قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے!

’’میرے دل میں آ رزو پیدا ہوئی کہ میں اپنی اس شہزادی کے شاندار جیٹ میں بیٹھ کر ان کے ساتھ چلی جائوں ! میں ان سے کہے بغیر نہ رہ سکی کہ وہ مجھے اپنے سوٹ کیس میں ڈا ل کر اپنے ہمراہ لے جائیں ! جس پر انہوں نے جواب دیا کہ نہیں تمہیں وہ سب کچھ پسند نہیں آ ئے گا جو میرے ملک میں ہوتا ہے۔تم اپنی ملازمت پر واپس جائو ، میں تمہارے بچے کیلئے بھی پیسے بھجوائوں گی اور ہاں !جب وہ پیدا ہو تو مجھے اس کی تصویر ضرور بھیجنا۔‘‘ جب ہم گلے ملے توانہوں نے مجھے ایک لفافہ دیا جو میں نے گھر آ کر کھولا۔۔۔ میں ائر پورٹ پر رو پڑی اور سو چنے لگی کہ اب نہ جانے کب شہزادی واپس آ ئیں گی؟ کتنا اچھا رویہ تھاان کا میرے ساتھ یا کم ازکم میرے منہ پر تو اچھا ہی تھا۔۔۔‘‘

 

’’شہزادی کی نائب نے جب مجھے اپنا وہ ڈریس تحفے میں دیا جومجھے بہت پسند آ یا تھاتو میں شدت جذبات سے مغلوب ہو گئی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں اسی خاندان کا ایک حصہ ہوں جن سے میرا تعلق محض چھہ ہفتے پرا نا تھا! اس لفا فے میں 2000ڈالرزتھے ! میں نے ان پیسوں کے لئے بڑی محنت کی تھی ۔کمال مہر بانی اور میزبانی کا ثبوت دیا تھا ۔اپنی، اپنے شہر اور ملک کی بہترین نمائندگی کی تھی۔شدیدبر فانی موسم میں سڑ کوں کی خراب صورت حال کے باوجود مکمل مہارت کے ساتھ آٹھ سے دس گھنٹے روزانہ ڈرائیو نگ کر تی تھی اس حال میں جبکہ میں چارماہ کی حاملہ تھی!! میں نے کیا!! یہ سب کچھ کیا۔۔۔‘‘

 

معزز قارئین ! یہ ایک بلاگ کا کچھ حصہ ہے جو یکم مارچ کو ایک ویب سائٹ Drop by drop we Fill the pot میں شائع ہوا۔ یہ ایک امریکی خاتون ٹیکسی ڈرائیور G.E.Cooperکی کہا نی ہے جس نے 2008میں سعو دیہ سے آ نے والی متمول خاتون (شاہی خاندان ) کی چھہ ہفتے تک خد مت کی تھی بطور ڈرائیور! یہ خاتون شہزادی نورا اپنے خاندان اور معاونین ملازمائوں کے ہمراہ امریکہ
آ ئی ہو ئی تھیں اور ڈرائیور کی طلب میں انہوں نے اس ایجنسی سے رابطہ کیا جو ڈرائیورز سپلائی کر تی تھی۔۔یہ امریکی خاتون اس ایجنسی میں واحد خاتون ڈرائیور تھیں جو اس سعودی فیملی کو فراہم کر دی گئیں۔

 

یہ خاتون اس شاہی خاندان سے بہت گھل مل گئی تھی خصوصا ملازمائوں ( نائبین )کے سا تھ!ان کی حر کات اور گفتگو کو بڑے دلچسپ انداز میں تحریر کیا ہے۔ ان کی کمزور انگلش اور اپنی خراب عربی کی وجہ سے جو لطائف سرزد ہوئے ان کو اس بلاگ کا حصہ بنا یا ہے۔اگر چہ شہزادی بہت نفیس انگریزی بولتی تھیں مگر چونکہ واسطہ تو زیادہ تر نائیبین کے ساتھ ہی ہو تا تھا ،جنہیں انگریزی پر عبور نہ تھا لہذا خوب خوب لطیفے ہوئے۔ زبان کا درست فہم نہ ہو نے کے با عث مضحکہ خیز واقعات بھی ہو ئے۔ زنانہ قسم کی بد حواسیاں ،ایک دوسرے پرتبصرے، ،مشورے،نصیحتیں اس بلاگ کا حصہ ہیں۔

