حکایاتِ خواجہ

قارئین، ’’زمانے کے انداز بدلے گئے‘‘ سو نئے راگ اور نئے ساز کی ضرورت ہے۔ بچپن سے حکایاتِ سعدی و رومی پڑھتے اورسردھنتے چلے آرہے تھے۔مگر اب زمانہ اور رواج بدل چکا۔ پرانی اصطلاحات متروک ہو چکیں، بادشاہ اور خزانے کہیں دکھائی نہیں دیتے اور انگلش میڈیم میں پڑھنے والے بچے قبا،دہقان اور ڈونگی جیسے الفاظ سے یکسر ناواقف ہیں۔ یہی حال اخلاقیات کا ہے ، پرانے زمانے کے اخلاقی اسباق کو آج بے وقوفی سے تعبیر کیا جاتا ہے، سو آپ کی خدمت میں پرانی حکایات نئے بیان واندازاوراسباق کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں۔سعدی سے معذرت اور ابنِ انشا کے شکریہ کے ساتھ!!!

 

٭٭٭٭٭

 

پہلے دور کے لوگوں نے بادشاہ سے پوچھا کہ تو نے مشرق اور مغرب کے ممالک کیسے فتح کر لیے، حالانکہ پہلے زمانوں کے بادشاہ خزانوں، عمر اور لشکر میں تجھ سے بڑھے ہوئے تھے۔لیکن ایسی عظیم فتوحات اُن کو بھی نصیب نہ ہوئیں۔اس نے کہا، ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ملک میں نے فتح کیا وہاں کے باشندوں کو نہ ستایا،اور گزرے ہوئوں کی عمدہ رسموں کو منسوخ نہ کیااور گزشتہ بادشاہوں کوہمیشہ اچھائی سے یاد کیا۔ ‘‘
اخلاقی سبق:جو لوگ اس دنیا سے کوچ کر گئے ان کے نیک نام کو ضائع نہ کر تاکہ تیرا نیک نام باقی رہے
ملک کی آمدنی سے ملک کے باشندوں کو بھی فائدہ پہنچائو۔

 

دوسرے دور کے لوگوں نے بادشاہ سے پوچھا کہ تو نے دائیں بازو اور بائیں بازو کی جماعتوں کو بیک وقت دربار میں کیسے شامل کیا۔ حالانکہ پہلے بادشاہ مینڈیٹ ، عزت اور اعتبار میں تجھ سے بڑھے ہوئے تھے۔ لیکن ایسی مفاہمت اُن کے دور میں بھی نہ ہوئی۔اس نے کہا، ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ جس پارٹی کو میں نے اقتدار میں شامل کیا ، اس کے کرپٹ لوگوں کو کبھی نہ ستایا، اور گزرے ہوئوں کے نیب کے کیس کبھی نہ کھولے اورٹیکس چور صنعتکاروں اور زمینداروں کو عزت و احترام سے نوازا ‘‘
غیر اخلاقی سبق:جو لوگ حکومت تشکیل نہیں دے سکے، ان کے پرانے کھاتے مت کھول، تاکہ تیرے اپنے کھاتے محفوظ رہیں
کرپشن میں باقی پارٹیوں کو بھی حصہ دار بنائو۔

 

٭٭٭٭٭

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک منصف مزاج بادشاہ نہایت سادہ قبا پہنتا تھا۔ کسی نے اس سے کہا کہ عالم پناہ یہ قبا آپ کے شایانِ شان نہیں، آپ چینی دیبا کی قبا کیوں نہیں سلوا لیتے۔بادشاہ نے کہا کہ لباس کا مقصد جسم ڈھانپنا ہے اور یہ مقصد میری قبا بخوبی پورا کررہی ہے۔خزانے پر تنہا میرا حق نہیں ہے۔ بلکہ ملک کی حفاظت پر مامور جانباز بھی اس کے حقدار ہیں۔وہ سپاہی جو بادشاہ سے خوش نہ ہو، وہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرتا۔اگر ایک ظالم دہقان کا گدھا زیادتی سے چھین لے تو بادشاہ کو حق نہیں کہ اس دہقان سے مالیہ وصول کرے۔
اخلاقی سبق:اچھا بادشاہ وہ ہے جو ہر وقت اپنی رعایاکی خوشی کا خیال رکھے۔

 

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک منصف مزاج وزیراعظم۴۰۰ کمروںپر مشتمل انتہائی سادہ سے گھر میں رہتا تھا، ایک نیک دل وزیر نے اُس سے کہا، عالی جاہ، یہ مٹی کا گھروندا آپ کے شایانِ شایان نہیں، آپ وائٹ ہائوس کی طرز پر ایک رہائش گاہ تعمیر کیوں نہیں کرواتے۔اس نے کہا کہ رہائش گاہ کا مقصد ایک پرسکون نیند سونا ہے اور یہ مقصد میرا یہ چھوٹا سا گھر بخوبی پورا کررہا ہے۔وائٹ ہائوس کا مقصد محض دکھاوا ہے۔عوامی خزانے پر تنہا میرا حق نہیں ہے، بلکہ میری کابینہ کے ارکان اور بیوروکریٹس بھی اس پر اُتنا ہی حق رکھتے ہیں۔وہ کابینہ جو عیش و نشاط میں نہ ڈوبی ہو، وہ وزیراعظم کے مفادات کی حفاظت کیسے کر سکتی ہے۔ اگر ایک وزیراعظم اپنے بیوروکریٹس کو پلاٹ الاٹ نہیں کرسکتا تو اسے آئوٹ آف ٹرن ترقیاں دلوانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
غیراخلاقی سبق :اچھا وزیراعظم وہ ہے جو ہر وقت اپنی کابینہ کی خوشی کاخیال رکھے۔

 

٭٭٭٭٭

 

ایک مرتبہ چند بڑے لوگوں کے ہمراہ ایک کشتی میں بیٹھا ہوا تھا۔ایک ڈونگی ہمارے سامنے ڈوب گئی۔ اور دو بھائی بھنور میں پھنس گئے۔ سرداروں میں سے ایک نے ملاح سے کہا ان دونوں کو پکڑ کر بھنور سے نکال۔ میں ہر ایک کے عوض پچاس دینار دوں گا۔ملاح پانی میں گھسااور ایک کو نکال لایا جبکہ دوسرا ہلاک ہوگیا۔ میرے منہ سے نکلا کہ اس کی عمر باقی نہیں رہی تھی اسی وجہ سے تو نے اس کے نکالنے میں دیر کردی اور دوسرے کو بچالیا۔ ملاح ہنسا اور کہا ! یقینی بات یہی ہے۔ لیکن ایک سبب اور بھی ہے۔پوچھنے پر بتایاکہ:
’’ ایک کے نکالنے میں میری دلی رغبت اس وجہ سے زیادہ تھی کہ ایک وقت میں جنگل میں تنہارہ گیا تھا تو اس نے مجھے اونٹ پر بٹھالیا تھا۔
جب کہ دوسرے نے مجھے ایک مرتبہ کوڑے رسید کیے تھے۔‘‘
اخلاقی سبق:جس نے نیک عمل کیا اپنے نفس کے فائدے کے لیے کیا اور جس نے برا عمل کیا اس کا نقصان اسی کو ہے
حاجت مند فقیر کے کام کو پورا کر کہ تجھ کو بھی بہت سے کام پیش آئیں گے۔

 

دوسری مرتبہ چند بڑے سفیروں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بیٹھا تھا۔ ہمارے سامنے ایک حکومت الٹ گئی اور دو وزیر کرپشن کیسز میں پھنس کر رہ گئے۔ سفیروں میں سے ایک نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ان دونوں کو عدالت سے بچا لے ۔میں تجھے اگلی حکومت میں وزیرِ قانون بنوا دوں گا۔اٹارنی جنرل نے مقدمہ لڑا اور ایک کو باعزت بری کروادیا جبکہ دوسرے کو عمر قید کی سزا ہوگئی۔ میرے منہ سے نکلا کہ اس کے مقدرکی حرام کی کمائی پوری ہوگئی تھی جوسزا سے نہ بچ سکا۔سو تو نے اس کی پیروی چھوڑدی اور دوسرے کو بری کروادیا۔ اٹارنی جنرل ہنسا اور کہا کہ یقینی وجہ تو یہی تھی مگر ایک وجہ اور بھی تھی۔پوچھنے پر بتایاکہ
’’ایک وزیر نے میرے برادرخورد کو جعلی امپورٹ ایکسپورٹ کے لائسنس دلوائے تھے جبکہ دوسرے نے میری جعلی ڈگری پکڑوا دی تھی جس کے با عث میں جج نہ بن سکا۔‘‘

 

غیراخلاقی سبق:جس نے کسی کی ناجائز مدد کی اس کا فائدہ اسی کو ہے، اور جس نے کسی کے معاملے میں خواہ مخواہ ٹانگ اڑائی اس کا نقصان اسی کو ہے۔
دوسروں کے گناہوں کی پردہ پوشی کر کہ تجھ کو ابھی بہت سے گناہ کرنے ہیں
خواہ کیسی ہی مصیبت کیوں نہ آ پڑے، ملکی سلامتی کو ذاتی مفاد پر ہرگز ترجیح نہ دو۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply