ہم سے ووٹ بھی لیتے ہیں اور نوٹ بھی، لیکن کاٹتے بھی ہمیں کو ہیں

وہ کردار جس نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا ، وہ ہے “نامعلوم”۔ جی ہاں۔۔۔ اس کا نام ہی “نامعلوم” ہے۔ اس کی مقبولیت اور ہردلعزیزی کا یہ عالم ہے کہ اگر آپ ان کی طرف صرف نظر اٹھا کر ہی دیکھ لیں تو آنکھیں ہی نہیں عقل بھی اندھی ہوجاتی ہے۔

 

مواصلات اور معلومات تک رسائی کے اس دورِ جدید میں بھی یہ کردار افسانوی شہرت کا حامل ہے۔ اب بھلا کسی حکمران، سیاسی قائد، مبصر، دانشور اور خبروں کی ترسیل پر مامور کسی ٹھیکیدار کو کیا ضرورت پڑی ہے اس افسانوی کردار کے حامل “نامعلوم” کو تسخیر کرنے کی کوشش کرے اور اپنے ذریعہ معاش پر خود لات مارے؟

 

آپ معاشرے کے کسی بھی موضوع یا کردار کا انتخاب کریں اور “بھائی گوگل” کو بتائیں تو آپ کے سامنے دور جدید کا ایک معلوماتی خزانہ حاضر ہوجائے گا، اگر آپ کو مفت ہاتھ آئے مواد پر تسلی نہ ہو تو گوگل کم از کم آپ کو اس دوکان کا پتا ہی بتادے گا، جہاں سے آپ پیسے خرچ کرکے اپنی علمی پیاس بجھاسکتے ہیں سوائے اس “نامعلوم” افسانوی کردار کے۔

 

ایک دن اسی تجسس نے اکسایا کہ اپنے ایک صحافی دوست سے اس نامعلوم کے بارے میں سوال کیا جائے، چونکہ موصوف “چڈی فرینڈ” ہیں تو اپنا سوال باآسانی ان کے سر پر دے مارا ۔ سوال سن کر گویا موصوف کو 11 ہزار وولٹ کا کرنٹ لگ گیا۔ بجائے اس کے کہ وہ اس نامعلوم کی بابت ہمیں کچھ بتاتے، کہنے لگے۔۔۔ ابے تیرا تار والا ٹیلیفون ٹھیک ہوا؟ جواب مختصر سا تھا “نہیں”۔ زیب داستاں کے لیے مزید الفاظ جمع کرنا ہی شروع کیے تھے کہ موصوف نے ہم پر حملہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ الو کے پٹھے۔۔۔ ایک مہینے سے تیرا فون بند ہے اور تو مجھ سمیت نجانے کس کس کے دماغ کی لسی بنا چکا ہے۔۔۔ ہمارے چہرے پر ناگواری کے ابھرتے اثرات دیکھ کر گویا ان کو ہم پر رحم آگیا تھا۔ کہنے لگے ، بھائی۔۔۔ آپ کا فون صدر پاکستان نے کھمبے پر چڑھ کر تو ٹھیک نہیں کرنا، لائن مین نامی ایک مخلوق ہوتی ہے، اسے چائے پانی کے پیسے دے اور اپنا کام کروا۔ اچھا چل اٹھ اور ابھی جو چائے پی ہے اس کے بھی پیسے دے، گھر چلتے ہیں بہت نیند آرہی ہے۔

 

صبح ناشتہ کرکے گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، وہ جسے اپنے ملک کی فوج اور پولیس پچھلی کئی دہائیوں سے تلاش کرنے میں ناکام تھی، سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ہم نے بھی ایک پھیکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا اور پھر اس بلاوجہ تبادلہ مسکراہٹ کی وجہ بھی دریافت کی۔ کہنے لگا “میں لائن مین۔۔۔ وہ آپ کے پریس والے بھائی نے بولا تھا کہ فون ٹھیک کردینا اور خرچی بھی لے لینا ان سے۔ ٹیلیفون چیک کرلیں اپنا۔۔۔کیا فائدہ آپ نے اتنی پنچائیت لگائی۔۔۔ پورے ششٹم کو کوسا۔۔۔ آئیندہ کوئی بھی پرابلم ہو، مجھے ڈائریکٹ فون کریں۔۔۔ میرا نمبر نوٹ کریں اور نام لکھیں “نامعلوم”، ویسے پیار سے لوگ جگنو بھائی بھی بلاتے ہیں۔

 

ہم نے مسکرا کر نامعلوم عرف جگنو بھائی سے جان چھڑائی اور بھاگم بھاگ کچھ سامان خریدنے اپنے ایک دوست کی دوکان پہنچے تو پتا لگا کہ چند نامعلوم لوگ آئے تھے انہوں نے آکر ہوائی فائرنگ کی اور بازار بند کرادیا تھا۔

 

اپنا دوست دوکان کے بند شٹر کے باہر سر پکڑے بیٹھا تھا اور منہ بھی سوجا ہوا تھا، جب سوجے منہ کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ۔۔۔ ابے یہیں محلے کے لڑکے تھے، سالے سارا دن یہیں بیٹھے رہتے ہیں، ہم سے ووٹ بھی لیتے ہیں اور نوٹ بھی لیکن کاٹتے بھی ہمیں کو ہیں۔۔۔ اور گلے لگ کر زاروقطار رونے لگا شاید کسی معلوم کندھے کا انتظار کررہا تھا۔

 

بازار میں موجود اس کے کاروباری دوست بھی اسے تسلیاں دے رہے تھے کہ چل چھوڑ اب۔۔۔

بلاوجہ دشمنی ہوجاتی ہے۔۔۔

پولیس پوچھے تو کہہ دینا کہ ہمیں نہیں معلوم۔۔۔

پولیس بھی ملی ہوتی ہے۔ کیا فائدہ کسی کا نام لے کر۔۔۔

فیس بک تبصرے

ہم سے ووٹ بھی لیتے ہیں اور نوٹ بھی، لیکن کاٹتے بھی ہمیں کو ہیں“ پر 2 تبصرے

  1. السلام علیکم . روداد کے انداز میں ایک اچھا آغاز ہے ماشااللہ . اسد بھائی کے لئے دل کی گہرایوں سے د عا یں . کہ اس کارواں میں ان کی شمولیت مبارک ہو ، اور مستقبل میں کار مزید آمد . ولسلام آپکا بھائی

  2. السلام علیکم
    ”شاید کسی معلوم کندھے کا انتظار کررہا تھا۔”

    بہت خوب اسد بھائ، واقعی ظلم کے اس دور میں انصاف تو کیا اگر آنسو بہانے کو ایک معلوم کندھا مل جائے تو وہ بھی بہت غنیمت ہے-

    ایک قیامت صغری برپا ہے ہر طرف چاہے وہ کراچی ہو یا شام- اللہ ہمارے حال پر رحم کرے آمین-

Leave a Reply