 

Cooperکا کہنا ہے کہ ’’۔۔۔۔۔۔اپنی ڈیو ٹی کے دوران مجھے tip کے علاوہ دیگر مدات میں بھی کا فی آ مدنی ہو جاتی تھی ۔روزانہ 50ڈالرز کی ٹپ شہزادی کی نائب کی طرف سے مجھے ملتی تھی کہ میں اپنے لئے بر گر خرید لوں ! ہم آ پس میں مذاق کر تے کیو نکہ ہم آہنگی پیدا ہو گئی تھی۔ ہم سب کواچھی طرح علم تھا کہ ایک بر گر محض ایک ڈالر میں بآ سانی خریدا جاسکتا ہے مگر یہ ان لطف و کرم تھا۔۔۔۔۔وہ ہمیشہ ہنستی جب میں ڈالر menu کہتی۔

 

چھہ ہفتے کی ڈھیروں کہا نیا ں ہیں جن سے میں اس دوران واقف ہو ئی۔بہت خوشگوار یا دیںہیں اور میںدوبارہ اس مو قع کی منتظر ! مجھے روزانہ سو ڈالرز ملا کر تے تھے اپنی خدمات کے صلے میں! Tips ، تحائف اور کھانے اس کے علاوہ ہیں ۔ یہ سب کچھ میری توقعات سے کہیں زیا دہ تھا ۔ ڈرائیونگ کا یہ تجر بہ میرے لئے بہت مثبت ، دلچسپ اور معلوماتی رہااورمالی آ سودگی کا سبب بنا۔۔۔‘‘
شہزادی کی ایک نائب کو بہت افسوس تھا کہ وہ KFCنہیں کھا سکتی کیونکہ کچھ عرصے بعد اس کی شادی ہونے والی تھی اور شہزادی نے اسے احتیاط کا مشورہ دیا ہے کہ اس قسم کے کھانے اس کو بد صورت کر دیں گے کیونکہ ان میںبہت روغن ہو تا ہے اور چہرے اور جلد کی شگفتگی کے لئے پر ہیز لازمی ہے۔۔۔ دوسری نائب نے ایک بچے کو جنم دیا جس کا نام خالد رکھا گیا وہ اسپتال میں آ رام کر رہی تھی۔۔۔ (یہ ساری تفصیلات اس امریکی خاتون کے احساس محرومی کا مظہر ہیں جو do’nt careوالے امریکی رویہ میں اسے نظر آ تی ہیں)۔

 

وہ لکھتی ہے ’’۔۔۔شہزادی کی ایک رشتہ دارنے مجھے ایک گولڈن سکہ دیا جسے میں نے اپنے نیکلس میں لگوا لیا ۔میں اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھی مگرافسوس مجھے اسے کرا یہ کی مد میں دینا پڑگیا۔۔۔ مجھے اس وقت تک علم نہیں تھا کہ سعودی عرب میں خوا تین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہے۔ شہزادی سے ملاقات کے دو ہفتے بعد مجھے پتہ چلا تو میں حیران رہ گئی اور کہے بغیر نہ رہ سکی کہ میں بہت اچھی ڈرائیور ہوں کیونکہ مجھے خطرہ ہواکہ کہیں وہ مجھے فارغ نہ کر دیں ! انہوں نے مجھے تسلی دی کہ تم بہت اچھی ڈرائیور ہو ! لیکن اگر مجھے اپنے ملک میں کر نے کی اجازت مل بھی جائے تو میں شاید اسے پسند نہ کروں !!!مجھے سمجھ نہ آ یا کہ میں کیا کہوں ؟ اس ایجنسی میں میں واحد خاتون ڈرائیور تھی ۔میں نے کئی دفعہ سو چا کہ میں نے اس پیشے کا انتخاب کیوں کیا؟ مجھے اپنے اس سوال کا جوا ب نہ ملا بلکہ مز ید سوالات بڑھتے چلے گئے۔۔۔‘‘

