مغربی جمہوریت، اسلامی جمہوریت اور خلافت

1947 میں نعرہ لگا یا گیا،پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ اس تحریک کی قیا دت قا ئد اعظم محمد علی جنا ح نے کی اور حما یت عوام الناس ہر کس و ناقص نے کی تو یہ ملک ایک نظریا تی ریا ست وجود میں آئی۔
1949ء میں قرار دادا مقاصد منظور ہو ئی،یہ قرارداد 22ممتاز علمائے دین جو مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے تھے،کی مشترکہ جدوجہد منظور ہوئی۔
1973ء کے آئین میں ممتاز علمائے کرام شامل تھے،انھوں نے اس آئین کو صحیح اور پہلا آئین قرار دیا۔ بہت سے ممتاز علما ئے کرام خود اس انتخاب میں حصہ لیتے رہے۔
ان سا ری سر گرمیوں کے با وجود آج تک کسی عالم دین نے ان کے خلاف فتویٰ نہیں دیا لہذا یہ اجتماع امت سکوتی ہے جو خود شرعی حجت ہے۔

 

جمہو ریت کا لفظی تر جمہ انگریزی ڈکشنری میں درج ہے “ایسا سیاسی نظام جس میں لوگ اپنے نما ئندوں کو اپنی را ئے سے منتخب کر تے ہیں” مغرب میں رائج نظام کی تعریف جو زیا دہ جا مع قرار دی گئی ہے وہ یوں ہے “عوام پر،عوام کی حکومت،عوام کی مرضی سے” یعنی مغرب میں جس چیز کو جمہو ری حکو مت یا جمہو ریت کہتے ہیں وہ دو بنیا دی تصورات کا مجموع ہے۔ عوام کی قانونی اور سیاسی حاکمیت جو عوام کی اکژیت یا ان کے منتخب کئے ہو ئے نما ئندوں کی کثرت کے ذریعے عملا وجود میں آئے اور ریاست کا انتظا م کرنے والی حکومت کا عوام کی آزادانہ خواہش سے بننا اوربدل سکنا۔

 

اسلامی جمہو ریت قانونی حاکمیت کو اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص کر تی ہے،جس کے احکام (خواہ وہ کتاب اللہ میں ہوں یا سنت رسول ﷺمیں)ریا ست کیلئے ناقابل تفیرو تبدیل قانون کی حیثیت رکھتے ہیں،اور سیا سی حاکمیت کو”حاکمیت”کے بجا ئے “خلا فت” (یعنی اللہ حاکم حقیقی کی نیا بت)قرار دے کر ریا ست کے عام مسلمان با شندوں کے حوالے کر دیتا ہے۔یہ خلا فت مسلم عوام کی اکثریت یا ان کے متعمد علیہ نما ئندوں کی اکثریت کے ذریعے سے عملا ظہور میں آتی ہے اس بنیا دی فرق کو دیکھتے ہو ئے اسلامی جمہو ریہ پاکستان کی ریا ست کے نظام کو مغربی اصطلا ح کے مطا بق جمہو ریت کہنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ گویا اسلام جس نو عیت کی ریا ست بنا تا ہے اس مین ایک مجلس قانون ساز کی مو جو دگی ضروری ہے۔جس کے ارکان کے انتخاب کا طر یقہ اسلام میںکسی آیت قرآنی یا حدیثﷺ سے مقرر نہیں کیا گیا،مگر اصولی ہدا یات درج ذیل ہیں۔
1۔ریا ست کا کام با ہم مشاورت سے چلا یا جا ئیگا۔
2۔فیصلے اجماع(اتفاق را ئے)سے یا جمہور(اکثریت) کی را ئے کے مطا بق ہو نگی۔
3۔قرآن و سنت کے خلاف کو ئی فیصلہ اتفاق را ئے سے نہیں کیا جا سکتا۔
4۔قرآن و سنت کے احکام کی جس کی تعبیر پر اجما عی یا جمہو ری فیصلہ ہو جائے وہ نا فذ ہو گا۔

 

پا کستان کے دستور کے چند اہم خدوخال ان دفعات سے واضح ہو تے ہیں۔

 

