وفائے وطن جرم ہے جن کا

کچھ لوگ اپنی منزل سے چونٹیوں کی طرح یکسواور اپنے عزم میں چٹانوں کی طرح سخت ہوتے ہیں انسانی رویوں اور نفسیات پر لکھنے والے انہیں جذباتی اور جنونی کا نام دے سکتے ہیں کیوں کہ وہ زندگی تو دے سکتے ہیں لیکن ہوا کی روش پر اڑنے سے انکار کر دیتے ہیں ان کے عزائم میں پانی میں بہہ جانا ضمیر کو پانی میں گھول دینے کے مترادف ہوتا ہے نتائج کی فکر سے غافل حالات کا سینہ چیرنے کا عزم رکھنے والوں کو، دنیا جو پکارے بہرحال بہادر اور جری لوگ انہی اوصاف کے حامل ہوتے ہیں۔

 

آج ١٦ دسمبر ہے سقوط ڈھاکہ کا دن جس دن ایسے ہی سر پھرے سر فروشوں نے حالات سے مصلحت کرنے سے انکار کر دیا محدود خیالوں اور چھوٹے چھوٹے خوابوں کی خاطر بغاوت کے بجائے پاکستان سے وفاداری کو ترجیح دی اور شیخ مجیب الرحمٰن کے فریب میں آنے سے انکار کر دیا لیکن آج ان کا کوئی نام لیوا نہیں یہ اجنبی افراد کوئی چند سو اورچند ہزار لوگوں کا گروہ نہیں تھا لاکھوں ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں ، بچوں ، جوانوں اور بزرگوں پر مشتمل طبقہ تھا جنہوں نے اپنے جسموں کو تو پیش کر دیا پر پاکستان سے وفائے عہد نہیں ٹوٹنے دیا ، سلیم منصور خالد کی کتاب “البدر ” میں ایسے ہی اک بنگالی پاکستانی جیالے کے الفاظ سنئے:

“اگر تم البدر کے شہیدوں کے بارے جاننا چاہتے ہو تو یہ بتانے کی مجھ میں سکت نہیں —– میں جب اس ظلم و استبداد کے بارے میں سوچتا ہوں جس کا وہ نشانہ بنائے گئے تو میرا دل چھلنی ہو جاتا ہے اور روح لرز جاتی ہے میں اس موضوع سے انصاف نہ کر سکوں گا اس لیے تم ریس کورس گراونڈ اور ڈھاکہ یونیورسٹی کی خاموش دیواروں سے پوچھو ، ان کی بے زبانی اس داستان رنج و الم کو بہتر انداز میں بیان کر سکے گی —- مگر دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہم اس المیے کا اظہار بھی نہیں کر سکتے قوم ان قربانیوں کی متعرف نہیں اور امت مسلمہ اس کی قدر نہیں پہچانتی ، ہم گھر (بنگلہ دیش ) میں اجنبی ہیں اور پاکستان کے لیے غیر ملکی۔۔۔”

 

نہ مدعی ، نہ شہادت ، حساب پاک ہوا
یہ خون “پاک نشیناں ” تھا ، رزق خاک ہوا

 
لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں تھما نہیں ، آج بھی بنگلہ دیش کی بدنام زمانہ عدالتیں ان کے لیے موت کے جھولے گانٹھ رہی ہیں، ہزاروں افراد ایک بار پھر نفرت کی بھینٹ چڑھنے کے لیے دھر لیے گئے ہیں یہ ملک غلام علی ہے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا سابق امیر ،٨١ سال کا بوڑھا جوان ، بنگلہ دیش کو بنے اکتالیس سال ہو گئے لیکن یہ بوڑھا جوبغیر سہارے کے کھڑا نہیں ہو سکتا اس کا وفاۓ عہد پوری توانائی کےساتھ قائم ہے اس بوڑھے کی ٹیم نے بنگلہ دیش کی خدمت کے لیے اپنے دست و بازوبھی پیش کیے ہیں اور بنگلہ دیش کی تاریخ کے مثالی وزراء کا اعزاز حاصل کیا لیکن پھر بھی پھانسی کے حق دار ٹھہرے ہیں کیوں کہ انکا جرم پاکستان سے محبت ہےایک ایسا جرم کہ جو حسینہ واجد کے لیے قابل معافی بھی نہیں ہے۔

 
وقت کے مفاد پرستوں کے لیے تو یہ جرم تھا ہی اور آج بھی ہے لیکن اپنے بھی منہ موڑ کر لاوارث کر گئے اور تو اور اپنی بستی کے لوگ بھی اس جراتمندی اورسر فروشی کو ” احمقانہ غلطی ” قرار دیتے ہیں- ٹھہرئیے میرے ساتھ ١٩٧١ کے بغاوت کے دنوں میں ڈھاکہ چلیے میں آپ کی ملاقات اس قبیل کے ہزاروں لوگوں سے کرواتا ہوں یہ وہ لوگ نہیں تھے جو مکتی باہنی کے خلاف صف آراء ہوئے ، یہ وہ لوگ بھی نہیں تھے جنہوں نے کنٹونمنٹ میں مبحوس پاکستانی فوجیوں کو کھانے پینے کی اشیاء مہیا کیں، جی ہاں یہ وہ لوگ بھی نہیں تھے جنہوں نے پاکستان سے آزادی حاصل کرنے والوں سے نفرت کا اظہار کیا لیکن ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے اکثریت کا فیصلہ قبول کر کے اپنے دل کو جسم سے باہر نہیں نکال پھینکا وہ دیکھو ڈھاکہ جیل کا جیلر نرمل رائے انہی کے بارے کہہ رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حیثت کے نہیں اس لیے ان ١٤ ہزار سے زائد ” بنگلہ دیش بننےکے باغیوں ” کو ١٩٦٦ کی گنجائش رکھنے والی جیل میں جانوروں کی طرح ٹھونس دیا جائے، لاٹھیوں ، لعن طن اور گالم گلوچ سے خوش آمدید کہا جائے اور شدید محنت کی چکی میں جڑ دیا جائے ، جیل کا عملہ ان کی جیبوں صاف کرنا اپنا حق سمجھتا ہے بیماری کی صورت بیگار لی جاتی ہے۔ یہ اسی جیل کا ڈاکٹر صمد ہے یہ ادویہ کی بجائے گالیوں سے علاج کرتا ہے اوراکثر پرسکرپشن پر صرف یہی لکھ دیتا ہے کہ ” تو ، تو موت کا ہی حق دار ہے ” اسی پرسکرپشن پروہ بیسیوں کو موت کی گھاٹ اتار چکا ہے، یہ ہیں مشرقی پاکستان کے سابق گورنر ڈاکٹرعبد المالک ٧٠ سال سے زائد عمر انہیں ہرنیا کےلیے آپریشن کے جیل سے دوسرے ہسپتال نہیں بھیجا گیا یہ دیکھیں ڈھاکہ کا میدان ہے یہاں ایسے ہی لوگوں کی پریڈ لگی ہے چھاپہ مار رہنما آتے ہیں اپنی مرضی ، پسند اور پہچان کے افراد کو منتخب کر کے لے جاتے ہیں اور جرمن نازیوں کی سفاکیت دوہراتے نظر آتے ہیں بغیر کسی قانونی جواز اور کروائی کے یہ لوگ انتقام کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں صرف اس لیے کہ یہ اکثریت میں ہیں اور طاقت میں ہیں ، اسی طاقت اور اکثریت کی بنا اپنے استحصال کا بدلہ ان کے خون سے لیا جا رہا ہے یہی وہ افراد ہیں جن کے لیے ریڈ کراس چیختا ہے کہ اگر بروقت مدد نہ ملی تو اذیتی کیمپوں کے ان ” پاکستان سے محبت کرنے والے ” ” بہاری ” موت کے گھاٹ اپنی زندگی ہار جایئں گےاور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ان اذیتی کیمپوں سے ہزاروں لاشیں نکلیں لیکن دنیا نہ دیکھ پائی کیوں کہ عوامی لیگ کی نفرت اور ظلم میں دبا دی گئیں، اگرتلہ کی گلیوں میں ہزاروں باریش مسلمانوں کو محض اس الزام پر کالی دیوی کے قدموں میں ذبح کر دیا گیا کہ وہ دو قومی نظریہ کی حمایت کر کے پاکستان سے محبت کا رویہ رکھتے ہیں – اگر موت کا گھونٹ ہی پینا ہے اور اکثریت کے فیصلے پر اپنا دل جسم سے چیر نہیں ڈالنا تو پھر البدر اور الشمس بن کر جرات اور بہادری کی تاریخ رقم کرنا کونسی ” احمقانہ غلطی ” ہے؟

 
آج یہ سلسلہ رکا نہیں تھما نہیں بنگلہ دیش کی جیلیں ہوں یا پاکستان کی “عقل و خرد ” یا بنگلہ دیش کی فریب زدہ قوم ان وفا شعار اور وطن پرستوں کے لیے کوئی رحم اور حمایت نہیں لیکن صرف آنسوؤں والی دعائیں انکے ساتھ ہیں سچ تو یہ ہے کہ جب دنیا ساتھ چھوڑ جائے تو آنسو ہی ہوتے ہیں جو ساتھ دیتے ہیں ، ہمت بندھاتے ہیں اورخود تو آنکھ سے تو گر جاتے ہیں لیکن آنکھ کو وقت کے جبر کے سامنے نہیں گرنے دیتے- دنیا والوں تمہاری نگاہوں کے حصار میں دھوکہ ہے ، تمہاری عقل کے غبار میں دھوکہ ہے تمہاری منطق کے گرداب میں دھوکہ ہے یہ وطن پاکستان ان جیسے سر پھروں کی قربانیوں سے روشن رہے گا اور یہ زمین ان کے لہو سے تر رہے گئی چاہے تم ڈھاکہ کے میدان میں ہتھیار گرا دو یا ذوالفقار بھٹو بن کر شکست کی تحریر پر دستخط کر دو۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply