شاہ دولہ کے چوہے

میں نے اپنی زندگی کاایک بڑا عرصہ پنجاب میں گزارا اور شروع  شروع میں کئی بار سفر ٹرین کے ذریعے بھی کیا  پنڈی سےکراچی تک کے ٹرین کے اس سفر میں بہت کچھ وہ دیکھنے کو ملا جو عام زندگی میں شاید کبھی ممکن نہیں ۔ اسی سفر کے دوران ایک ایسی مخلوق دیکھنے کو ملی جسے دیکھ کر میں اتنی خوفزدہ ہوئی کہ دودن کے اس سفرکا ایک پورا دن میں نے اوپر برتھ پر گزار دیا اور میری ہمت نہیں تھی کہ میں نیچے اتر سکوں ۔۔ وہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں تھی نہ ہی جنات کی کوئی قسم تھی بلکہ وہ میرے اور آپ کے جیسی ہی پیدا کی گئی اشرف المخلوقات کا شرف بخشی گئی مخلوق تھی مگر یہاں اس زمین پر انسان کی اس سے زیادہ بد ترین شکل شائد ہی کوِئی اور ہو جسے انسان نما وحشیوں نے” شاہ دولہ کے چوہوں “کا لقب دے دیا تھا میں نے اپنا وہ سفر کسی سے بات کئے بغیر  بس اسی سوچ میں گزارا کہ وہ میرا پیارا رب جس نے اس انسان کو بہترین شکل میں پیدا کیا اس کے اعضاء کو کس خوبصورتی سے سنوارا اور جسے وہ خالق خود یوں بیان کرتا ہے

الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ ﴿٧﴾ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ (سورۃ النفطار)

جس (رب نے) تجھے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک کیا، پھر (درست اور) برابر بنایا

 

مگر آج اس انسان نے کس بیدردی سے ہییت ہی بدل کر رکھ دی خدا کی سب سے خوبصورت تخلیق کی۔۔۔

 

شاہ دولہ کے چوہے جن کی کہانی یہ ہے کہ گجرات میں ایک مزار ہے جس کا نام شاہ دولہ ہے اور وہاں عورتیں و مرد اپنی مرادیں مانگنے جاتے ہیں بے اولاد اولاد مانگنے اور اسکے لیے وہ یہ منت مانتے ہیں کہ اپنی پہلی اولاد کو شاہ دولہ کے مزار پر ہی چھوڑ دیں گے۔۔۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے مگر بات یہیں  تک نہیں کہ آگے کی کہانی اس سے کئی گناہ بھیانک اور انسانیت کی گری ہوئی شکل ہے۔۔۔کہ جن بچوں کو منت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے انکے سروں پر اسی وقت لوہے کی ٹوپی پہنا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے انکا جسم تو بڑھتا ہے مگر ان کا سر اور دماغ ایک پیدا ہونے والے بچے جتنا ہی رہتا ہے اور پھر انکے بڑے ہوجانے پر ایک فرد ان کے ساتھ لیکر بھیک مانگتا ہے اور ہر جگہ ان کے ساتھ رہتا ہے کیونکہ وہ اس قابل نہیں کہ خود سے کچھ کر سکیں اس لیے اب ان کی زندگیاں ایسے ہی گزرتی ہیں جس میں ہاتھ پکڑ کر چلانے والے تو بدلتے رہتے ہیں مگر انکی تقدیریں نہیں بدلتیں۔۔۔

 

میں تین دن سے سینکڑوں مریدوں کو ایک ڈبہ پیک قائد کے ہاتھوں ایسے ہی استعمال ہوتا دیکھ رہی تھی اور ڈھول کی تھاپ پر  لایا جانے والا وہ اسلامی انقلاب جس میں اسلام ڈھونڈے سے بھی نہیں نظر آتا۔ جس میں قافلہ  کربلا کا دعوی کرنے والے قائد صاحب خود پلٹ پروف کنٹینر میں بیٹھ کر کہتے ہیں میں اپنی لاش لینے آیا ہوں۔۔۔ اور یہ کہ گولی مجھے مارنا میرے بچوں کو نہ مارنا اور یہ کہہ کر اپنے بم پروف کنٹینر میں آرام دہ سیٹ پربیٹھ کر اس مست ہجوم کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور تو اور جب خطاب کے لیے مجبوری میں باہر بھی نکلنا پڑا تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ اسٹیج تک کس طرح لائے گئے کہ گاڑی سے نکلتے ہی انکے اطراف میں بلٹ پروف شیٹس لیے گارڈز اس قدر چوکس تھے کہ جسے ایک لمحے کی بھی غلطی کی گنجائش نہ ہو اور خطاب کے دوران بار بار گاڑھی انگریزی استعمال کرتے آقاوں کو  اپنی وفاداریوں کا پیغام دیتے یہ امام صاحب ہزاروں لوگوں کی نمازیں قضاء کراتے ہیں جن پر نہ خود شیغ الاسلام کو کوئی رنج نہ اس قافلہ کے باسیوں کو ہی کوئی غم ہے ۔یہ کیسا قافلہ کربلا ہے جس میں ایک بھی حسین نہیں۔۔۔

 

اور اس انقلابی ڈرامے کا ایک اور کلیدی کردار جس نے پوری قوم  کہ نفسیاتی طور پر یرغمال بنایا ہوا ہے وہ ہے اس تماشے کی لمحے لمحے کی کوریج کرتا  میڈیا جسے  ہزاروں کے مجمعے کو لاکھوں اور لاکھوں کے مجمعے کو سینکڑوں کا دکھانے کا فن خوب آتا ہے ۔۔
میں یہ سب بڑے افسوس کے ساتھ دیکھتی رہی  اور کئی سالوں پہلے کی تصویر کا ایک دردناک منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے جب ایک سفید داڑھی والا قائد اسی ڈی چوک تک پہنچنے کی کوشش میں پولیس کی لاٹھیوں کا نشانہ بن رہا ہے جس کی دستار سر سے گری ہوئی ہے اور بغیر کسی بلٹ پروف گاڑی اور جیکٹ کے ایسے ہی سیکورٹی اہلکاروں کے درمیان کس عزم اور حوصلے سے اپنے کارکنوں کے ساتھ اپنی پیٹھ پر لاٹھیوں کے زخم کھاتا یہ قائد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔ بدنصیب قوم ۔۔۔۔۔ میں درد کی کیفیت میں اپنی نگاہیں اس تصو یر سے ہٹا لیتی ہوں کہ تاب نہیں اپنی بدنصیبیوں پر ماتم کرنے کی مگر صرف نظریں ہٹالینے سے تلخ حقیقتیں بدل تو نہیں جایا کرتیں۔۔۔۔ ایک اور تصویر ساتھ ہی نظر آتی ہے جس میں آنسو گیس کی شیلنگ کی وجہ سے بہتی ہوئی سرخ آنکھیں اس کی بہادری اور عزم کی داستاں سنا رہی ہیں۔۔۔

 

اس پاکستانی شہریت رکھنے والے محب وطن قائد کو  تو کسی نے اسٹیج لگانے کی اجازت نہیں دی اسکے کارکنوں کو تو کسی نے بستر فراہم نہیں کیے تھے بلکہ ان کے لیے تو جیلیں تھیں ، لاٹھیاں ، آنسو گیس کے شیل اور شہادتیں تھیں مگر پھر بھی انکے حوصلوں کو کوئی شکست نہ دے سکا۔۔۔

 

میں ہر گز موازنہ نہیں کر رہی کہ موازنہ ہو بھی نہیں سکتا ۔۔۔۔ بلٹ بروف کنٹینروں میں بد مست ہاتھیوں کی طرح جھومتے قائد اور اسکے مریدوں کا کیا مقابلہ ان سینہ سپروں سے کہ جنھوں نے گولیاں سینوں پر کھائیں۔۔۔
میں سوچ رہی تھی یہ کیسی قوم ہے جو آج ایک ایسے زمانے میں رہ رہی ہے جہاں بچے بھی ہر بات پر سو سوال کرتے ہیں یہ کیسے لوگ ہیں جو یہ نہیں کہتے کہ آپ لاش لینے آئے ہیں تو باہر آئیں نا ۔۔۔۔۔۔ گولی آپکو کیسے لگے گی بابا جی آپ تو جہاں بیٹھے ہیں وہاں بم نہیں اثر کر سکتا اور یہ کہ عورتیں اور بچے تو خون کو بھی جما دینے والی سردی میں باہر روڈ پر ہوں اور انکا امام اندر ہیٹر لگے کنٹینر میں گرم بستروں میں آرام فرما رہا  ہو ۔۔۔۔۔۔مگر کیاکیجیے کہ جی مرید ایسے ہی ہوتے ہیں ۔صم بکم۔۔۔۔۔ اپنی اولادوں تک کو بھینٹ چڑھا دینے والے۔۔۔