 

’’ جس دن وہ لوگ روانہ ہو ئے بڑا مصروف دن تھا اور جذ باتی بھی!! اسکے بعد سے میں مستقل ان لوگوںکے بارے میں سوچتی رہتی ہوں! شہزادی اور اس کے نائبین کے بارے میں ! وہ کیا کر رہی ہوں گی ؟ کیسی ہوں گی؟ کیا وہ دوبارہ آ ئیں گی؟ کیا مجھے ان کی خد مت کا دوبارہ موقع مل سکے گا؟ کیا شہزادی کو اندازہ ہے کہ ان کی ڈرائیونگ کر کے میری زندگی کتنی تبدیل ہو گئی ہے؟ کیا انہیںمعلوم ہو سکے گا کہ میں اپنے شہری حقوق کے لئے کس قدر محنت کر رہی ہوں؟ ‘‘

 

’’مجھے حیرانی ہے کہ شہزادی اور نائبین میرے بارے میں کبھی سوچتی ہوں گی کہ نہیں ؟مجھے یہ سوچنا اچھا لگتا ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی کھانے کی میز پر بیٹھی ہوں اور آ پس میں میرے بارے میں گفتگو کریں ، مجھے یاد کریں کہ وہ امریکی خاتون ڈرائیور جو سر پر سفید ٹوپی اوڑھتی ہے ، کس قدر ذمہ داریوں اور مشکلات میں جکڑی ہوئی ہے! شاید ان کو معلوم ہو کہ میرے ساتھ کیا ہوا؟ جب 2010ء میں مجھے ملازمت سے بر خاست کر دیا گیا یہ کہہ کر کہ میں ایک عورت ہوں! مجھے امید ہے کہ وہ میرے بارے میں،میرے حقوق کے بارے میں بھی بات کریں!‘‘

 

’’دو ہفتے پہلے مجھے منال الشریف سے ملنے کی سعادت ملی۔یہ وہی خاتون ہے جس کی ڈرائیونگ کی ویڈیو ٹیپ نے پورے سعودی عرب میں تہلکہ مچادیا تھا۔ منال سے ملنے کے بعد مجھے ذاتی تجربے کی بنیادپر یہ کہنے کا موقع ملا کہ میں اظہار رائے کر سکوں ! جی ہاں ! اس بات پر کہ کسی خاتون کو کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنی چاہئے یا سعودیوں کی طرح نہیں؟ منال سے مل کر مجھے معلوم ہوا کہ سعودی عرب کی خواتین اجازت حاصل کر نے کے لئے بڑی محنت کر رہی ہیں۔۔۔ آپ زیادہ سے زیادہ اس بلاگ کو بڑ ھائیں تاکہ مستقبل کی خواتین زیادہ سے زیادہ مثبت انداز میں اپنا حقوق حا صل کر سکیں۔۔۔ ‘‘

 

معزز قارئین! اس بلاگ کے آ خر میں G.E.Cooperنے مدد کی درخواست کی ہے مالی اور اخلاقی! اس نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ صنفی امتیاز کے معاملے میں اتنا کام کرے کہ ایک کتاب لکھ لی جائے جس کا عنوان ہو Let My Mommy Drive !اس نے بخشش وغیرہ کے لئے اپنی ویب سائٹ کا ایڈریس (شاید اس میں اپنے بچے(بچوں؟) ، ان کے باپ(شوہر؟؟) وغیرہ کی تفصیلات دی ہوں ) اور منال کا ایڈریس بھی دیا ہے۔۔۔

 

اس بلاگ کو پڑ ھ کر بہت سے زاویوں سے بات ہو سکتی ہے طبقاتی فرق سے لے کر بنیادی شہری حقو ق تک ! مگر جو بات مجھے کہنی ہے اور امید ہے کہ آ پ بھی اس سے اتفاق کریں گے ؟ ایک عورت جو معاشی جدوجہد کے لئے ٹیکسی چلا رہی ہے اس کا سامنے جب یہ حقیقت آتی ہے کہ کسی ملک میں اس پر اس کی پابندی ہے تو وہ حیران ہوجاتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عورت کامعاشی جدوجہد سے بری الذمہ ہونا اور خاندانی نظام کے خوبصورت جلوے اسے خیرہ کر دیتے ہیں بمقابلہ اپنی خود مختاری اور آ زادی کے!!اس بلاگ کوسعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے ایشو کے لئے استعمال کیا گیا ہے جبکہ اس کا ہر لفظ امریکی ، مغربی عورت کی لاچاری اور بے کسی ظاہر کر رہا ہے۔بظاہر ہر دو جگہوں پر خواتین کے خود مختار ہونے کی تمنا کی گئی ہے مگر اس کے زیر لب جھلکتی آزادعورت کی مظلومیت مسلم عورت کو بہت تفاخر کا احساس دے رہی ہے۔ خوبصورت خاندانی نظام کے تحت زندگی گزارنے والی خواتین اس نعمت کا احساس کریں ذرا!

 

اس بلاگ کو پڑھ کر میں نے تبصرہ لکھا کہ ’’۔۔۔یہ اتنا بڑا ایشو نہیں ہے! امریکی خاتون زیادہ مصائب کا شکار نظر آ رہی ہے جسے پیسے کمانے کے لئے odd jobکر نی پڑ رہی ہے جس سے سعودی خواتین مبرا ہیں ۔ عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ گھر کو سجائے اور بچے کو پالے اور اس سے یہ حق چھین کر اسے ڈرائیونگ پر لگا دینا اس کی نسائیت کو کچل دیتا ہے ۔ بہتر ہے کہ خواتین کو حقوق دلانے کے لئے اسے باوقار درجہ دیا جائے بجائے اسکے کہ وہ معمولی نوکریوں کی بھیک مانگتی رہے۔۔۔‘‘

 

اس کے جواب میں Cooper نے جو جملے لکھے وہ ہی میرے اس بلاگ کا محرک بنا ’’۔۔۔آپ کا تبصرہ ہو بہو وہی بات کہہ رہا ہے جس کے لئے میں اپنی سچی کہانی دنیا کے سانے لائی۔ آپ کا شکریہ کہ آ پ نے اپنے تکلیف دہ خیال کو دنیا کے ساتھ شئیر کیا!ہو سکتا ہے کہ آ پ کے جملے پڑ ھ کر ہر ایک کو احساس ہو جائے کہ یہ اتنا بڑا ایشوکیوں ہے؟ شکریہ۔۔۔‘‘

 

دیکھا آ پ نے ! ذو معنی جملے کے باوجود اس معاملے کی اہمیت اجاگر ہورہی کہ کیوں آ خر عورت کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا گیا ہے ؟ یہ بڑا symbolic رویہ ہے عورت کومعاش کا پہیہ بناناجبکہ خدائی قانون میں یہ مرد کی ذمہ داری ہے!!

فیس بک تبصرے

قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے!“ پر 6 تبصرے

  1. اسلام اور ہمارا خاندانی نظام تو ہمارے لئے سہولیات فراہم کرتا ہے . خواتین کے لئے جو سکون گھریلو زندگی میں ہے ، وہ کسی اور چیز میں نہیں . عورت کیلئے بہترین زندگی گھریلو زندگی ہی ہے ، ورنہ اگر یہاں بھی نوکری پیشہ خواتین سے پوچھا جائے تو ان میں سے % ٩٥ خواتین آسودہ اور گھریلو زندگی ہی گزارنا ہی چاہتی ہیں .

  2. واقعی ہر مسلمان عورت شہزادی ہے! اسے معاش کے چکر سے آزاد رکھا گیا ہے اور گھریلو کاموں میں بھی مرد کر نے کے لئے کہا گیا ہے ۔ اسلام زندہ باد! اگر سکون حاصل کر نے کے لئے خود مختاری سے دستبردار بھی ہو نا پڑے تو سودا مہنگا نہیں ! اور پابندی بھی ایسی کوئی خاص نہیں! آ خر حضرت خدیجہ بھی تو تجارت کر تی تھیں ! بس توازن برقرار رکھنے کا حکم ہے۔

  3. جس زاویے سے اس پورے واقعہ کا جائزہ لیا گیا ہے وہ نہایت قابل ستائش ہے.

    • قلم کارواں کےویب منتظم کی حوصلہ افزائی کا شکریہ ! حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کی بات لوگوں تک اچھی طرح پہنچ جائے تو خوشی دگنی ہو جاتی ہے۔ میں نے بھی یہ بلاگ بہت دل سے لکھا تھا ۔دراصل اس کا لنک ٹوئٹر پر ایک لبرل خاتون نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دیا تھا جسے میں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
      بات یہ ہی ہو نی چاہئیے کہ ان کی پچ پر جاکر گیم کھیلا جائے اس میں محنت کم اور نتائج زیادہ بہتر نکلتے ہیں ۔ اس بلاگ کا تر جمہ اور تلخیص کر نے میں محض گھنٹہ لگا ہو گا ہاں اگر میں تحقیق کر نے کے بعد کر تی تو یقینا بہت زیادہ وقت لگتا۔
      اللہ ہمیں حکمت اور خوبصورتی سے کام کر نےکی تو فیق دے۔

  4. جیس انداز ساے اپ ناے یس معاملے کہ دایکھا ھے، وہ ھی اس موضوع کے لیے بھترین ھے۔ ڈرایونگ کی اجازت یا پابندی اور اسی طرح کے قوانین کسی بھی مئلک کا داخلی معاملہ ھین۔ وہاں کے شہری اس کے لیے اواز اٹھا سکتے ھین جیسے ساری دنیا مین ھو تا رہتا ھای۔ لیکن ہر معاملے کہ مسلم معاشرون مین عورت پر ظلم سے جوڑ دینا بڑا سستا سا حربہ ہے جسے لبرلز اور مغربی لوگ بڑی چالاکی سے استعمال کرتے ہین اور یہ بھول جاتے ھین کہ خود ان کے گھرون میں کیا ہورہا ھے۔

    • تبصرے کا شکریہ ! مجھے لگا کہ اس موضوع کے حوالے سے ویمن ایشوز پر بات کی جا سکتی ہے ۔7 مارچ کو ویمن ڈے کے تعلق سے دی نہشن میں بھی ایک خاتون کا اسی ایشو پر بلاگ پڑھ کر ہنسی آئی کہ سعودی عورت کی مظلو میت کا رونا روتے روتے ناگفتہ بہ باتیں نکل جاتی ہیں جو امریک معاشرے میں عورت کے مقام کی قلعی کھول دیتی ہےِ
      یقینا یہ اسلام کی حقانیت ہے جو اپنے آپ کو منواتی ہے مگر سچ بات تو یہ ہے کہ اگر دلیل اچھی نہ ہو تو حق دعوٰی بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ اللہ ہمیں بہترین طریقے سے اسلام پیش کر نے کی توفیق دے۔آ مین

Leave a Reply