جو کہساروں پہ جاری ہے، وہ ساری جنگ ہماری ہے

جنت نظیر، ارض کشمیر جو 65سالوں سے مسلسل بھارتی جارحیت کا شکار ہے اپنوں کی غداری اور دشمن کی عیاری کے باوجود وہاں کے باسیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ لاکھوں شہداء کی قربانیوں اور ہزاروں عصمتوں کی نیلامی کے باوجود کشمیری روز ازل سے ہی بیرونی ضارحیت کے خلاف سینہ سپر ہیں اور ان کے جذبوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جدوجہدآزادی میں کشمیر کے ہر گھر سے جنازے اٹھے اور ہر کسی نے صعوبتیں برداشت کی ہیں۔

 
کشمیریوں نے حکومت پاکستان کی مسلسل سرد مہری اور زبان بندی کے باوجودپاکستان سے اپنا ناطہ توڑنا گوارا نہیں سمجھا۔ پاکستان کے یوم آزادی پر گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی کشمیری دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے اور پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح کشمیر میں بھی سبز علم لہرائے گئے۔ مرد حریت اور کشمیر کے قائد اعظم جناب سید علی گیلانی نے 14اگست کو مظفر آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ہمیں اپنی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہے۔ پاکستان کے خراب حالات دیکھ کر ہم پریشان ہو جاتے ہیں خدارا اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کریں، کشمیریوں کا مرکز و محور صرف پاکستان ہے اور ہمارا مستقبل اس کی ترقی سے وابسطہ ہے۔ یہ صرف سید علی گیلانی کے ہی خیالات نہیں بلکہ ارض کشمیر کا بچہ بچہ ان خیالات کا ترجمان ہے۔ کشمیریوں نے صرف 14اگست ہی جوش و جذبے سے نہیں منایا بلکہ 15اگست جو کہ بھارت کا یوم آزادی ہے، اسے بھرپور انداز سے یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ کشمیر کے علاوہ دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے کشمیریوں نے اس دن بھارت کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔

 
اس ضمن میں بے شک حکومت پاکستان غفلت کی نیند سو رہی ہے اور کشمیریوں کی اخلاقی حمایت سے بھی عاری نظر آتی ہے لیکن پاکستانی عوام کے دل آج بھی ان کے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ آج کشمیری اپنے حقوق کی حصول کے لئے صرف بندوق ہی نہیں بلکہ ہر پلیٹ فارم اور ذریعے کو استعمال کر رہے ہیں جس سے وہ اپنی آواز اقوام عالم تک پہنچا سکیں اور اپنے مقدمے کو درد دل رکھنے والے انسانوں کے سامنے اٹھا سکیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام اور حکومت بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی آواز میں آواز ملائے اور ان کے حق خود ارادیت کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرے۔ پاکستان کے ہر شہری کو اس بات کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیری پاکستان کی بقاء اور سلامتی کی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ان کی حمایت کرنا ہمارا اخلاقی و ملی فریضہ ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم مسئلہ کشمیر کو کسی ایک طبقے یا تنظیم کے حوالے کرکے خود کو بری الزمہ نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ہر فرد کو اپنی انفرادی حیثیت میں بھی کشمیری عوام کی ہر ممکن مدد کرنی چاہئے۔ سوشل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ نے تو آج کے دور میں ا پنی آواز دنیا کے کسی بھی کونے میں پہنچانا بہت آسان بنا دیا ہے ، ہم ان فورمز کو استعمال کرتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرسکتے ہیں تاکہ مظلوم کشمیری عوام کے دکھوں کا مداوا ہوسکے۔

 
پاکستان اور بھارت دونوں حکومتیں ان دنوں حالات کو نارمل بنانے اور دشمنی ختم کرنے کے درپہ ہیں جو کہ خوش آئند ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ امن کی بھاشا سنانے سے پہلے بھارت کو کشمیرکا مسئلہ حل کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر نہ تو خطے کا امن ممکن ہے اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات معمول پر آسکتے ہیں۔

فیس بک تبصرے

جو کہساروں پہ جاری ہے، وہ ساری جنگ ہماری ہے“ پر 3 تبصرے

  1. تحاریر کب سے تحریر کی جمع ہوگئ؟

  2. کیا آپ کو یقین ہے کہ اگر کشمیریوں کو حق خود ارادیت مل گیا تو وہ پاکستان سے الحاق کے لیے استعمال کریں گے؟ اس مفروضہ یا یوں کہیے کہ اس خوش فہمی کی بنیاد کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی اس پیش منظر پر غور کیا ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملا اور انہوں نے اسے ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کے لیے استعمال کیا تو پاکستان کی کیا پوزیشن ہوگی؟ کیا پاکستان اپنے حصے کے ایک تہائی کشمیر سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھے گا؟
    سوال یہ ہے کہ کشمیر کے کہساروں پر کونسی جنگ جاری ہے؟
    جو جنگ تھی وہ پاکستان سے آٖئ ایس آئی کے حمایت یافتہ مجاہدین کی مدد سے لڑی جارہی تھی جس کے کس بل امریکہ بہت پہلے نکال چکا ہے. ایسے میں خواہ مخواہ کا ایک جذباتی نعرہ لگانا کوئی عقلمندی نہیں ہے.
    ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے ایک انتہائی آسان کام کیجیے اور وہ یہ کہ اپنے آس پاس کے رہنے والے کشمیریوں سے دریافت کرنا شروع کیجیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اگر وہ پاکستان سے الحاق کی خواہش ظاہر کررہے ہوں تو اس معاملے کو پارلیمان تک لیجایا جائے اور پارلیمان کو مجبور کیا جائے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر آزاد اور خودمختار پالیسی بنائے جو کہ یقینا اصولوں کی بنیاد پر ہوگی ورنہ دوسری صورت میں اس مسئلہ سے کنارہ کشی کرکے باقیماندہ کشمیر پر ہی قناعت کرلی جائے.

  3. محترم جناب ڈاکٹر صاحب
    احمد شاہین کا مضمون تو ناقص معلومات کا عکاس تھا ہی مگر آپ نے بھی اپنے آخری جملے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی.آپ نے کشمیر کو جائیداد سمجھ لیا کہ باقی ماندہ پر قناعت کی جائے…بحثیت کشمیری مجھ سے پوچھیے کہ ہم کیا چاہتے ہیں،ہم پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں…کیا پاکستان ہمارا بوجھ اٹھا لے گا؟؟؟

Leave a Reply