اس دستور کی د فعہ نمبر1ہے۔”مملکت پا کستان ایک وفاقی جمہو ریہ ہو گی جس کا نام اسلا می جمہو ریہ پا کستان ہو گا۔ دفعہ نمبر2۔ “اسلام پا کستان کا مملکتی مذہب ہوگا”۔ دفعہ نمبر2(۱) قرار داد مقاصد مستقل احکام کا حصہ ہو گی۔قرار داد مقاصد میں درج ہے کہ”چو نکہ اللہ تبا رک تعالیٰ ہی پو ری کا ئنا ت کا بلا شرکت غیر حاکم مطلق ہے اور پا کستان کے جمہور کو اختیارواقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کر نے کا حق ہو گا،جوایک مقدس امانت ہے،چو نکہ پا کستان کے جمہور کی منشاء ہے کہ ایک ایسانظام قائم کیا جا ئے،جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کر دہ نما ئندوں کے ذریعے استعمال کر ے گی؛جس میں جمہوریت،آزادی،مساوات،راواداری اور عدل و عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے،پو ری طرح عمل کیا جا ئیگا،جس میںمسلما نوں کو انفرادی اور اجتما عی حلقہ ہا ئے عمل میں اس قابل بنا یا جا ئیگا کہ وہ اپنی زند گی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطا بق جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ترتیب دے سکیں۔۔۔۔۔” دفعہ نمبر31(۱)پا کستان کے مسلما نوں کو انفرادی او ر اجتماعی طور پر زند گی اسلام کے بنیا دی اصولوں اور سیا سی تصورات کے مطا بق مر تب کر نے کے قابل بنا نے کیلئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کر نے کیلئے اقدا مات کئے جا ئیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطا بق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔دفعہ50۔پا کستان کی ایک مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ ہو گی)جو صدر اور دو ایوانوں پر مشتمل ہو گی۔دفعہ62اور 63کی روشنی میں نما ئندوں کی اہلیت چانچی جائے گئی۔الیکشن کمیشن کی جا ری کردہ ہدا یات کے مطا بق ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی کیلئے کاغذات نا مزدگی جمع کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ جس حلقے سے ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی بطور امیدوار الیکشن میں حصہ لے گا اس حلقے کے دو ووٹر اس شخص کو بطور امیدوار نا مزد کر یں گے۔

 

تا ریخ میں درج ہے کہ رسول ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لا ئے تودنیا کا پہلا تحریری دستور میثاق مدینہ لکھا گیا تشکیل دیا،جس کے فریق نصاریٰ،یہو دی قبائل اور مسلمان تھے،اس معا ہدے کی اہم دفعات میں شامل تھا کہ خون بہا اور فدیہ کا جو طر یقہ چلا آرہا ہے وہ قا ئم رہے گا،معروف مستشرک نکلس لکھتا ہے”بظاہر یہ محتاط اور دانشمندانہ اصطلاح ہے،حقیقت میں یہ ایک انقلاب ہے محمد ﷺ نے قبا ئل کی بے راہ روی پر کھلم کھلا ضرب نہیں لگا ئی بلکہ اس کو ختم کر ڈالا۔۔۔ہر چند اسی وحدت میں یہودی، مشرکین اور مسلمان شریک تھے لیکن آپ اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ اس نوزائیدہ ریا ست میں فعال اور با اثر حصہ دار مسلمان ہی ہیں اس حقیقت کو آپ کے مخالفین پہلے نہ دیکھ سکے” دنیا کے نقشے پر وجود میں آنیوالی پہلی اسلامی ریا ست کے دستور پر عمل درآمد کیلئے بوقت ضرورت مشورہ کے ادارے میں فریقین با ہم مل کر فیصلے کر تے تھے،آخری فیصلہ حضورﷺ کا ہوتا تھا۔

 

