے۔اسکے خیال میں ’’قانون شہادت‘‘ضیاالحق کا نافذ کردہ ظلم ہے’’قانون توہین رسالتِ ‘‘بھی اس کے نظر میں متنازعہ ہے۔ جنرل ضیاء شدت پسند جبکہ پرویز مشرف روشن خیال تھے۔اور انکی ویلنٹائن ڈے ،بسنت،میوزیکل کنسرٹ کی اجازت دینا، رقص وسرور کو فروغ دینا حتیٰ کہ کتے پالنا اسکے نزدیک انکی روشن خیالی کی ضمانت ہے۔ لفظ ’’مُلا‘‘ کو اس نے انتہائی تحقیر کے ساتھ استعمال کیا۔ ایک سولہ برس کی بچی ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور کے بارے میں کیسے اتنا ٹھوس تجزیہ کرسکتی ہے۔ کتاب کے مصنف ملالہ کے والد ہوں یا ملالہ۔ کتاب کی ہر سطر اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ واقعی ملالہ کا ’’انتخاب‘‘ نوبل انعام کے امیدواروں کی صف میں درست تھا۔ کیونکہ اور تمام شواہد مٹا بھی دیں تو ’’آئی ایم ملالہ‘‘ خود اسکو مغرب کا ایجنٹ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ آخر یونہی تو نہیں’’ملالہ فنڈ‘‘ پر برسات ڈالرز کی شنید ہے کہ عالمی بینک نے حال ہی میں 200ملین ڈالرز کا عطیہ دیا ہے ’’ملالہ فنڈ‘‘ میں۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply