انتخاب

ہا ں بولو مسلسل بجتی فون کی گھنٹی پر اس نے ریسیور اٹھا کر کہا۔۔۔
کیا بات ہے، بہت جلدی میں ہو، سانس بھی پھول رہا ہے ہا ں سے بھا گتی آئی ہو نیہا اسٹا رٹ ہو چکی تھی
کچھ نہیں بس آجکل کچھ مصروفیت زیادہ ہے فٹا فٹ کام نمٹا رہی تھی خیر تم بتا ؤ بڑے دن بعد میری یاد آئی صائمہ نے سکون سے جواب دیا۔۔۔
بھائی کی شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی ہے اگلے ماہ کی ۷ کو انشا ء للہ نکاح ہے
ارے واہ یہ تو بہت اچھی خبر سنا ئی تم نے آنٹی کو ، سب گھر والو ں کو بہت بہت مبا رکبا د دینا۔۔۔
سوری اپنے کام خود کرو ویسے بھی امی خاص کر تمہا را پو چھ رہیں تھیں کہا ں رہتی ہو کتنے ہی دنو ں سے نہ فون کیا نہ گھر آئیں ، بھائی الگ میرا ریکا ڈ لگا رہا تھا کہ کہا ں تو اتنی دوستی کہ دن میں دوپہر تک کالج میں ساتھ رہنے کے با وجود شام سے رات تک فون پر گھسی رہتیں تھیں محترمہ کا اب دور دور تک پتہ ہی نہیں لگتا ہے پھڈا ہو گیا ہے نیہا نے منہ بگا ڑ کر اسد کی نقل اتاتے ہو ئے کہا
خیر اس کو تو عادت ہے اول فول بو لنے کی صائمہ نے ہنستے ہو ئے کہا
اور اس دن کا بھی اسے انتظا ر ہے جب ہما ری دیرینہ دوستی کسی لڑا ئی کی نظر ہو جا ئے اور انشا ء للہ اس کا انتظار انتظار ہی رہے گا خیر میں نے تمھیں سب سے پہلے خوش خبری سنا ئی ہے اب ساری مصرو فیا ت کو پیچھے ڈالو اور میرے سا تھ بازا ر جا نے کے لیے کمر کس لو ، نیہا پر جوش تھی۔۔۔
وہ ایسا ہے نیہا کہ ابھی کچھ دن تو میرے بہت بزی ہیں اسکے بعد ہی تمہا رے ساتھ چل سکوں گی ، صائمہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔۔۔
ہیں میڈم اس کے بعد وقت ہی کیا رہ جا ئے گا اور پھر اصل مرحلہ تو دلہن کے عروسی جوڑے کا ہے مجھ کو تو پہلے ہی ڈر ہے کہ ایک ماہ میں کو ئی برا ئڈل بنا نے پر راضی ہو گا بھی یا نہیں ملکی حالات سے تم وا قف ہی ہو آئے دن کے ہنگا موں اور ہڑ تا لو ں کی وجہ سے با زار بند ہو جا تے ہیں ٹیلر کے نخرے الگ ایک ایک سوٹ سینے میں اتنے دن لگا دیتا ہے زیادہ اترا نے کی ضرورت نہیں بجا ئے آگے بڑھ کر ذمہ داری لینے کے محترمہ فر ما رہی ہیں کہ ابھی بزی ہوں سیدھی طرح تیا ر ہو جا ؤ میں ۴ بجے تک پک کرو ں گی۔۔۔
بات سنو نیہا صائمہ نے اس کی فرا ٹے بھرتی زبان کو سخت لہجے میں روکتے ہو ئے کہا
تم اپنی ہی کہے جا رہی ہو میری نہیں سن رہیں ابھی تم نے ملکی حالات کا ذکر کیا تھا نا اب یہ وقت سب کا موں کو چھوڑ کر حالات کی بہتری کے لیے قدم اٹھا نے کا ہے
کس چیز کا وقت ، کو نسا وقت ، کیا کہ رہی ہو نیہا جھلا گئی تھی
اٹھو خواب غفلت سے اب جا گ جا ؤ
ہے وقت الیکشن ، اب وطن کو بچا ؤ
ذرا اپنے ووٹو ں کی طا قت دیکھا ؤ
جو سچے ہیں مسند پہ ان کو بٹھا ؤ ۔۔۔۔۔۔صائمہ نے ترنم سے کہا