صلح حدیبیہ میں مکہ کے کفار و قریش کے سا تھ معا ہدہ کیا گیا۔فتح مکہ کے موقع پر سکہ بند اسلام دشمن افراد کے گھروں کو بھی جا ئے پناہ قرار دیا،اسلامی ریا ست کے نظم و نسق کیلئے کئی ادارے تشکیل دیے۔رسولﷺ کے وصال کے بعد جو لوگ آپﷺ کے جا نشین ہیں اور اسلامی ریا ست کے سربراہ ہو ئے وہ سب آپ ﷺ کے خلفاء تھے۔اختیارات کے لحاظ سے خلفا ئے را شدین اسلامی ریا ست کے سر براہ،حکو مت کے افسر اعلیٰ،سپہ سالار اعظم عدالت عا لیہ کے قا ضی القصاۃ،ما لیات کے ناظم اعلیٰ اور دین کے امام ہو تے تھے۔خلا فت اسلامی کے اولین30سالہ دور میں امت کے چار خلفا ء ہو ئے،یہی اولین دور حدیث نبوی کے مطا بق خلا فت نبوت کا دور کہلا تا ہے۔رسول ﷺ اسلا می ریا ست کی انتظا میہ کو جن خطوط پر منظم کیا تھا،خلفا ئے را شدین نے انہی خطوط پر اپنے اپنے زما نے میں اس کو بر قرار رکھا اور قرآن و سنت اور حالات و زمانہ کی رعایت کے ساتھ مختلف ادارے اور محکمے قائم کئے۔خلا فت سے مراد دین کی حفا ظت اور دنیا وی معاملات کورسول ﷺ کے نا ئب کی حیثیت سے سر انجام دینا ہے۔ نبیﷺ کے وصال کے بعد،تدفین سے پہلے،مہا جرین نے صحابہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو نبی پا ک ﷺ کا جا نشین بنا نے کا اجتما عی فیصلہ کیا،اس پر حضرت عمرؓ کھڑے ہو ئے اور کہا یہ ہما رے امیر ہیں،اس کے بعد آپ نے ان کے ہا تھ پر بیت کی اور لو گوں سے بھی کہا کہ بیعت کریں،چنا نچہ سب نے بیعت کرلی۔

 

حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے مر ض الموت میں ایک تحریر لکھوا ئی،جسمیں حضرت عمرؓکو اپنے بعد خلیفہ نا مزد کیا،،مجمع نے با لاتفاق حضرت ابو بکرؓ کے فیصلے کو تسلیم کر لیا اور بیعت کا اقرار کر لیا۔ حضرت عمرؓ پر حملہ ہوا تو آپ حجرے میں تشریف لے آئے،با ہر مردوں کا ہجوم تھا،کہا گیاامیر المومنین وصیت لکھ دیجئے اور کسی کو اپنا جا نشین مقرر کر دیجیے،آپ نے چھ آدمیوں کو نا مزد کیا،کہ یہ با ہم مشورہ کر کے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں،مگر حضرت عبد اللہ بن عمرؓکے با رے میں فر ما یا کہ وہ تمھا رے مشورے میں شامل ہو گا لیکن وہ خلیفہ بننے کا اہل نہیں۔ان چھ افراد نے اپنے میںسے حضرت عثمان ؓ کو خلیفہ نا مزد کر لیا،جن کی لو گوں نے بیعت کی۔

 

حضرت عثمان ؓ کی شہا دت کے بعد اہل مدینہ کی کثرت نے حضرت علی ؓکے ہا تھ پر بیعت کر لی ۔مگر امت کا ایک حصہ ان کی بیعت سے گریز اں رہا۔ان کا مطا لبہ تھا جب تک قتل کا قصاص قا تلوں سے نہ لیا جا ئے وہ ان کی بیعت نہیں کریں گے حضرت علی نے نئے گورنر مقرر کر دیے،مگر شام کے گورنر امیر معاویہ نے گورنری چھوڑنے سے انکار کر دیا اس پر جنگ صفین ہو ئی۔بعد میں حضرت علیؓ نے امیر معا ویہ کے ساتھ صلح کر لی،جس کی رو سے شام اورمغربی علا قوں پر امیر معا ویہ کی حکو مت تسلیم کر لی گئی۔

 

حضرت علی ؓ کی شہا دت کے بعد حضرت حسنؓ خلیفہ مقرر ہو ئے مگر وہ امیر معا ویہ کے حق میں دست بردار ہو گئے اور یوں امیر معا ویہ تمام ممالک اسلا میہ کے بلا شر کت غیرے خلیفہ تسلیم کر لئے گئے۔ اس سا ری تفصیل سے خلیفہ کے انتخاب کیلئے،عوام الناس کی را ئے اور اکا بر ین کے مشورے کا اصول سمجھ آتا ہے،کو ئی لگا بندھا طر یقہ نبیﷺ کی حدیث سے ثا بت نہیں ہے کہ جس پر عمل لا زم ہو ا۔اب سوال اگر اٹھا یا جائے کہ یہ خلافت کا نظام نہیں ہے لہذا ووٹ نہ دیاتو حوالۃعرض ہے۔

 

سید ابو اعلیٰ مو دودی،اسلامی ریا ست صفحہ نمبر723پر لکھتے ہیں،”اب یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کی جب تک قوم میں ذہنی انقلاب واقع نہ ہو اس وقت تک ہم اپنے سیا سی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطا بق استعمال کر تے رہیں یا ان اختیارات کو اسلامی اصولوں کے مطا بق کام میںلا ئیں۔سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کو ئی مصرف اور مقصدتو متعین کر نا پڑے گا،حکومت کی مشنری کواخلاقی انقلاب( “جہاد کے ذریعے خلا فت”)رونما ہو نے تک بہر حال معطل نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے،اور وہ یہ کہ اگر آپ اجتما عی اخلا قی انقلاب لا نا چا ہتے ہیں تو آپ کو غور کر نا پڑے گا کہ اس انقلاب کے ذرائع اور وسائل کیا ہو سکتے ہیں۔آخر اس حما قت اور جہالت کا ارتکاب ہم کیوں کریں کہ ایک طرف تو ہم انفرادی حیثیت سے اسلام کے سما جی انقلاب کی راہ ہموار کر نے کی کو شش کریں اور دوسری طرف اقندار کو اس سماجی انقلاب کو سپوتاز کرنے کے لیے چھوڑ دیں۔

 

پا کستان میں بھی بقول دوسرے گروہ کے جہاد اور پھر خلا فت کا نظام رائج کیا جا ئیگا جس کے خدوخال بھی ان پر واضح نہیں ہیں،طریقہ کار کا تعین بھی نہیں ہے،اس خلافت کو وجود میں لا نے کیلئے،کتنے سال درکار ہونگے۔تب تک بکرا ہت ہی سہی اس نظام کو گوارہ کیا جا نا چا ہیے۔وگرنہ خیر کی نہیں شر کی کی پشت پنا ہی ہو گی۔

فیس بک تبصرے

مغربی جمہوریت، اسلامی جمہوریت اور خلافت“ پر 2 تبصرے

  1. عمدہ دلائل ہیں.
    لیکن اسلامی آئین کے باوجود پاکستان کا نظام استعماری اور دجالی ہے اگر یہ نظام جس طرح 66 سال سے چل رہے مزید چلتا رہے تو خود ہی بتائیے کہ اسلامی آئین کا لالی پاپ چوستے رہنا کہاں کی دانشمندی ہے.
    جمہاویت سے کبھی بھی اسلام نہیں آسکتا.
    قوم اسلام کے نفاذ کے لیے کبھی بھی تیار نہیں ہوگی کیونکہ عوام الناس کو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوتی ہے
    دینی سیاسی جماعتیں خاص طور پر ایم ایم اے آئین میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے دین کے نفاذ میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں خاص کر مولانا ڈیزل ، دین بیزار پرویز مشرف کا دست و بازو بننے کے علاوہ کوئی بھی قابل ذکر کام نا کرسکے
    یہ تین حقائق اٹل ہیں جنہیں کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا. اگر آپ کے پاس ان حقائق کے خلاف دلائل ہیں تو پیش کیجیے اگر نہیں ہیں تو اسلامی جمہوریت اور اسلامی آئین پر اصرار نا کیجیئے .

    • آپ کے خیال میں اسلامی نظام کا اور کیا طریقہ ہے ؟؟ قتال؟

Leave a Reply