آہ و بکا… ایک نظمیہ غزل سانحۂ عباس ٹاؤن کے نام‎!

ہر طرف آہ و بکا ہے کیا ہے؟
یہ کوئی شہرِ جفا ہے کیا ہے؟

 

اپنی غفلت کا نتیجہ تو نہیں
اپنے جرموں کی سزا ہے کیا ہے؟

 

بھوک سے روتے بِلکتے بچّے
اُن کی آہوں کی صدا ہے کیا ہے؟

 

مرنے والوں کے لرزتے لب پر
بددُعا ہے کہ دُعا ہے کیا ہے؟

 

کس پہ الزام کا خنجر پھیریں
بے گناہی ہے خطا ہے کیا ہے؟

 

چاک ہوتا ہی نہیں ہے پردہ
کون پردے میں چھُپا ہے کیا ہے؟

 

کس کو قاتل کہیں مقتول کسے
ہر کوئی چیخ رہا ہے کیا ہے؟؟؟

 

بوجھ اپنی ہی خطاؤں کا نہ ہو
سر پہ جو آکے گرا ہے کیا ہے؟

 

کون کافر ہے کون مومن ہے
فیصلہ کس نے دیا ہے کیا ہے؟

 

مرنے والے تو سبھی انساں ہیں
مارنے والا گدھا ہے کیا ہے؟

 

نام کیا دیں اِسے صؔفدر بولو
ظلم و دہشت ہے؟ انا ہے؟ کیا ہے؟

 

شاعر: صفدر علی صؔفدر

فیس بک تبصرے

آہ و بکا… ایک نظمیہ غزل سانحۂ عباس ٹاؤن کے نام‎!“ ایک تبصرہ

  1. کراچی پھچلے 28 سالوں سے مقتل بنا ہوا ہے اور جو لوگ پچھلے 25 سالوں سے یہاں قابض ہیں کس طرح دامن بچا کر نکل رہے ہیں ۔ عوام کو چاہیئے کہ ان قاتلوں کو سزا دلوائیں ۔ آ ج حزب اختلا ف میں بیتھ کر ٹو پی ڈرامہ کر رہے ہیں ۔گورنر ہائو س میں سکون سے بیٹھنے والوں کا ذرا حساب کتاب تو لیا جائے۔؟بلے کو دودھ کی رکھوالی پر مامور کر نا عوام کی بہت بڑی نادانی ہے۔

Leave a Reply