سرائیکی صوبے کی قوالی پر مدہوش عوام کے نام۔۔۔

میرا تعلق بہاولپور سے ہے۔۔۔

میں بہاولپوری، پھر سرائیکی، پھر پنجابی، پھر پاکستانی، پھر مسلمان اور سب سے بڑھ کر انسان ہوں۔۔۔

مجھے ترتیب اور تفریق کا فرق سمجھ میں آتا ہے اور میں برملا کہتا ہوں، کہ جس طرح اسلام کے رشتے کے تقدس میں وطن حائل ہونے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ملک کے تقدس کا سوال ہو، اس کے مفاد کو ذک پہنچ رہی ہو تو صوبے یا شہر اور علاقہ کی پہچان کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ زبان کی پہچان زبان کے مقابل دکھائ جاتی ہے۔

 

صوبوں کی تقسیم کی بندر بانٹ میں بہاولپوریوں کو یا سرائیکیوں کو اتنی ہی روٹی ملے گی جتنی بلیوں کے حصے میں آئے تھے۔۔۔ یہ سیاسی بندر اپنے ترازو میں عوام کا حصہ کبھی نہیں رکھتے۔ ایسی سادہ لوح عوام کہ ایک پارٹی انہیں سرائیکی صوبے کی قوالی پر مدہوش کر رہی ہے اور دوسری پارٹی بحالی صوبہ بہاولپور کے نام پر مزاحمتی کھیل رچا رہی ہے۔ مقصد صرف متوقع الیکشن سے پہلے سیاست کی رادھا کو نچا کر تماش بین عوام سے ووٹوں کی بارش کروانا ہے۔۔۔ میں خود سرائیکی ہوں، مگر اپنے بھائیوں کو بتاتا چلوں، کہ صوبہ بنانے سے اگر حقوق کی جنگ جیتی جا سکتی ہے تو پہلے ذرا بلوچستان کے حقوق کا مطالعہ کیجئے جو ابھی تک صوبہ ہونے کے باوجود حقوق کا رونا رونا رو رہا ہے۔۔۔

 

میں انتظامی امور کی بنیاد پر بنائے جانے والے صوبوں کا حامی ہوں، اور ذیادہ سے ذیادہ صوبے بنائے جانے کے حق میں ہوں۔ مگر زبان، رنگ علاقے کے نام پر تعصب اور نفرت قوموں کے حصوں میں آتا ہے۔ صوبوں کے حقوق اور ان کا تحفظ نہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ کل میں اپنے بچوں کو بتاؤں کہ ہم نے زبان کی بنیاد پر پنجاب کے دو ٹکڑے کئے تھے، اور اسی لئے ہمارا نام بہاولپور جنوبی پنجاب ہے۔۔۔آدھا تیتر آدھا بٹیر۔۔۔ اور ہمارے سوئے ہوئے جاہل حکمران اس وقت بہاولپور کو ‘ بی جے پی ‘ کا نام دے رہے تھے، جب خود بھارت ” بی جے پی’ پر پابندی لگانے کا سوچ رہا تھا۔۔۔ نیت سیاست نہ ہو، تو صوبہ نہیں صوبے ہمارے ملک کے عظیم تر مفاد میں ہوں گے، مگر صاحبانِ سیاست کو ملک نہیں، اپنا ذاتی اور جماعتی مفاد عزیز ہے۔۔۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ اس سیاست کی کالی دیوی کے مزار پر، ہمارے جمہوری ناخدا ملک کی جغرافیائی سرحدوں اور نظریاتی بنیادوں کی چتا جلاتے آئے ہیں۔۔۔ اس لئے کم سے کم عوام کو بے سمجھی سے باز رہ کر ذات کی بجائے ملک کے مفاد کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔۔۔ ایک نکتے کی بات بتا دیتا ہوں، کہ اس قرارداد کے حق میں بولنے والا ہر شخص آپ کو سرائیکیوں، بہاولپوریوں، سیاسی جماعتوں کے حق میں سود مند فیصلے کی نوید سناتا نظر آئے گا۔۔۔ مگر اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا۔۔۔ اس سے پوچھنا۔۔۔ پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا اس سے؟؟؟ اور اگر اس کے پاس کوئی جواب نہ ہو، تو سلام بھیج کر چل دیجئے گا، کیونکہ وہ اگلے سوال میں پوچھے گا، کہ اس سے پاکستان کو نقصان کیا ہے؟؟؟ اور یہ سوال خود اس امر کی نشاندہی ہے کہ اس کا فائدہ کم سے کم پاکستان کا فائدہ نہیں ہے۔۔۔

فیس بک تبصرے

سرائیکی صوبے کی قوالی پر مدہوش عوام کے نام۔۔۔“ پر 7 تبصرے

  1. آپ مسٹر عبدالباسط سائم ————— کا مشورہ نہیں دیں مہربانی ھو گی آپکی ۔
    سعید احمد

    • سعید احمد صاحب،
      کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ کا تبصرہ شائستگی کی حدود میں رہتا۔
      آپ نے میں جو بات انتہائی سخت الفاظ میں کی ہے وہ اشتعال میں آئے بغیر نرم الفاظ میں بھی کی جاسکتی تھی اور کم از کم مجھے یقین ہے کہ وہ اپنا وزن رکھتی۔
      امید ہے اس چیز کا خیال رکھیں گے اور اختلافات کو دشمنی سمجھنے کی غلطی نہیں کریں گے۔

      • ” نیت سیاست نہ ہو، تو صوبہ نہیں صوبے ہمارے ملک کے عظیم تر مفاد میں ہوں گے، مگر صاحبانِ سیاست کو ملک نہیں، اپنا ذاتی اور جماعتی مفاد عزیز ہے”……..
        میرے خیال میں صوبے بنانے سے تو کسی کو اختلاف نہیں ہے ، جیسا کہ اوپر والی سطر میں سائم نے بھی لکھا ہے ، اور سعید صاحب بھی یہی کہہ رہے ہیں۔۔ مگر اس کی ترتیب سے شاید اختلاف ہے لوگوں میں۔۔ اس بحث میں اس طرح تہذیب کا دامن چھوڑنا، لکھاری فورم کے لئے مناسب نہیں۔۔۔

  2. صوبائی اور لسانی تعصب ایک ایسی حقیقت ہے. جس سے آنکھیں بند کرنے سے کچھ ہو یا نا ہو ، آپ اپنے ہی لوگوں میں ہنسی کا سامان بن جاتے ہیں.

    • میں آپ سے متفق ہوں، جواد صاحب۔۔۔۔
      لیکن اپنی رائے کو افراد کی عقلی سطح اور سطحی عقل سے گزار کر ہی انسان علم کی تلاش مکمل کر پاتا ہے۔۔۔۔ گھر کے مسئلوں میں تو تو میں میں ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ ہمارا گھر سلامت رہے بس۔۔۔ ہنسی کا سامان تو دنیا ویسے بھی ہے ، ایسے بھی سہی۔۔۔۔۔۔شکریہ

  3. اوریا مقبول جان کا نظریہ

    جمہوری نظام میں ایک نمایاں جزو’’وطن‘‘کا تصور ہے جو کہ تاریخی ،جغرافیائی،نسلی،قومی یا ثقافتی(Culture)وغیرہ کی بنیادوں پر وجود میں آتے ہیں۔اور جب ان بنیادوں پریہ وطن وجود میں آتے ہیں تو پھراز خود’’خود مختاری‘‘ کا تصور بھی جنم لیتا ہے کہ ہر ملک آزاد ہے اور وہ اپنے معاملات طے کرنے میں خود مختار ہے۔یوں’’نیشن اسٹیٹ‘‘(Nation State)کا تصور سامنے آتاہے ۔لیکن اسلام ان تمام تصورات کی نفی کر تا ہے جو قومی،نسلی اور تعصب کی بنیاد پر ہوں۔اسلام پوری دنیا کے مسلمانوں کوایک جسم کی مانندجوڑتاہے اور انہیں ایک امت قرار دیتا ہے ۔

    ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾
    ’’تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی بھلائی )کے لئے نکالا گیا ہے‘‘۔
    (سورة ال عمران:۱۱۰)

    یہی وہ’’وطن‘‘کاشرکیہ تصور ہے جس نے آج پوری امت ِ مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قومی، نسلی ،لسانی اور جغرافیائی لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔علامہ اقبال اسی تصور کی نفی کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ:

    ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
    جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے

    اس کے برعکس بقول علامہ اقبال، اسلام کا تصوریہ ہے کہ:
    اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے

  4. بہاول پور اور سرائیکی صوبے کو باہم ملا کر ایک ہی معاملے کے طور پردیکھنا تاریخی طور پر ٹھیک نہیں کیوں نہ صرف یہ دو مختلف معاملات ہیں بلکہ ہر حوالے سے الگ تاریخ کے حامل بھی ہیں۔بہاول پور جو پاکستان کی انتظامی تاریخ میں ایک باقاعدہ صوبہ تھا، جس کی اسمبلی کا انتخاب ہوا،وزیراعلیٰ اور سپیکر ڈپٹی سپیکر اور اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے، اسمبلی کی کارروائی تقریباً تین سال تک جاری رہی، اس کو ملتان اور دوسرے سرائیکی بولنے والے علاقوں کے برابر کا درجہ دینا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ تاریخی طور پر انحراف بھی ہے۔جب مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو ہمیشہ سے”مرکزیت” کے نام روٹی کھانے والے مرکزیت پسندوں نے وفاق پاکستان کی قربان گاہ پر تمام صوبوں کو ذبح کرنے کا منصوبہ بنایا تو نومولود صوبہ بہاول پور کو بھی “ون یونٹ” کے تحت مدغم کردیا گیا اور دیگر صوبوں کی طرح بہاول پور کے عوام کو بھی یہی کہا گیا کہ ون یونٹ کے خاتمے پر آپ کو اپنا صوبہ واپس مل جائے گا۔جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا تو بہاول پور کو اس کی صوبائی حیثیت سے محروم کرکے دوبارہ پنجاب کا حصہ بنادیا گیا۔جس کے بعد بہاول پور میں صوبہ بحالی کی تحریک چلی اور ریاستی تشدد کے مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔
    ہم چوں کہ مطالعہ کی عدم موجودگی میں خوش رہنے پر اصرار کرتے ہیں اور یوں تاریخی حقائق اور معلومات سے تہی دامن چلے آتے ہیں اس لیے بہت جلد جذباتی نعروں اور فضولیات کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ یہی کچھ بہاول پور کے ساتھ بھی ہوا ہے اور اگر دئکھا جائے تو تقریباً اس سے ملتی جلتی کہانی بلوچستان کی بھی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ بہاول پور کے عوام کے ساتھ وعدہ پورا نہیں کیا گیا اور بلوچستان کے عوام کو زبردستی ہم نے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔
    اگر کسی ریاست میں وعدہ نام کی کوئی چیز اپنا وجود رکھتی ہے تو بہاول پور کے عوام کے ساتھ سرکاری طور پر کیا گیا وعدہ نبھایا جائے۔بلوچستان کے عوام کو باور کرایا جائے کہ اُن کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا کیوں کہ ہم تاریخی طور پر ایسی حرکتیں کرکے مشرقی پاکستان میں اپنا منہ خود ہی نوچ چکے ہیں اور آج قومی سطح پر “سقوط ڈھاکہ” کے نام پر سالانہ سینہ کوبی کا اہتمام کرتے ہیں۔
    ہم مستقبل کی متوقع “سالانہ سینہ کوبیوں” سے محفوظ رہ سکتے ہیں اگر پاکستان کے تمام صوبوں کو پاکستان کے قانون میں طے شدہ حقوق دینے پر رضامند ہوجایئں۔
    خیر اندیش
    خامہ بگوش مدظلہ

Leave a Reply