 

ایک صحافی بھائی کی کہی ہوئی بات جو سو فیصد سچ لگتی ہے کہ آپ کتنا بھی انکو وہ ویڈیوز دکھادیں جس میں یہ صاحب خود کو جھٹلاتے سجدہ کراتے یا نبی ص کو پاکستان آنے اور جانے کا ٹکٹ اور کھانے پینے کا انتظام کا دعوی کرتے نظر آئیں گے مگر آپ ان لوگوں کو نہیں سمجھا سکتے اور یہ کہ مجھے تو اب ان پر ترس آتا ہے۔۔۔

 

تب مجھے لگا کہ یہ تو شاہ دولہ کے وہ چوہے ہیں جن کے سروں میں دماغ نہیں انکی ڈور پکڑ جو چاہے جدھر گھما دے انکو انکار کرنے کی جرات ہے نہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بس انکی ڈور پکڑنے والے بدلتے رہتے ہیں جو کبھی کسی راہ پر لے جاتے ہیں کبھی کسی راہ پر مگر انکی تقدیریں نہیں بدل سکتیں۔۔۔ کیوں کہ تقدیریں بدلنے کے لیے اندھی تقلید نہیں بلکہ سوچ، سمجھ اور عقل شرط لازم ہیں۔

فیس بک تبصرے

شاہ دولہ کے چوہے“ پر 11 تبصرے

  1. اچھا لکھا ہے اس ڈرامہ باز کو ایکسپوز کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے،انصار عباسی ،طلعت حسین سمیت کیی انویسٹیگیٹو صحافیوں نے طاہر القادری پ شک کا اظہار کیا ہے

  2. عقل مندوں کے لئے ہے بے وقوف تو ویسے بھی کچھ نہیں سمجھتے۔اگر عقل ہوتی تو کیوں ایسا کر تے

  3. Deep insights…a very good analysis by quoting a simile…Took me back into my early days in Tehreek…

  4. معاملہ اتنا سادہ نہیں ،ایسا نہیں کہ یہ سب شاہ دولہ کے چوہے ہی ہوں،معاملے کا ایک پہلواوربھی ہے۔حضرت عیسی علیہ السلام کویہودیوں کی شکایت پر ان کے حاکم پیلاطس نےگرفتار کر لیا،تو وہ سب جانتے تھے کہ حضرت مسیح بے قصور ہیں۔یہی بات پیلاطس نے سردار کاہنوں اور سرداروں اور عام لوگوں کو جمع کر کے ان سے کہی کہ” تم اس شخص کو لوگوں کا بہکانے والا ٹھہرا کر میرے پاس لائے ہو اور دیکھو میں نے تمہارے سامنے ہی اس کی تحقیقا ت کی مگر جن باتوں کا الزام تم اس پر لگاتے ہو ان کی نسبت میں نے ا س میں کوئی قصورنہیں پایا اور دیکھو اس سے ایسا کوئی فعل سرزد نہیں ہوا جس سے وہ قتل کے لائق ٹھہرے”۔ تاہم ہر عید پر لازم تھا کہ حاکم ایک نہ ایک شخص کولوگوں کی خوشی کی خاطر چھوڑدے۔ وہ سب مل کر چلا اٹھے کہ اسے سولی پر لٹکااور ہماری خاطر برابا ڈاکو چھوڑ دے۔برابابغاوت کے باعث اور کئی سو لوگوں کوقتل کرنےکے سبب سے قید تھا اور اسے سزائے موت ہونے والی تھی۔ پیلاطس نے مسیح علیہ السلام کو چھوڑنے کے ارادے سے پھر ان سے کہا۔ لیکن وہ چلا کر کہنے لگے کہ اسے مصلوب کر اسےمصلوب کر۔ اس نے تیسری بار ان سے کہا کیوں؟ اس نے کیا برائی کی ہے؟ میں نے تو اس میں قتل کی کوئی وجہ نہیں پائی۔ مگر وہ چلا چلا کر کہتے رہے کہ مسیح کومصلوب کیا جائے اور ان کا چلانا کارگر ہوا۔ بالآخر پیلاطس نے حکم دیا :”عوام کی درخواست کے موافق ہو۔ برابا کو چھوڑ دیا گیاپیلاطس نےمجبور ہو کر یسوع کو ان کی مرضی کے مطابق سپاہیوں کے حوالے کیا۔ “
    کیا آج بھی وہی منظر سامنے نہیں کہ جب ایک سفید داڑھی والا قائد اسی ڈی چوک تک پہنچنے کی کوشش میں پولیس کی لاٹھیوں کا نشانہ بنتا ہے ۔اس کی دستار سر سے گری ہوئی ہے،وہ بغیر کسی بلٹ پروف گاڑی اور جیکٹ کے عزم اور حوصلے سے اپنے کارکنوں کے ساتھ اپنی پیٹھ پر لاٹھیوں کے زخم کھاتا ہے، آنسو گیس کی شیلنگ کی وجہ سے اس کی بہتی ہوئی سرخ آنکھیں اس کی بہادری اور عزم کی داستاں سنا تی ہیں۔۔۔مگر قوم اس کو نہیں پہچانتی اور برابا ڈاکو کو سینے سے لگا لیتی ہے۔

  5. بہترین اور درست لکھا ہے۔

  6. fake, tmhary men itni sense honi chahea k tm sahi ko such keh sko , tahirulqadri bilkul thsb kuch cheen lia hy
    ek kr rhy hain is haquumat ny hm sy

  7. بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ پڑھتے ہوئے میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے جتنی خوبصورتی سے آپ نے دولے شاہ کے چوہوں اور طاہرالقادری اور اُسے کے مُریدوں کے درمیان جو تصویر کشی کی ہے ، یقینا عمدہ ہے۔

    میں نے کل ٹویٹر پر یہ لکھا کہ اگر پاکستان کی عوام کو اسلام کی تھوڑی بہت بھی سمجھ ہوتی، تو طاہرالقادری اس وقت کینیڈا میں ہی رہ رہا ہوتا۔ اور طاہرالقادری ہی کیوں، اُس جیسے تمام حضرات جو مذہب کو اپنے غلیظ مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، کب کے یہاں سے کہیں اور ہجرت کر چُکے ہوتے۔ جس طرح سے طاہرالقادری قرآن، احادیث، واقعہ کربلا کو استعمال کر کے لوگوں کے جذبات کو استعمال کر رہا ہے، اگر اس کے مریدوں کو تھوڑی بہت بھی اسلام کی سمجھ ہوتی تو شیخ الاسلام کو اب تک کافی جوتے پڑ چُکے ہوتے۔

    ہماری تباہی اور بربادی کا ذمہ دار نہ امریکا ہے، نہ اسرائیل، نہ ہی یورپ اور انڈیا ہیں، بلکہ ہم اپنی تباہی کے خود ذمہ دار ہیں۔ ہمارا قصور اپنے مذہب سے دوری ہے۔ ہم اللہ کی بجائے داتا صاحب، دولےشاہ صاحب اور ان جیسے دوسرے اولیاء پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر اللہ پر یقین ہوتا، تو ہمارے حالات بالکل مختلف ہوتے۔

    اللہ ہمارے حالات پر رحم فرمائے اور ہمیں سیدھی راہ دکھائے۔ آمین۔ انشاءاللہ!

    طاہر اقبال
    @tahiriqbal

  8. بہت عمدہ

  9. سی آئ اے کا پالتو ہے یہ بے حس بندر – خود تو بم پروف کنٹینر میں ائر کنڈیشننگ کے مزے لوٹ رہا تھا اور بے غیرت کافی کے گھونٹ بھر کر عقل کے اندھے جاہلوں سے انگریزی میں خطاب کر رہا تھا – پاگلوں کو بھی صاف سمجھ آ رہی تھی کہ انگریزی کن کے لیے بولی جا رہی تھی –

    • سمجھ سمجھ کر سمجھنا بھی سمجھ ایک سمجھ ہے سمجھ سمجھ کر جو نہ سمجھے میری سمجھ میں وہ نا سمجھ ہے

Leave a Reply