سوچ رہا ہوں۔۔۔ اپنوں کا ہے۔۔۔ کتنا سستا خون؟؟؟

سفاکیت ، غرور اور درندگی انسانیت کے ہر احساس سے عاری ہوتے ہیں۔یہ تو وہ خودساختہ دلیلیں ہیں اور کسی کی تنقید و مذمت ان پہ کچھ اثر نہیں رکھتی۔ورنہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو بہت پہلے امریکہ بہادر اپنا قبلہ درست کر لیتا۔بھارت کشمیر پہ اپنا غاصبانہ تسلط ختم کر چکا ہوتا اور اسرائیل یہ جان لیتا کہ انسانی جسموں کے گلے کاٹ کر ان میں پیٹرول ڈال کر اس کو بارود سے اڑادینے سے نہ کوئی علاقہ فتح ہوتا ہے اور نہ کوئی قوم،ریاست عزت پاتی ہے۔

 

اس وقت تک غزہ میں ۱۰۳ سے زیادہ شہادتیں ہو چکی ہیں جن میں اکژیت بچوں کی ہے۔۔۔۔۱۸ گھنٹوں سے زیادہ دیر یہ شہر تاریکی میں ہی رہتا ہے،اسرائیلی فوج فلسطینوں پہ آگ برسا رہی ہے۔ چن چن کرگنجان آبادیوں اوراسپتالوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،پورے پورے خاندان ختم ہو چکے ہیں۔۔۔غذا کی شدید قلت ہے۔

 

یہ مختلف تصویریں اس وقت نظروں کے سامنے ہیں،نگاہیں ان منظروں کو دیکھ نہیں پا رہے اور دل انہیں محسوس کرنے پہ مجبور ہیں
پہلی تصویر۔۔۔۔۔۔۔۔ایک باپ کے ہاتھوں میں اس کے ۱۱ ماہ کے بیٹے کی نعش ہے،باپ اس نعش کے ساتھ ہلکان ہوئے جارہا ہے۔۔۔۔۔۔یقینا” یہ وہی بیٹا ہے جس کی ایک مسکان اس باپ کے دن بھر کی تھکان اتار دیا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔

 

دوسری تصویر۔۔۔۔۔غزہ کی گلیوں میں سے زخمیوں کو اٹھا کر اسپتال پہنچانے والے رضاکارکی ہمت ہر ہر زخمی کو دیکھ کر ٹوٹتی چلی جارہی تھی مگر اچانک ایک جانے پہچانے چہرے نے اس کو غم سے نڈھال کردیا۔۔۔اس کے اپنے سگے بھائی کا چہرہ۔۔۔زخموں سے چور،خون میں لہو لہان چہرہ جو شہادت کا پتہ دے رہا ہے۔۔۔۔۔۔

 

تیسری تصویر۔۔۔۔۔۔۔ایک تصویر کو درمیان سے آدھا کر کے اس میں دو تصویریں دکھائی گئی ہیں۔۔۔۔دائیں جانب ایک لاثانی مسکراہٹ رکھنے والی بچی جس کے چہرے پہ اتنا نور ہو کہ جیسے جنت کی حور۔۔۔۔اور بائیں جانب ایک کالا جلا ہوا راکھ شدہ انسانی پتلا جس کے بارے میں اسپتال انتظامیہ کا کہنا کے کہ یہ وہی بچی ہے جو چند منٹ پہلے جنت کی حور سے متشابہہ تھی۔۔۔۔۔

 

چوتھی تصویر۔۔۔۔۔۔۔ایک ماں کے سامنے اس کا۱۲ سالہ بیٹا خون میں لت پت پڑا ہے،اور ماں اس پہ جھکے چلے جارہی ہے کہ کسی طرح وہ اپنے جگر گوشے کو واپس لے آئے یا اسکی اذیت،و تکلیف کا کسی طرح ازالہ کر سکے۔۔۔۔۔ ماں جو اپنے بچے کو ہلکی سی خراش لگنے پر خود تکلیف محسوس کرتی ہے …. فلسطین کی اس ماں کے احساسات کیا ہونگے جس کی گود میں اسکا بچہ دم توڑ رہا ہو؟۔۔۔۔۔۔۔

 

پانچویں تصویر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک کمسن بچی۔۔۔۔قمیض اسکی خون میں بھیگی ہوئی مگر چہرے پہ مسکراہٹ ہے اور اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے جیت”وکٹری” کا نشان بناتے ہوئے بتا رہی ہے کہ ابھی اہلِ فلسطیں قبلہ اول کی آزادی کی خاطر گردنیں کٹانے کی رسم ادا کرنے کا طریقہ نہیں بھولے ہیں۔۔۔۔
اور آخری تصویر اس “دہشت گرد” کی ہے جس کو بطنِ مادر میں ہی نشانہ بنا لیا گیا۔۔۔۔
اس کے علاوہ سینکڑوں مزید تصویریں بھی موجود ہیں جن کو دیکھ کر فرعون کی یاد آجائے اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

 

یہ تمام مناظر دیکھنے کے باوجود مبلغِ انسانیت اور نام نہاد عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے ساتھ ساتھ امتِ مسلمہ کے “سربراہان سمیت عظیم قائدین”کو بھی اس وقت ایک چپ سی لگی رہی اور عوام کے سوشل میڈیا پہ بھرپور احتجاج کے بعد انہوں نے محض خانہ پوری کے لئے اس حادثہ کی “ڈرتے ڈرتے” مذمت کی،کہ کہیں ببانگِ دہل کہنے پہ ان کے آقا کے ماتھے پہ شکن نہ آجائے۔

 

اس موقع پہ پاکستان کا “غیور”و “باغیرت” میڈیا اپنے روحانی باپ “بال ٹھاکرے ” کی آخری رسومات اور نئی بھارتی فلموں کے نمائشی اشتہارات کی تشہیر کرتا رہا۔اور کوئی خبر دور اس پار سے آتی بھی تو وہ اس انداز میں کہ غزہ کے بمباری میں شہید ھو جانے والوں کو ھلاک کہ رہا ہے ، یہ اک اسلامی ملک میں اک غدار عظیم اپنے مسلمان بھائیوں بےگناہ معصوموں کو شیہد کا درجہ دینے سے بھی ڈرتے ھیں کہ امریکہ اور اسرائیل ناراض نہ ہو جائیں اور ان کو ملنے والے فنڈز بند نہ ہوجائیں۔

 

آج چند “منچلے،جذباتی نوجوان” اس بات کا تقاضہ کرتے نظر آرہی ہیں کہ پاکستان حکومتی سطح سے اس واقعے کی نہ صرف پرزور مذمت کرے بلکہ اپنی افواج کے ذریعے فلسطین کے ان بےکس مسلمانوں کی مدد بھی کرےکہ جن پہ زندگی کو اس وقت تنگ کردیا گیا ہے،مگر وہ سرپھرے شاید یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ہم تووہ “روشن خیال” “اعتدال پسند” پاکستانی ہیں کہ جو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں خود صفِ اول میں شامل ہیں۔۔۔۔۔

 

ہم نےآج سے کئی سال پہلے “سب سے پہلے پاکستان”کا نعرہ لگایا تھا،اور تب سے اب تک ہمیں ہوش ہی نہ رہا کہ وہ پاکستان گیا کہاں کہ جو سب سے پہلے تھا۔۔۔

 

ہمارے شہروں میں خون پانی سے زیادہ سستا ہوگیا،اس ایٹم بم کی قوت رکھنے والے ملک کے سب سے بڑے اور اہم شہر میں روزانہ ۱۰ سے زائد افراد کو بےدردی سے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مار دیا جاتا ہے۔

ہم ہی وہ لوگ ہیں جو غیروں کی جنگ کو اپنے گھر میں سمیٹ کر اور گھسیٹ کر لائے ہیں اور اس وقت ہم خود اپنے گھروں میں غیر محفوظ ہیں،ہم خود اپنوں کے لاشے اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔۔۔۔۔اے اہلِ فلسطین۔۔۔۔۔تم تو بہت خوش نصیب ہو کہ تمہیں اس بات کا یقیں ہے کہ تم جان دیتے ہی جنت میں جاوَ گے،ہمارا مقتول تو یہ تک نہیں جانتا کہ وہ “ہلاک” ہوا ہے یا “شہید”۔۔۔۔۔۔

 

اس لئے اے اہل ِ فلسطیں تمہاری پکار کوئی نہیں سن رہا اے فلسطین والو تمہیں خود ہی اپنی جنگ لڑنی ہے, اگر کوئی سن رہا ہوتا تو کب کا تمہاری مدد کو پہنچ چکا ہوتا اور تمہیں آزادی دلا چکا ہوتا یہ جنگ تمہاری ہے اور صرف تم ہی لڑو گے ، سارے اسلامی حکمران شراب و کباب میں مست ہیں ہر کوئی اپنی کرسی بچانے کے چکر میں ہے کوئی بھی امریکی حکمران کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔یہ حکمران تو کرسی اور ڈالر کی خاطر اپنی ماں اور بہن تک بیچ دیتے ہیں ان سے توقع مت رکھو ، صرف اللہ ہی تمہارا مدد گار ہے۔

 

مولانا ابوالکلام کی ایک تقریرکے چند جملے یہاں دہراتی چلوں، جو آج غزہ کی پکار بن چکی ہے۔ ۔
“اے عزیزانِ ملت، اور اے بقیہ زدگانِ قافلہء اسلام، اگر یہ سچ ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میں پیروانِ اسلام کے سروں پر تلوار چمک رہی ہو، تو تعجب ہے اگر اس کا زخم ہم اپنے دلوں پر نہ دیکھیں۔ ۔ ۔ ۔

 

اگر اس آسمان کے نیچے کہیں بھی ایک مسلم پیروِ توحید کی لاش تڑپ رہی ہے، تو لعنت ہے ان سات کروڑ (دورِ حاضر کی ڈیڑھ ارب)زندگیوں پر، جن کے دلوں میں اس کی تڑپ نہ ہو۔ ۔ ۔
اگر مراکش میں ایک حامئ وطن کے حلقِ بریدہ سے خون کا فوارہ چھوٹ رہا ہے، تو ہم کو کیا ہو گیا ہے کہ ہمارے منہ سے دل اور جگر کے ٹکڑے نہیں گرتے۔ ۔ ۔ ۔
آج وہ دن آ گیا ہے جب مسلمانوں کے دل ان کے پہلووں کی جگہ ان کے چہروں پر آ جائیں گے، جب کہ یا تو دلوں کی سیاہی سے ان کی پیشانیاں بھی تاریک ہو جائیں، یا دل کے ایمان کی روشنی سے ان کی پیشانی چمکنے لگے ۔ ۔”

 

اے ربِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم امتِ محمدیہ پہ اب رحم فرمادیں۔۔۔۔۔یاربّی پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کا خون ہی کیوں ارزاں ہے۔۔۔ ہم کب تک اپنے آپ کو مظلوم و مجبور ہی سمجھتے رہینگے؟بوسنیا،کوسوو،کشمیر،عراق،افغانستان،برما،شام،ایک کے بعد ایک مسلمان مملکت کو ہم دشمن کے نرغے میں دیتے چلے جا رہیں ہیں۔۔۔

 

اے مسلمانوں خدارا ہوش کے ناخن لو۔۔۔۔اب تو متحد ہوجاوَ،ورنہ کفار ہونہی ٹکڑے ٹکڑے کر کےسب کو ختم کر دےگا۔
انٹرنیٹ کے مجاہدو! صرف باتیں کرو گے یا عملی طور پر بھی کچھ کرو گے۔ امت مسلمہ غیرمحسوس انداز میں اسرائیلی فوج کی مدد کررہی ہے۔ یہودی کمپنیوں کی پراڈکٹس کے بائیکاٹ کا اہتمام کرو اور اسرائیل کو کمزور کردو۔۔۔
کیا فائدہ امتِ محمدیہ کے ان غیور نوجوانوں کی جوانیوں کا،جو امت کی بہنوں کی عصمت و آبرو کی حفاظت نہ کر سکیں۔۔۔۔
کیا فائدہ ان عظیم الشان فوجوں کا جو بے بس،مجبور و نہتے مسلمانوں کا دفاع نہ کر سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اور کیا فائدہ ہماری زندگیوں کا اگر ہم اسے اسلام کی عظمت و حرمت اور قبلہ اول کویہودیوں کے تسلط سے نکالنے کی خاطر قربان نہ کر سکیں۔۔۔۔۔۔
جنہوں نے گلشن کے پھول مسلے
حسیں چمن کی ہیں گلیاں روندیں
وہ ہاتھ پاوْں ہی کاٹ ڈالو
یہ فرض اپنا بھلا نہ دینا

فیس بک تبصرے

سوچ رہا ہوں۔۔۔ اپنوں کا ہے۔۔۔ کتنا سستا خون؟؟؟“ پر 4 تبصرے

  1. lagta ha hum sab ko mil kar in logo ki madat karni hogi ofsoos karny sy kuch nai hota jahaaad k liye ao hum awam in ki madat karyn gy fouj to kuch nai kar sakti

  2. جہاد اب نہیں ہوگا تو کب ہو گا؟ کتنے بے غیرت ہیں مسلم حکمران! اور وہ عوام جو انہیں سہہ رہے ہیں !

  3. جزاک اللہ۔۔۔۔۔ اور سب مفاد پرستوں کو ایک دن پچھتانا پڑیگا۔۔۔۔

  4. Jihad abi ni pehly sy zarori tha par ab Kaffar ko dekhany ka waqat ah gya ha

Leave a Reply