اچھا نیہا نے اچھا کو خوب لمبا کھینچتے ہو کہا ، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ بھلا ہم گھر بیٹھنے والیا ں کیا کر سکتے ہیں اور بات سنو بی بنو یہ
آپ جنا ب کو سیا ست کا شوق کب سے پیدا ہو گیا اتنے بڑے سیاست دان کچھ نییں کر سکے وہ ہم کرینگے واہ ، نیہا نے طنز کیا
ہاں انشاء اللہ ہم ہی کرینگے ہما رے پاس ووٹ کی صورت میں بڑی طا قت ہے ہم اس طا قت کا صحیح استعما ل کرینگے ، ملکی حالات
ہما رے سامنے ہیں ، پچھلے ماہ و سا ل کو گذرے زیا دہ دن بھی نہیں گذرے ہم آزما ئے ہووں کو مزید آزما کر اپنے اوپر بد امنی بیروز گا ری بھوک و افلا س ٹارگٹ کلنگ کے مہیب بادل پھر سے نہیں لایئنگے انتخابا ت کی صورت میں پاک وطن ، کو معا شرے کو کرپشن سے بچا نے کا جو زریں موقع ہا تھ آرہا ہے ، ا سے نہ جا نے دینگے ووٹ قومی امانت ہے ، شہا دت ہے اور اس شہا دت کو استعمال کر کے نا ا ھل فاسق و ظالم حکمرا نو ں سے ملک کو بچا ئینگے، صائمہ نے جوش و جذبے سے کہا۔۔۔

 

ہیں ہیں یہ بیٹھے بیٹھے خواب کب سے دیکھنے لگیں تم کیا سمجھتی ہو تمہارا ایک ووٹ ملک کی تقدیر بدل دے گا ؟ پوترں کے بگڑے
ہو ئے بھی کبھی لمحوں میں سدھرے ہیں ؟ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ دھا ندلی نہیں ہو گی ، بو گس ووٹ نھیں ڈالے جا ئنگے ، من پسند نتا ئج نہیں لا ئے جا ئنگے ، عوام کو بے وقوف نہیں بنا یا جا ئے گا ، اس ملک کے ساتھ اب تک یہی ہو تا آیا ہے نا ، اسٹبلشمنٹ جسے چا ہے گی اقتدار بھی اسی کو ملے گا ، یہ انتخا بات تو بس ڈھونگ ہیں اور مظلوم عوام کو بے وقوف بنا نے کا ذریعہ بھی ، نہ بابا نہ ووٹ ڈالنے کے لیے اپنی جان جو کھوں میں ڈالنے کا میرا تو کوئی ارادہ نہیں اور جب چہرے بدل کر وہی بد ترین نظام سر پر مسلط کیا جانا ہے تو اپنی انرجی ویسٹ کرنے کا فا ئدہ ، نیہا نے جھلا تے ہو ئے کہا۔۔۔

 

انرجی ویسٹ کرنے کی بھی خوب کہی ، خیر جب سے مجھ پر یہ ادرا ک ہوا ہے کہ ہمارے ووٹو ں سے کا میاب ہو نے والا امید وار اپنے پانچ سالہ دور میں جو بھی ایک نیک عمل یا بد عمل کرے گا ہم بھی اس کے شریک سمجھے جا ئئنگے ، اگر خاموش رہے ووٹ نہیں ڈالا تو گوا ہی کو چھپا نے کے مر تکب ہو نگے اور کسی بھی نا اھل کو نما ئندگی کے لیے جا نتے بو جھتے ووٹ دے کر کامیاب بنا یا تو در حققیقت جھو ٹی شہا دت دی جو نہ صرف گنا ہ کبیرہ اور دنیا و آخرت کا وبا ل ہے بلکہ پوری قوم کے حقوق کو پا مال کرنے کا گناہ بھی اس کی گردن پر ہو گا تو جب سے ہی میں نے ووٹ ڈالنے کا عزم کر لیا تھا اور ذرا سو چو تو سہی کہ اسلا م کا مزاج یہ ہے کہ اس کے دا ئرے میں ہر چیز اللہ ہی کے لیے کی جا تی ہے مسلمان جہا د کی صورت میں جنگ کرتا ہے تو صرف اللہ اور اس کے دین ہی کے لیے ، امن قا ئم کرتا ہے تو صرف اسی کے لیے ، کھا نا کھاتا ہے تو اللہ کا نام لے کر ، پانی پیتا ہے تو اللہ کو یاد کر کے، تو پھر جب دین قائم کرنے کے لیے چنا ؤ کا وقت آ جا ئے تو اس کی اہمیت کو ہم کیوں نہیں سمجھتے ،ہم یہ کیوں سوچتے ہیں کہ ایک ہما رے ووٹ سے کیا ہو گا یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہما را ایک ووٹ ہی کامیا بی سے ہمکنا ر کر دے گا رہی با ت سیا ست میں دلچسپی لینے کی تو اصل دلچسپی دین کے نفا ذ کی ہے ، معا شرے کی اصلاح کی ہے ، جو صالح حکمرا نو ں کے بغیر ممکن نہیں ، بگڑے ہو ئے معا شرے کو بہترین ، چنا ؤ ، کے ذریعے صالح قیا دت کے سپرد کرنے کو اگر تم سیا ست کہتی ہو تو یہ سیاست لا زمی ہو نی چاہیے کیو نکہ جدا ہو دین سے سیا ست تورہ جا تی ہے چنگیزی۔۔۔

 

اوکے یار تم نے تو بور کر دیا ہے ،اتنی ثقیل باتوں نے تو میری ساری ایکسا ئمنٹ ہی ختم کر دی ہے،بہر حال میں نے تو تمہیں شادی کی تیا ریوں میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے فون کیا تھا ، جانتی ہو نا تمہا رے بغیر مجھے کچھ سوجھتا ہی نہیں اب میں کیا کروں ، نیہا نے بے چا رگی سے کہا۔۔۔
ارے تو میں نے کب منع کیا ہے لیکن ابھی کچھ ہی دن با قی ہیں آ ؤ پہلے موجودہ بد ترین حالات کو سدھا رنے کا عزم تو کر لیں اپنی دلچسپیوں کو اپنے اوقات کو قربا ن کر کے نیکی کا ساتھ دے کر خیر کو مضبوط کر لیں تو پھر انشا ء اللہ دائمی خوشیا ں ہم سے دور نہیں
ہو نگی ، صائمہ نے جذبا ت سے پر لہجے میں کہا۔۔۔

 

تو ووٹ کا اصل حقدا ر کون ہے ، یہ کیسے پتہ چلے گا جب سے الیکشن سر پر آیا ہے ہر جا نب سے برسا تی مینڈکو ں کی طرح صدا ئے عا م بلند ہو نے لگی ہے کہ ڈوبتے ملک کو اسی کی پا رٹی بچا ئے گی تما م لوگ گلے پھا ڑ پھا ڑ کر اقتدار کے شیدائی بنے اپنی مدح سرا ئی اور حریفو ں کی مذمت میں مشغول ہیں ایسے میں کیسے پتہ چلے گا کہ اصل حکمرا نی کا حقدار کون ہے ، نیہا اب جلا ل میں آچکی تھی۔ دھیرج ، یار دھیرج گلا تو نہ پھا رؤ تم بالکل صحیح کہ رہی ہو اور یہ بہت اہم سوچ ہے کہ ووٹ جیسی گوا ہی کا اصل حقدار کو ن ہو تو اس کے لیے اپنا مطالعہ بڑھا ؤ۔۔۔
کیسا مطا لعہ ، نیہا نے با ت کاٹ کر بے صبری سے کہا
اب خاموشی سے تو سن لو ،بتا تو رہی ہوں صائمہ نے جھلا تے ہوئے جواب دیا ، بھئی تا ریخ کا مطا لعہ ، پاکستان ، دطن عزیز کا حصول کیا تھا ؟
کس لیے علیحدہ وطن کا مطا لبہ کیا گیا تھا ، اسلام ،جمہو ریت ، اوراردو زبان قیام پا کستان کی تین بنیا دیں لیکن ان کو غیر مو ئثر کرنے کی کوششیں اول روز سے جا ری ہیں اور آج تک سیکولر لا بی نظریہ پا کستا ن کو سبو تاز کرنے میں سر گرم عمل ہے ، اسلام کے نام پر حاصل کیے جا نے والے ملک پاکستان میں مذہب ایک فیصلہ کن عا مل ہے جس کا تشخص اور جس کا تحفظ پاکستان میں بسنے والے ہر مسلمان شہری پر وا جب ہے جب تک تمام علوم و فنون کو اسلامی بنیا دوں پر مرتب نہیں کیا جا ئے گا اس وقت تک غلبہ دین کے تقاظے پورے نہیں ہو نگے منہ سے اسلامی نظام کی مالا جپ کر نظام نہین بنتا اس کے لیے کار گذاری دیکھنی ہو گی ، ملک میں را ئج تعلیمی نظام دیکھنا ہو گا ، عدا لتی فیصلے دیکھنے ہونگے ، پچھلی تمام حکو متو ں کی کا ر گذاریا ں ، ان کے کرتوت ، ان کے دور حکومت میں مہنگا ئی ، بد امنی قتل و غارتگری لوٹ کھسوٹ ، بھو ک افلا س سے مغلوب ہو کر معصو م شہریوں کی خود کشی کے بڑھتے واقعا ت کا گرا ف دیکھنا ہو گا ، قدرتی آفا ت کے نتیجے میں وقت کے حکمرا نو ں کا طرز عمل یاد کرنا ہو گا عوام کو بھوکا رکھ کر اپنے لیے وسیع تر دسترخوان سجانے والے حکمرا نوں سے کیا بھلا ئی کی توقع کی جا سکتی ہے ؟آج کے نوجوان کل کے معمار ہیں ان کو کھیل ، تما شے اور میڈیا کے ذریعے اپنے مقاصد سے غافل فاسٹ میوذک ، فاسٹ فوٹ کا شیدا ئی بنا دیا ہے ، بچوں کو تعلیم کے نا م پر ان کے ذہنوں کو سیکو لر بنا یا جارہا ہے ، ان کو اسلاف کی قربا نیوں سے غافل کر دیا گیا ہے ، وہ صلا ح الدین ایوبی ، خالد بن ولید ، ٹیپو سلطان سے انجان اور جیکی چن ، بروسلی ، اسٹیف سے واقف ہیں ان کو آئیڈیا لا ئز کرتے ہیں۔

 

دوستوں کے دفادار اور دالدین کے نافر مان بچے اپنے آپ کو ہر قسم کی نصیحتوں سے با لا تر سمجھ کر خور درو پو دوں کی مانند پروان چڑھ رہے ہیں ، ان بر گر بچو ں سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے کہ ملک کی با گ ڈور صحیح طور پر سنبھا ل پا ئینگے ۔بولتے بولتے صائمہ کا سانس پھولنے لگا تھا۔۔۔
اچھا بابا اچھا تمہا را جوش خطا بت سن کر اب تو میرا دل بھی ووٹ ڈالنے کو مچل رہا ہے نیہا نے شرا رتی لہجے میں کہا
مذاق نہیں نیہا ، اب صائمہ روہا نسی ہو چلی تھی ، تم کبو تر کی طرح آنکھیں بند کر لو تو اور بات ہے ورنہ یہ طے ہے کہ ووٹ اہم گوا ہی ہے اور اس سے رو گرا نی رفتہ رفتہ ایسے خنجر میں تبدیل ہو جا ئے گی جو تمام ملک کے ساتھ ساتھ خود آپ کے اہل و عیال کے گلے تک پہنچ جائے گی اس لیے میری التجا ہے کہ کم سے کم ووٹ کے معا ملے میں اپنی ذات کو سود و زیا ں کے تمام تر تصورات سے با لا تر رکھ کر فیصلہ کر لو کہ ووٹ کی صورت میں شہا ت ضرور دینا ہے اور جس کسی کا چنا ؤ کرو تو اس کے بارے میں ضرور چھا ن بین کر لو کہ اس کے با رے میں لوگو ں کی را ئے کیسی ہے اچھی یا بری ؟ وہ کرپشن میں تو ملوث نہیں رہ چکا ؟اپنے پڑوس رشتے دار کے ساتھ اس کا سلوک ، اس کے محبوب مشا غل ، اقتدار کے زما نے میں اس کا طرز عمل ، اس کا ذریعہ معاش حلال ہے یا حرام ، سلطا ن جابر کے سامنے حق گوئی ْ منکسرا لمزاجی اس کا مبلغ علم اور علم و مذہب کے اثرات اسکی نجی زندگی میں پا ئے جاتے ہیں ، غرض ان تمام شرائط کے تحت فرد کا چنا ؤ ہی آپ کو اللہ کے یہا ں بری کروا سکتا ہے۔

 

ارے نہیں صائمہ میں تو تمہیں صرف تنگ کر رہی تھی ، میرا مقصد تم کو ہرٹ کرنا نہ تھا ، اللہ تمہارے جذبے کو قبول کرے ، تم مجھے اپنے ساتھ ہی پا ؤ گی مگر یاد رکھنا کہ اس کڑے وقت کے گذرنے کے بعد تم نے پھر میرے کام کے لیے وقت نکا لنا ہے
ہا ں کیوں نہیں ، ہم کو سچی اور دائمی خوشیا ں بھی تو حاصل کرنی ہیں نا۔۔۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply