سوشل میڈیا میلہ 2012

میں خود کو ایک ایلین محسوس کررہا تھا، وہ مجھ جیسے لوگ نہیں تھے، انکی باتیں، انکا لباس، انکی زبان، انکا چلنا پھرنا اور انکے فکر و خیالات سب کچھ مجھ سے بہت مختلف تھا۔ وہ دلائل، منطق اور افکار میں تضادات سے بھرپور آدھے فیصد مراعات یافتہ طبقے کی ایک تقریب تھی، جس میں متوسط طبقے اور اسکی سوچ کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ میں اس تقریب میں گزارے چند گھنٹوں کے دوران یہ احساس شدت کے ساتھ محسوس کررہا تھا کہ ایک پاکستان وہ ہے جو آواری، شیرٹن، پی سی اور میریٹ کے پرآسائش ہوٹلوں میں نظر آتا ہے۔ بھرے پیٹ، احساس زیاں سے عاری وجود اور پر مغز خیالات اور دوسرا پاکستان وہ ہے جو ان پنج ستارا ہوٹلوں کے کنارے سڑک پر رواں ہے اور موٹر سائیکلوں، بسوں اور چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرتا اس سوچ میں گم ہے کہ کیا وہ خیر و عافیت کے ساتھ گھر پہنچ سکے گا؟ کیا جب وہ گھر پہنچے گا تو پنکھے کی ہوا میں سو سکے گا۔ سوال یہ ہے کہ کونسا پاکستان حقیقی پاکستان ہے وہ جو ہوٹلوں کی زینت ہے یا وہ جو سڑکوں، محلوں، اسپتالوں اور تھانوں میں برپہ ہے؟

 

اس سوال نے پہلی بار میرے ذہن میں اسوقت دستک دی جب ایک جامع تلاشی کے عمل سے گزر تا ہوا آواری ٹاور میں منعقدہ اس تقریب کے استقبالیہ پر پہنچا، میرے گرد و پیش ٹوئٹر اور بلاگستان کے ناخداوں کا جھم گھٹہ تھا اور انکے بیچ و بیچ امریکی قونسل جرنل ویلیم مارٹن ایک فاتحانہ انداز میں کھڑے تھے، رجسٹریشن کے عمل سے گزر کر جب میں اندر چائے کی میز تک پہنچا تو امریکی سفارت خانے کی ملازمہ اس دو روزہ تقریب کے باقاعدہ آغاز کے لئے شرکاء کو مرکزی ہال میں آنے کی دعوت دے رہی تھیں۔ یہ میرے لئے حیران کن تھا، کیا یہ محفل امریکی سفارت خانے نے سجائی ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو منتظمین نے آخری لمحے تک اس معاملے کو کیوں پوشیدہ رکھا؟ اوف خدایا، امریکہ کی ہمارے معاملات میں دلچسپی کس حد تک بڑھ چکی ہے اور ہماری سماجی ذرائع ابلاغ کے ناخداوں کی امریکی سفارت خانے سے مراسم کس نوعیت کے ہیں اور کس طرح یہ لوگ پرتعش ہوٹلوں کی لابیوں میں وفاداریوں کے سودے کرتے ہیں؟

 

تقریب اپنے آغاز میں ہی بدنظمی کا شکار ہوگئی تھی، نظامت کے ذمہ دار خواتین و حضرات ادھر ادھر گھومتے ہوئے اور الجھے پائے گئے۔ مقررہ وقت سے گھنٹے بعد سبین نے اپنی ابتدائی کلمات سے تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا۔ توقعات کے برخلاف یہ ایک انتہائی ناقص آغاز تھا۔ پھیکا پن، ناتجربہ کاری اورتکنیکی خرابیاں اپنے عروج پرتھیں۔ لاکھوں روپے کی براہ رست امریکی امداد کے باوجود انکل سام کے وفادار نام نہاد سوشلسٹ بلاگرز صرف ایک پروگرام کرنے میں بری طرح ناکام نظر آرہے تھے، برکھادت کو کئی بار اسکائپ پر آن لائن لینے کی کوشش کی گئی لیکن ہر دفعہ تکنیکی خرابی آڑے آئی، کبھی ویڈیو آئی تو آواز غائب ہوگئی، کبھی آواز آئی تو ویڈیو غائب ہوگئی، شرکاء کے مشوروں پر کبھی برکھا کو ایک سو اسی ڈگری مخالف بیٹھایا گیا کبھی انکے پیچھے لگے پردے گروائے گئے اور کبھی فون ملاکر اسے مائیک کے پاس رکھنے کا تجربہ کیا گیا لیکن ڈھاک کے پات تمام کوششیں ناکام ہوئی اور اس ڈرامے کو ڈراپ سین کی طرف لے جانا پڑا۔دو روزہ کانفرنس کا پہلا مباحثہ علی گل پیر اور علی آفتاب کے سائیں تو سائیں اور آلو انڈے جیسی ویڈیوز اور انکی شہرت کے مندرجات پر مبنی تھا جسکی نظامت کی ذمہ داری ندیم ایف پراچہ نے سنبھالی۔ ندیم پراچہ صاحب سستا اور گھٹیا مزاح پیدا کرنے میں کمال رکھتے ہیں، چنانچہ انہوں نے یہ موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا اور عامر لیاقت کو کم از کم چھ بار پروگرام میں گھسیٹا حالانکہ عامر لیاقت یا ان سے متعلق فقروں کا اس مباحثہ سے دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ اگلے تین مباحثے ہندوستانی بلاگرز کے تھے جو عمومی طور پر معلوماتی نوعیت کے تھے جن کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا۔

 

کھانے کے وقفے کے دوران محمد اسد کا پیغام ملا کے وہ اور فہد کہر بھی پہنچ چکے چنانچہ میں استقبالیہ تک پہنچا۔ لگ بھگ دیڑھ، دو سو شرکاء میں سے کوئی نوے فیصد مسلمان تھے لیکن نماز جمعہ انکے لئے کوئی مسئلہ نہ تھی اور نہ ہی کسی کو اس حوالے کوئی پریشانی تھی، میں فہد اور اسد کافی دیر تک نماز جمعہ کے لئے مسجد ڈھونڈتے رہے لیکن پورے آواری اور اسکے قرب میں مسجد نہ ملی اور جب مسجد ملی تو وہاں جمعہ کا انتظام نہ تھا، چنانچہ تہ یہ پایا کہ اگلے مباحثے کے بعد جسکے شرکاء گفتکو میں خود فہد کہر بھی مدعو تھے کے بعد نماز ظہر ادا کی جائے گی۔بحثیت اردو بلاگر میرے لئے اس کانفرنس کا سب سے اہم مذاکرہ بھی یہی تھا جسکا موضوع تھا “انگریز ی سے ہٹ کر، مقامی ثقافت اور ورثہ کی حفاظت “۔ مباحثے کی نظامت کے لئے رضارومی صاحب مقرر تھے، اول تو وہ دیر سے آئے اور جب آئے تو ایک لمبی تقریر شروع کر ڈالی اور مباحثہ کہیں کھو گیا۔ ضیائی دور کو کوسنے، نصاب پر برسنے، محمد بن قاسم کی قبر پر لات مارنے اور دائیں بازو کے دانش وروں کا مذاق اڑانے کے بعد انہیں بڑی مشکل سے یہ خیال آیا کہ ایک مذاکرہ ہے جس میں انہیں چار مقررین کے درمیان بحث کرانی ہے۔ کل ملا کر پانچ منٹ ہر مقرر کو دئے گئے۔تقریب کا سب سے دلچسپ مباحثہ سماجی ذرائع ابلاغ پر مایہ خان کے خلاف تھا، اس مباحثہ کے دوران اس پوری تقریب اور اسکے مقاصد کی قلعی کھل گئی تھی۔ بی بی سی اردو کے نمائندے ذیشان حیدر جو لمحہ لمحہ اپ ڈیٹ کررہے تھے کے فقرے میرے ذہن سے اب تک نہیں جاتے ہیں، اس نے ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ جماعتی سوچ کے لوگ پہلے اردو پریس میں داخل ہوئے، پھر انگریزی پریس میں اور اب سوشل میڈیا پر آرہے ہیں، ہمیں انہیں روکنا ہوگا، انکے خلاف محاذ بنانا ہوگا اور انہیں نکالنا ہوگا۔آخری مذاکرہ جماعتی سیاست کے سماجی ذرائع ابلاغ پر اثرات” پر مبنی تھا جسکے شرکاء گفتگو عواب علوی، علی رضا عابدی اور ماروی سرمد تھے۔ ایک موقع پر تمام شرکاء گفتگو کے درمیان اسکولوں میں ہم جنس پرستی کے موضوع پر مذاکرے کی تائید بھی کی گئی اور یہ مذکراہ بھی شمع محفل ماروی سرمد کے جلوں کی نظر ہوگیا۔

 

لبرل طبقے کے مسائل اور انکی ذہنی حالت پر میں بحث نہیں کرنا چاہتا اور نہ مجھے ماروی سرمد اور محسن سعید کے بغلگیر ہوکر رقص کرنے اور سگریٹ کے سُٹے لگانے سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی اس مجلس کی خواتین، انکے لباس اور انکی حرکتیں میرا موضوع قلم ہیں، لیکن میں یہ ضرور پوچھنا چاہوں گے کہ کیا یہ سب کچھ اس خطے کی ثقافت کا حصہ ہے، نہیں بلکل نہیں، مسلم ثقافت تو درکنار ہندو ثقافت کا کوئی بھی رنگ اس قسم کے مکروہ لہو لعب سے رنگا ہوا نہیں ہے، یہ تو خالص مغرب کی مادر پدر تہذیب ہے جو امریکی سفارت خانے کے خرچہ پر بپا کی گئی تھی۔آواری ہوٹل کی لابی میں فیض احمد فیض کی ٹٹوز میں چھپی نیم عریاں نواسی کو محمد حنیف کے پہلو میں نیم دراز پڑا دیکھ کر مجھے مسعود لوہار کا یہ سوال یاد آگیا کہ پچھلے تیس سالوں سے کوئی بڑا ادب تخلیق نہیں ہوا ،جناب کیسے ہوگا؟ ایلیٹ انگریزی رنگارنگینیوں میں مست ہے اور متوسط طبقہ “ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات” کی عملی صورت بنا ہوا ہے۔لیکن جن لوگوں کے حواس پر ضیاء الحق چھایا ہو ان سے کیا بات کی جائے اورکیا استدلال پیش کیا جائے۔ ایک مقرر نے کہا کہ طالبان نے گدھوں کو بھی کپڑے پہنادیے تھے میں نے سوچا اب کوئی اور کھٹرا ہوگا اور کہے گا کہ احمدی ویب سائٹ کو ضیاء الحق کی روح نے بند کیا ہے۔

 

سماجی ذرائع ابلاغ، مرکزی ذرائع ابلاغ سے زیادہ طاقت ور ہوتا جارہا ہے، مشرق وسطہ میں اسنے اپنی طاقت کا لوہا منوالیا ہے اور پاکستان میں اسے ابھی اور آگے جانا ہے، امریکی سفارت خانہ بھی اس حقیقت سے آگاہ اور اسی لئے سماجی ذرائع ابلاغ کے ناخداوں سے راہ و رسم بڑھائے جارہے ہیں، ناصرف بی بی سی بلکہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی سفارت خانے پوری تقریب کی براہ راست کوریج کرتے رہے۔ اسلام پسندوں، اسلامی تحریکوں کے انقلابی نوجوانوں اور دائیں بازو کی جماعتوں کے پراپیگنڈا ونگ کے لئے یہ سب کچھ لمحہ فکریہ ہے، پاکستان کی اکثریت اگر سوشل میڈیا کو صرف اور صرف تفریح سمجھتی ہے تو قریب ہے وہ وقت جب آدھا فیصد مراعات یافتہ طبقہ اپنی بہتر معاشی حالت اور امریکی سرمائے کے بل بوتے پر انہیں کھاجائے کا اور یہ اقلیت کی نمائندگی کرتا امریکی اسپانسر پاکستان اکثریت کے نظریات، جذبات اور زندگیوں کو مزید کنفیوژن کیطرف دھکیل کے کھا جائے گا۔میں اس محفل میں گزارے چند گھنٹوں کے دوران یہ احساس شدت کے ساتھ محسوس کررہا تھا کہ ایک پاکستان وہ ہے جو آواری، شیرٹن، پی سی اور میریٹ کے پرآسائش ہوٹلوں میں نظر آتا ہے، بھرے پیٹ، احساس زیاں سے عاری وجود اور پر مغز خیالات اور دوسرا پاکستان وہ ہے جو ان پنج ستارا ہوٹلوں کے کنارے سڑک پر رواں ہے اور موٹر سائیکلوں، بسوں اور چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرتا اس سوچ میں گُم ہے کہ کیا وہ خیر و عافیت کے ساتھ گھر پہنچ سکے گا؟ کیا جب وہ گھر پہنچے گا تو پنکھے کی ہوا میں سو سکے گا؟ سوال یہ ہے کہ کونسا پاکستان حقیقی پاکستان ہے وہ جو ہوٹلوں کی زینت ہے یا وہ جو سڑکوں، محلوں، اسپتالوں اور تھانوں میں برپہ ہے؟؟؟

فیس بک تبصرے

سوشل میڈیا میلہ 2012“ پر 35 تبصرے

  1. بہت عمدگی سے پاکستان کے سوشل میڈیا اور اس پر امریکی اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔۔۔لیکن عام آدمی کے بارے میں آپ خوش فہمیوں کو دل دماغ سے نکال دیں۔ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں تقریباّ ہر شخص اپنی قیمت گلے میں لٹکائے پھر رہا ہے سارا مسئلہ صرف خریدار کی دلچسپی کا ہے۔
    پاکستانیوں نے متعدد بار یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان نعمت کے قطعی طور پر حقدار نہیں تھے۔

  2. یار کچھ تصاویر تو شئیر کرنی تھیں۔ خاص طور پر اس مسجد کی جہاں جمعہ کا انتظام نہ تھا۔
    باقی سوشل میڈیا کو کوئی پیسے کھلا کر قابو نہیں کرسکتا۔ اس کی فطری بنیاد ہی آزاد منش ہے۔

  3. اتنی “دلکش” محفل کے بارے ہمیں عمدگی سے رپورٹ کرنے کا شکریہ… باقی رہی روشن خیالی اور جماعتی خیالی کی بحث… تو وہ اب اتنی ہو چکی کہ مزید بات کرنے سے دل اچاٹ ہو جائے… ندیم ایف پراچہ اور ماروی سرمد جیسے لوگ، کھلے عام پاکستان اور نظریہ پاکستان کا مذاق اڑاتے ہیں اور پھبتیاں کستے ہیں… لیکن کوئی مائی کا لال انہیں ہاتھ نہیں ڈال سکتا…
    میں اسی لیے تو کہتا ہوں کہ ہم غلام ہیں… اور غلاموں کے سر صرف اسی وقت اٹھتے ہیں جب تنخواہ کا وقت ہوتا ہے…

  4. بہت خوبصورت انداز میں اپ نے اپنا تجزیہ دیا. ایسی تقاریب کے انعقاد سے پتہ چلتا ہے یہ لوگ شکست کھا چکے ہیں. انشاء اللہ انہیں ہر محاذ پر شکست ملے گی۔

  5. سوشل میڈیا کے اس میلے پر ایک عام پاکستانی کی رائے پڑھ کر اچھا لگا۔
    آجکل ہر چیز پیسے، بزنس اور مقصد کے لیے ہوتی ہے۔ بلاوجہ کوئی بھی ڈالروں کا ضیاع نہیں کرتا

  6. an excellent article showing real scenario of our society. Ms Sarmad and NF paracha are symbol of liberalism, going to be exposed .It means we have to fight final round on cyber .

  7. بہت خوب بھائی، گڈ شو۔۔۔۔ بہت اچھی کوشش ہے اللہ قبول کرے اور ہم سب کو عمل و الفاظ کی دنیا میں سیدھے راستے پہ چلائے۔ آمین۔ لکھتے رہیں!

  8. اپ نے یہ سب لکھ کر اپنا حق ادا کردیا ہے
    که
    سند رہے ، اور وقت ضرورت کام آئےگا!!!٠
    انتظامیہ کی عقلمندی کو ایک جگه تو اپ کو ماننا پڑے گا که
    انہوں نے خاور کو نہیں بلایا ، یا خاور سے رابطہ ہی نہیں کیا که
    جس پر ناں جماعت اسلامی کا لیبل ہے ہے اور ناں ہیی کسی سیاسی گروہ یا سجاده نشین کا لیبل
    اور ہماری سوسائیٹی کا سوشل میڈیا جانتا هے که
    خاور معاشرے سے هی تعلق رکھتا ہے ناں که کسی
    سپانسرز سے !!٠
    اور اگر ميں وہاں جاتا تو
    اُن لوگوں والا لباس هي پہن کر جاتا اور وہیں ان لوگوں پر
    چونالگے کوے هونے کا انہی کو بتانے لگ جاتا
    اور انہی کی زبان ميں بتا دیتا
    باقی یار جی ایک بات پوچھنی تھی کہ ایسی تقریبات میں ایک خاتون نظر اتی هے
    جس کے خدخال دڑاور اور ابروجین لوگوں جیسے هوتے هیں
    اور ڈیل ڈھول نصرت فتح علی خان جیسا اور اس کو پاس ایپل کا کمپیوٹر هوتا هے
    یہ خاتون کون ہے اور کس سوسائیٹی کے کیسے سوشل میڈیا پر کیا لکھتی هے؟
    اور ان کا نام کیا هے
    یاکہ بس
    پاکستان کے فارمولا ترقی کے مطابق ان کی “پچھوں” مضبوط هے؟؟؟

  9. بہت اچھے طریقے سے منظر کشی کی ہے .
    امریکا پاکستان میں ایسے لکھاریوں کو متاثر کرنے کی کوشش کررہا ہے جو تبدیلی کا شوق رکھتے ہیں.
    سوشل میڈیا کی بنیاد ہی آزادی ہے . اس کا مقابلہ بھی آزادی سے کیا جائے گا.

  10. سوشل میڈیا دور جدید میں اپنی بات کہنے دوسروں تک پھچانے کا ایک اھم ذریعہ ہے۔ اسلامی سوچ رکھنے والوں نے اس کو بطور خاص اچھے انداز میں استعمال کیا جس سے سیکولر ،لبرل لابی کافی تکلیف کے عالم میں ہے۔۔ ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کو زیادہ خوبصورتی ،مہارت اور جدید تکنیک کے ساتھ استعمال میں لاکر قرآن و سنت کئ دعوت کو ہر طبقہ فکر تک پھنچایا جاے ان شاء اللہ دین دشمن لابیاں منہ کی کھائیں گی۔ اس میں شک نہیں کہ سیکولر لابی اپنے گنبد میں بند ہے۔ اور ان کی کوئ سنتا بھی نہیں ۔ مگر ان کو ان کی سطح ہر جواب ضرور ملنا چاہئے۔ جن قوتوں نے سیکولر لابی کو ڈالروں کے عوض خرید رکھا ہے ہہ ان کو کھلا دھوکہ دیتے ہیں۔ کام کم کرتے ہیں۔ اصل تو دام کھرے کرتے ہیں۔ البتہ یہ توجہ طلب ہے کہ اگر اس میڈیم میں بھی پیسہ کا استعمال شروع ھوجاتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ہمیں اس کے متبادلات پر غور کرنا چاہے۔

  11. سماجی ذرائع ابلاغ میں ابھی تک تو سرمایہ کا عمل دخل نہیں تھا اور اسی وجہ سے اس میں اچھی سوچ رکھنے والے لوگ بھی کافی آگے آ رہے ہیں۔ شاید یہی بات لبرل طبقہ اور امریکی مفادات کے محافظوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور مرکزی ذرائع ابلاغ کی طرح سماجی ذرائع ابلاغ کو بھی آلودہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن عثمان صاحب کی بات ٹھیک ہے کہ اس پر کوئی قدغن لگانا کافی مشکل ہے لیکن اس کے لیے اچھی سوچ رکھنے والے قلم کاروں کو بھی مل کر کام کرنا ہو گا۔.

  12. نام نہاد سیکولر اور لبرل لابی کی مکلمل پشت پنہائی مغربی اداروں اور حخمتوں سے ہو رہی ہے پاکستان کے ایک اسلامی اور مشرقی کلچر کو تبدیل کرنے کے لیے میڈٰا کے بعد اب سوشل میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے، افسوس اس بات کا کے ان کو ہمارے معاشرے سے اپنے لیے کرائے کے ٹٹو اور ایجنٹ مل جاتے ہیں جو ڈالروں کی چمک کے لیے اپنی ہی قوم اور تہزیب کو تباہ کرنے کے لیے ان کے اہلکار بن جاتے ہیں.

  13. سوشل میڈیا میلے کی تفصیلات خوب بیان کی آپ نے. ضرورت اس امر کی ہے کہ شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے کے بجائے سوشل میڈیا کے حوالے سےموئثر حکمت عملی بنائی جائے.
    اور ساتھ ہی تحریر کی کیا تعریف کروں، زبردست ہے…

  14. @ ڈاکٹر جواب صاحب : بلکل قیمتیں لگوانے والوں کی کمی نہیں ہےلیکن ہمارے معاشرے میں، عام آدمی ان امتحانات سےکم ہی گزرتے ہیں۔
    @ عمران اقبال @رضوان اسلم ، @ یاسر عمران ،@ یاسمین نگہت، @محمد فیاض اور @ محمد عمر: تحریر کی پسنددگی اور تبصرے کا شکریہ۔
    @ خاور صاحب:دعوت تو مجھے بھی نہیں دی تھی اور میں نے فہد کہر کے مشورے پر رجسٹریشن کی درخواست دی تھی۔ کئی اردو بلاگرز کی دعوت کا کوئی جواب نہیں آیا لیکن حیران کن مجھے بلالیا گیا۔
    @ ناصر تیموری ، شعیب اکرم اور عثمان : تحریر کی پسنددگی اور تبصرے کے شکریہ، سوشل میڈیا کی عوام خرید و فروخت کے عمل سے بھلے باہر ہو لیکن خواس کو خریدا جاسکتا ہے۔ سرمائے، شہرت اور تعلقات کی اہمیت جس قدر مین اسٹریم میڈیا کو ٹھیک اتنی ہی سوشل میڈیا کو بھی ہے ۔ خود میں سوشل میڈیا پر کئی منصوبے لئے بیٹھا ہوں لیکن سرمائے کی کمی اور غم روزگار کی وجہ سے وہ دھرے کے دھرے پڑے ہیں۔ عثمان بہت کم تصاویر لی گئی ہیں، جو میں فرصت کے اوقات میں فیس بک یا اپنے بلاگ پر شائع کردوں گا،اس میلے کی تصاویر بی بی سی اردو پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے یہ بتاو کے تم نے بلاگنگ کیوں چھوڑ رکھی ہے۔
    : تحریر کی پسنددگی اور تبصرے کے شکریہ۔
    @ شہنشائے جزبات صاحب : اس تحریر کے لئے تمہاری ضد اور ترغیب کا خصوصی شکریہ۔

    اور آخر میں قلم کارواں کی کی ٹیم کا خصوصی شکریہ۔

  15. اب تو حقیقت حال سب کے سامنے ہے کہ کس طرح امریکہ بہادر ہم پر اور ہمارے سوشل میڈیا پہ اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے تاکہ ان کو بوقتِ ضرورت استعمال کرسکے.
    تو میرے خیال سے تو ہمیں ان آزاد خیال بے وقوفوں کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہئیے.

  16. اچھی کوشش ہے ۔ ان دجالی ایجنٹون کا خبث سامنے انا چاہیے

  17. A brilliant court martial sir…………..love your piece.

  18. @عدنان شاہد، مصطفٰی اور عمیر : تحریر کی پسنددگی اور تبصرے کا شکریہ۔

  19. فہد کہر، یہ تبصرہ دراصل میں نے اس تحریر کے لئے نہیں بلکہ خاور مصطفی کی بات پہ کیا تھا۔ آپ نجانے کیوں اتنے جذباتی ہو گئے۔ چونکہ میں اس میں شرکت کی کوئ خواہش نہیں رکھتی تھی اسکی وجہ اس کے منتظمین کا اردو کے ساتھ ہتک آمیز رویہ ہے تو میں نے آپکی دعوت کا بھی کوئ جواب نہیں دیا۔ آپکو یاد رہنا چاہئیے کہ یہ آپکی ذاتی تقریب نہیں تھی۔ امید ہے کہ اب آپکی سمجھ میں اصل بات آگئ ہوگی٫
    مجھے جماعت اسلامی سے کوئ دلچسپی نہیں اور نہ ہی مجھے اس جماعت سے پاکستان کے لئے بھلائ کی کوئ امید ہے۔ اس پہ کسی کو چراغ پا ہونا بے معنی ہے۔ لیکن میں کسی بھی شخص سے نظریاتی دشمنی اور دوستی نہیں رکھتی۔ نظریات اپنی جگہ اور انسان کا ذاتی اخلاق اپنی جگہ ہوتا ہے۔ واللہ مجھے آپکے اس رد عمل پہ شدید حیرانی ہے کہ آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں آپکے جماعتی ہونے کی وجہ سے آپکے برابر نہ بیٹھنا چاہونگی جبکہ آپکی دعوت پہ میں بلاگر میٹ اپ میں آپکے برابر بیٹھ چکی ہوں۔ یہ آپ نے انتہائ بچکانہ بات کی ہے۔
    اس پہ آپکو معذرت کرنی چاہئیے۔

    مزید یہ کہ بخدا مجھے کسی بھی شخص کے لائم لائیٹ میں رہنے سے کوئ تکلیف نہیں۔ میں نے بلاگنگ اتفاقیہ شروع کی تھی۔ اگر ارادے سے کرتی تو کبھی اپنی اصل شناخت کو سامنے نہ لاتی۔ اس طرح میرے پاس لائم لائیٹ میں آنے کا صفر فی صد چانس ہوتا۔ اب بھی میں بہت محدود پیمانے پہ ایکٹو ہوں ورنہ لائم لائیٹ میں آنا کوئ مشکل نہیں۔ اس لئے بخدا ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو سامنے نہ لایا کریں۔ میں آپ سے کم از کم اس روئیے کی توقع نہیں رکھتی اور بہت سے لوگوں کے مقابلے میں آپکو پختہ سوچ کا حامل سمجھتی ہوں۔

  20. Your observation and experience in your article is totally inaccurate, vulgar and based on personal bias. I am not sure how you declare that 90 percent of the participants in that conference were muslims. There were sunni, shia, agakhani, bohri, barelwi, ahmadi, parwezi and other sects,creeds represented amongst the participants and your claim of 90 percent muslim participants is not supported by any substantive survey on your part. Plus, apart from muslims of different denominations, there was also representation by hindu, Christian, non-scheduled caste in the summit. It is therefore prepostereous to claim there were 90% deobandi muslims who wanted to go and pray in a deobandi mosque in avari hotel.

    Secondly, you have problem with American consulate sponsoring the event. Do you have the same problem when Saudi Arabia sponsors “halwas and boys” to madressahs on Pakistan’s tribal belt for mullah’s entertainment. Saudi Arabia has 20,000 american troops on its soil, still you have no problem with their contribution to these jihadi madressahs.

    Thirdly, you mentioned mismanagement of the conference. I totally disagree with this notion. I felt the conference was executed in excellent manner. I think you had problems with good looking women running in practical clothes because that’s their style. The technical gimmick of skype was not mismanagement but an unfortunate happening due to unforeseen circumstances.

    Fourthly, by criticizing strong-willed people like Sabeen Mahmud and labeling them with vulgar comments “ American consulate ki boot chaatna” reflects on your gender bias, education, family culture. I am sure your wife, mother, sister would be at the receiving end of your chauvinist tirade.

    Fifthly, this conference was all about dialogue. The message which emerged from day 1 of this conference was that we need to support dialogue between us. Marvi Sirmed, infact said “ I love you” to Dr. Awab because they agreed that “ now when they have met each other face to face, they feel more aware and responsible towards other individuals” If you were so strongly opinionated against this conference, you should have stood up and debated your stance. You did not get the message of this conference which was to “dialogue and debate different perspectives, opinions, sides”.

    Sixthly, there are many homosexuals, ahmadis, non muslims who exist in Pakistan and need space and freedom for expression. Since they don’t find that space in mainstream media, public domain and parliament, it was an excellent idea to project the alternate perspectives on this forum. I just don’t wish your father, brother, sister, mother is secretly gay because according to a survey 11% of world population is homosexual. Our society must have more because we have gender segregation, sexual frustration and tradition encouraging homosexuality.

    Seventhly, did you find Sabeen Mahmud or the niece of Faiz Ahmed Faiz wearing skirt blouse or sari. They were wearing shalwar kameez which shows Pakistani culture. You need to travel more in public buses to see women wearing different types of Pakistani clothes.

    Finally, do you even know the definition of middle class ? urban? Liberal ? Please google it to be more self aware. Middle class is defined as “The socioeconomic class between the working class and the upper class, usually including professionals, highly skilled laborers, and lower and middle management.” So according to that definition most of the participants including me were in fact middle class because we have worked our way up through education and hard work.

  21. تقریب کا حال اچھا لکھا ہے لیکن کچھ باتوں بلکہ آپکے تجزیے سے مجھے اتفاق نہیں۔ ایک تو آپ نے یہ لکھا ہے کہ سب لبرل اور خصوصا سوشل میڈیا پر موجود لوگ اپر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، یہ بات کلی درست نہیں۔ اسی تقریب میں آپ کو بہت سے ایسے لوگ بھی نظر آئیں ہو گے جو اپر کلاس سے ہرگز نہیں لیکن آہستہ آہستہ اس طرف جانے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔ فہد بھائی سے پوچھ لیجئے کہ وہ یقینا مجھ سے زیادہ بہتر معلومات رکھتے ہیں۔
    دوسری بات یہ کہ آپ نے سوشل میڈیا کا عام آدمی کی زندگی پر اثر کچھ زیادہ ہی دکھا دیا ہے۔ سوشل میڈیا عموما انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور سب سے بڑھ کر کچھ فارغ وقت تک رسائی رکھنے والے ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ حساب آپ خود لگا لیں کہ کتنے پاکستانی روزانہ کی بنیاد پر انٹرنیٹ اور پھر سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی سے مراد صرف لاہر، کراچی یا دیگر بڑے شہروں میں رہنے والے لوگ نہیں۔
    میری خیال میں عام آدمی اب بھی دائیں بازو کا پرنٹ میڈیا اور ٹی وی ہی دیکھتا ہے۔ میرے خیال میں حامد میر اور جاوید چودھری انگریزی لکھنے والوں کی نسبت کہیں زیادہ پڑھے جاتے ہیں اور اسی تناسب سے اثر پذیری بھی رکھتے ہیں۔
    جہاں تک بات امریکہ یا دیگر مغربی ممالک کی ہے، ان کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ عام پاکستانی تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کوشش درمیان میں ہی ہائی جیک ہو جاتی ہے۔ شاید یہ ایک طرح سے اچھی بات ہی ہے کیونکہ جو لوگ انکی تنخواہ پر کام کرتے ہیں، معاشرے میں انھیں کوئی جانتا ہی نہیں اور جانتا بھی ہے تو صرف شغل میلے کیلئے۔ ان سے زیادہ اثر پذیر تو محلوں کی مسجدوں کے مولوی ہوتے ہیں۔

  22. @ عنیقہ ناز صاحبہ : مجھے لگتا ہے اس تحریر کا سب سے زیادہ اثر آپ نے لیا ہے 🙂

    @ فیصل : بلکل میں اتفاق کرتا ہوں کہ ایک عام آدمی دائیں بازو کی سوچ رکھتا ہے اور دائیں بازو کے دانش وروں کی باتوں کو زیادہ غور سے سنتا ہے لیکن جہاں تک اس تقریب کا تعلق ہے میں جمعہ کا پورا دن اس تقریب میں رہا، صبح نو سے شام سات بجے تک اور میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ یہ ایک خاص طبقے کا شو تھا جو خود کو پورے پاکستان کا نمائندہ سمجھتا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ شعیب صفدر صاحب جو اردو کے سنیئر ترین بلاگرز میں سے ایک ہیں کو باجود کوشش کے دعوت نامہ نہیں مل سکا۔ خود فہد کہر صاحب تقریب میں صرف تین گھنٹے شریک رہے اور اپنے مزاکرے کے بعد واپس چلے گئے، ان سے پوچھئے گا کہ وہ واپس کیوں چلے گئے تھے۔ میرے خیال سے آپکو عنیقہ صاحبہ کا مضمون پڑھنا چاہئے کیونکہ اپنے روشن خیال پس منظر کی وجہ سے وہ اس معاملے میں متعصب نہیں کہلائیں گی، انہوں نے بھی اس تقریب کو ایک خاص کلاس کی تقریب قرار دیا ہے۔

  23. @ محترم علی شاہد صاحب :
    نمبر 1 : میرے خیال سے میں نے بلکل صحیح اندازہ لگایا ہے کہ تقریب کی 90 فیصد اکثریت مسلمان تھی کیونکہ تقریب میں شریک کم و بیش تمام ہی لوگوں کو میں کسی نہ کسی حوالے سے جانتا ہوں۔ جہاں تک فرقوں کا تعلق ہے تو میں ایک عام پاکستانی ہوں اور ایک عام پاکستانی شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، پرویزی اور آغا خانی مسلمانوں کو مسلمان ہی سمجھتا ہے، معلوم نہیں آپ کس فرقہ پرستی کا شکار ہیں۔
    نمبر 2 : جی ہاں مجھے امریکہ سفارت خانے کی اس تقریب میں اسپانسر شپ پر سخت اعتراض ہے اور میرے خیال سے اس طرح کی تقریب کو باآسانی کوئی اور اسپانسر بھی مل سکتے تھے۔ جہاں تک سعودیہ عرب کا تعلق ہے تو باوجود اسکے کے آج تک کسی بڑے مذہبی مدرسے کو سعودیہ عرب کی براہ راست امداد کا کوئی ثبوت نہیں ملا، میں بحث کے لئے مان لیتا ہوں کہ سعودیہ عرب مدارس کی امداد کرتا ہے تو جناب اس امداد میں کیا مضائقہ ہے کیونکہ اول تو سعودیہ عرب ایک برادر اور پڑوسی مسلمان ملک ہے، اور دوسرا مذہبی مشینری اسکولوں کی امداد کے اسباب مذہبی ہوسکتے ہیں البتہ سوشل میڈیا میلے کرانے کے پیچھے خالص سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔
    نمبر 3 : تقریب کے پہلے روانڈ میں جو بدانتظامی نظر آئی تھی اسے تمام شرکاء نے محسوس کیا تھا، یہاں تک بی بی سی اردو کی ویب سائٹ نے بھی اسکا ذکر کیا۔ تقریب میں منتظمین کی جان میں جان علی گل پیر اور علی آفتاب کے مزاکرے کے بعد آئی تھی۔
    نمبر 4 : پہلے یہ وضاحت کردوں کہ میں نے سبین صاحبہ سے متعلق کوئی غیر مہذب زبان استعمال نہیں کی، وہ میرے لئے قابل احترام ہیں۔ ہاں آپ جس جملے کی طرف اشارہ کررہے ہیں وہ بل واسطہ ان تک بھی پہنچتا ہے۔ میرے خیال سے مجھے “جوتے چاٹنے ” کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا اور میں قلم کارواں کے ایڈیٹر سے گزاش کروں گا کہ “جوتے چاٹنے” کا فقرہ ہٹا کر اسے وفادار میں تبدیل کردیں۔ مزید یہ کہ آپ مجھے جو سبق پڑھانا چاہ رہے ہیں خود آپ اس سبق میں کافی کچے ہیں، اگر پختہ ہوتے تو تنقید کا دائرہ کار مجھ تک محدود رکھتے میرے خاندان کو نہ گھسیٹتے۔
    نمبر 5 : اگر یہ تقریب ڈائیلاگ کے نظرئے پر تھی اور پورے پاکستانی سوشل میڈیا کی نمائندہ تھی، تو یقینا دائیں بازو کے لوگوں کو بھی مزاکروں میں شامل کیا جاتا اور اسٹیج سے مسلسل دائیں بازو کے خلاف اعلان جنگ کی طبلیں نہ بجائی جاتیں۔
    نمبر 6 : پہلے تو میں احمدیوں اور ہم جنس پرستوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے کی آپکی کوشش پر حیران ہوں ، دوسرا یہ کہ محترم میں نے کب کہا کہ سوشل میڈیا پر احمدی مذہب کے لوگ اور ہم جنس پرست اپنی بات نہ کریں، بلکل کریں۔ ہاں اسکول کے معصوم بچوں کو اس قسم کے مباحث میں نہ الجھائیں۔
    نمبر 7: سبین صاحبہ کے لباس پر میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا، جناب بلکل نہیں کیا۔ بلکہ میں نے صرف یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا تقریب میں شریک اکثریت، کا اٹھنا، بیٹھنا، پہننا اوڑھنا اور باتیں کرنا بلکل عام پاکستانیوں جیسا ہے، بلکل نہیں ہے۔

    اور آخر میں، اس تقریب کے منتظمین اس بات کا اقرار کرچکے ہیں کہ تقریب میں اکثریت ایلیٹ کے لوگوں کی تھی، اکثر شرکاء نے اس موقف کی تائید کی ہے۔ خود میں نے کئی نامی گرامی انگریزی بلاگرز کی زبان سے ایسے الفاظ سنے ہیں۔

  24. 1. Sir,I work in tower area. I know many shia colleagues who dont offer their friday prayers in sunni mosques and vice versa. Simarly same goes for some of my barelwi, parwezi, ahmedi, agakhani friends. Its difficult to generalize that all muslims offer their friday prayers. If you calculate the number of prayer space in mosques with population of Pakistan, you will get the answer of how many people actually pray.
    2. Political motive of American embassy. Brother, do you really like Talibans, ISI who kill their own muslim brothers. The political motive of talibans is well clear and they substantially articulate it against Pakistani state and nonmuslim non deobandis. Now any effort from anyone ( US,British Council, Goethe, Alliance Francaise, Indian High Commision) to neutralize or challenge extremist narrative of talibans is welcome. Also, Peaceniche is the name of the organization responsible for this event. Their name “ Peace niche” symbolizes their mission instead of Taliban who are against women education, women participation, extrajudicial killing and rule of jungle.
    3. Sabeen Mahmud is a graphic designer by qualification not event manager, similarly the rest of the volunteer team was young and inexperienced. The show they had put up was commendable considering getting visa for Indian participants is so difficult, managing 500 celebrities,sponsors, media people and youth was no small task. Criticizing is so easy, you know.
    4. To me Sabeen Mahmud is a honourable respectable woman, and I respect her just like I respect my mother, sister. Your vulgar comments towards someone I respect flabbergasted me and I am sorry if it went too personal. Although it was meant as a comparison not personal attack.
    5. You and your friends were epresenting right wing, weren’t you? Why didn’t you stand up. Secondly as I said before, the marginalized and minorities need space more than the populist mainstream ones so it was justified to give a platform to the marginalized left wing liberals.
    6. There was no explicit over-the-top session on homosexuality and ahmedis in that summit so there was no chance schoolchildren were exposed to the realities of our society.
    7. You said the culture was not Pakistani. The culture was very Pakistani, as most of the women were wearing modern shalwar kameez including Sabeen Mahmud and @Monadarling.

  25. محترم علی شاہد صاحب :
    1۔مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کے لوگ کس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، لیکن ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ عام پاکستانیوں کی نوے فیصد تعداد جمعہ پڑھتی ہے، چاہے جس مسجد میں پڑھے۔
    2: جناب، جناب، آپ پہلے مدارس کی بات کررہے تھے، پھر انکو سعودی امداد کی۔ اب آپ نے ایک سو اسی ڈگری یو ٹرن لے کر طالبان کو لے آئے ہیں۔ دیکھیں طالبان اگر لڑکیوں کے اسکول بن کراتے ہیں یا لوگوں کو مارتے ہیں تو اس سے امریکی امداد لینے کا جواز کیسے پیدا ہوتا ہے۔
    3 : پہلے تبصرے میں آپ نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ کوئی بدانتظامی نہیں ہوئی، اب آپ مان رہے ہیں۔ لگا تو لائے ہیں انہیں یہاں تک باتوں میں ۔ اور کھل جائیں گے کچھ دو چار ملاقاتوں میں.
    4 : سبین صاحبہ میرے لئے بھی کافی محترم ہیں۔
    5 : میں اس دلیل سے متفق نہیں، ڈائیلاگ کا یہ طریقہ نہیں ہوتا جو آپ سیکھا رہے ہیں یعنی میں کھڑا ہوجاتا اور بولنا شروع کردیتا۔
    6 : ؛-)
    7: معذرت کے ساتھ، یہ عام پاکستانیوں کی ثقافت نہیں ہے، میرا مشورہ ہے کہ آپ اردو کے کچھ لبرل بلاگرز کے مضامین پڑھیں، کیونکہ اس کم از کم اس معاملے میں وہ سارے میرے ہم آواز ہیں۔

  26. 2.Brother there is a strong link between madaris-saudi aid and taliban. Infact talibans are actually a product of haqqania, binoria, rasheedya madaris along the tribal belt which were funded by saudi arab’s royal family and their interior minister faisal al turki ,. So I dont see any contradiction in refuting each of these three, talibans-madressahs-saudi-aid. And my argument was any sponsorship which challenges the extreme philosophy of the Taliban-madressah-saudi-aid nexus is welcome, in my opinion.
    3.Well you also derailed from your position. You first said, the whole event was mismanaged, than you said things improved after the aly gul/saeen session. And my point is the major focus of the event was not preaching in solo mullah like style. They were all discussion based sessions and the co-ordination between participants, speakers, Indian guests and sponsors was the major part which was very well executed.
    5. There were many individual discussions going on in the lobby area and also the question/answer part was there for your disagreement. It was an appropriate manner to posture your right-wing opinion on the issues and their lack of it through either discussion with the speakers or in the question and answer sessions. I despised some participants in the conference, Beena Shah and @Bhopalhouse for their elitism and Urooj Zia, Nabiha Meher for their feminism yet I felt a better way was to engage with them rather than stay quiet.
    7. So lets start with urdu press. I read Jang and have read Taleem-o-Tarbiat in my teenage. The columnists and writers I know in these two publications are not the ones who wear burqa and long chadors. Kishwar Naheed, Zahida Hina, Farhat Hashmi, Saaiqa Bano, Bakht Rasa, Bushra Rehman, Mussarat Jabeen, Sadia Rashid, Maliha Lohdi. A long list of women who wear and appear liberal write for the right-wing Jang newspaper. Is their sense of dressing any different to the one you saw in the social summit? And there was a speaker in the conference “ Mehmal Sarfaraz” who was wearing full covered scarf. Did you meet her, she writes for Friday Times, the most liberal of English press.
    My point is I didn’t find anything non Pakistani in the conference. If you were scared by Marvi Sirmed’s saari than lets just say Karachi used to be a hindu majority city before partition and hindus are very much part of Sindh’s social fabric so saari ( unstitched cloth ) being part of our culture ( Mohenjodaro priest wore a ajrak type unstitched thing in sari style, so lungi, saari, dhoti are part of our Indus culture which gave birth to Pakistan.
    Finally, I don’t understand what is the productive function of madressah graduates. Do we have many that many mosques and jamias which can absorb them after the talibans graduate ? Essentially, what these madaris graduate do is spin hatred, fatwas and violence towards women, shia and state.

    • حضور پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر سعودی عرب طالبان کی امداد کرتا ہے تو انکل سام سے پوچھیں کہ اتنا یارانہ کیوں ہے ان سے؟ کیا منافقت ہے بھئی، ایک طرف طالبان کو روکنے کے لیے بھان متی کے کنبے کو مزے کروارہے ہیں۔ امداد پہ امداد اور دوسری طرف طالبان کے سپورٹر سعودی عرب سے پکی دوستی۔ شاباشے بھئی۔۔۔
      پاکستانی فوج سوات سے طالبان اور فضل اللہ کو نکالے تو وہ افغانستان میں مزے کرے۔ فوج وزیرستان میں آپریشن شروع کرے تو سرحدی علاقوں سے ایساف اپنا بوریا بستر لپیٹ کر چلتا بنے تاکہ انکے ایجنٹوں کو وزیرستان سے واپسی پر مشکل نہ اور دوسری طرف نمونوں کی فنڈنگ طالبان کے خلاف۔ بہت خوب۔۔۔
      .
      دوسری بات یہ کہ روزنامہ جنگ رائٹ ونگ کا ترجمان نہیں ہے۔ وہ بزنس کررہے ہیں۔ جو سکہ رائج الوقت ہو وہی بات ہوتی ہے۔ کشور ناہید اور زاہدہ حنا وغیرہ کے نام پڑھ کر تو ہنسی آرہی ہے۔ نام نہاد ترقی پسند جنہیں موصوف رائٹ ونگ کا ترجمان بتارہے ہیں۔ کچھ مطالعے کی ضرورت ہے حضور، خاص کر تاریخ کی۔۔۔ 😉
      .
      وہ کیا کہتے ہیں کہ گرو-اپ یار، ساڑہی سے باہر نکل آئو، اس ملک میں بڑی تعداد میں خواتین ساڑھی استعمال کرتی ہیں۔ لیکن ان میں اور ماروی سرمد میں فرق ہے۔۔۔
      .
      ہمارے اسکولز اور کالجز، یونیورسٹیز کیا بنارہی ہیں۔ اس پر تو کوئی دورائے نہیں ہے۔ اطاعت اور حکم بجالانے والے کلرک۔ انگریزی استعمار کا بنایا نظام تعلیم اور کیا دے سکتا ہے۔ مدارس اور مولوی سے بڑی تکلیف ہے۔ بقول قدرت اللہ شہاب:
      یہ مولوی ہی ہے جس نے گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے حوض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور نہ کوئی تحریک ۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔۔ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد،ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد ہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھاہے۔ کوئی شخص وفات پا جاتا ہے ، تو یہ اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے ، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے ، کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی ، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی کہتاہے، یہ ملّا ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں ،برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔
      اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچنے کہ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟
      کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟
      .
      جو بیچارے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ پاکستانی اکثریت جمعے کی نماز نہیں پڑھتی کہ اتنی تو مسجدیں ہی نہیں ہیں۔ اب وہ ہمیں حق اور سچ کی تمیز سکھائیں گے۔ بڑا سروے کیا ہے انہوں نے کہ پاکستان میں اتنے بالغ مرد ہیں جن کے لیے اتنی مسجدیں کم ہیں۔ لولزززز
      نماز جمعہ کے وقت دفاتر یونہی سنسان ہوجاتے ہیں، دوکانیں اور کاروبار ایسے ہی آرام کے لیے بند ہوجاتے ہیں اور مساجد غیر مسلموں سے بھر جاتی ہیں کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ہو۔ اے ہمارے رب تیرا ہی آسرا ہے ورنہ انکل سام کے پیڈ پٹھو یہاں بہت ہے 😀

  27. محترم علی شاہد صاحب :
    میرے خیال سے آپکو مدارس کے بارے مزید جاننے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔جناب مدارس میں کراٹے تک نہیں سیکھائے جاتے اور آپ جہادی تربیت اور مار دھاڑ کی بات کررہے ہیں۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ جہادی سرگرمیوں میں ملوث اکثریت کا تعلق مدارس سے نہیں ہوتا، کیا مجھے آپ اسامہ بن لادن، ایمن الزہوری، ابومعصب الزرقاوی ، شیخ عمر اور الیاس کشمیری نے کس مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ مزید یہ کہ پاکستان کے اندر لشکر جھنگوی اور جند اللہ جیسی شدت پسند گروپ چلانے اور بنانے والوں کا بھی مدارس سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ مدارس کی رفاحی سرگرمیوں اور دیگر مثبت کاموں پر پھر کبھی تفصیل سے روشنی ڈالوں گا۔ باقی سوالات کے جوابات میں پہلے ہی دے چکا ہوں۔

  28. The participants of that conference included more than 50 percent women who do not offer prayers in mosques. So you would have to include that in expecting attendance at the mosque.
    Secondly, tell me does right wingers have any known female columnists who fulfill your criteria of Pakistaniyat.
    Thirdly, mullahs are infamous for being paedophiles. Usually they are people of low intelligence and morality who cannot find productive jobs therefore they make bread and butter through this easy one. Islam’s rationality has to be expressed through forward thinking individuals of high morality and intelligence who are given threats like Ghamdi and Justice Javed Iqbal.

    The kind of indoctrination and institutionalized torture prevalent in madressahs instill values of violence, sadism and alienation among them. They dont necessarily learn karate but what they do learn is a narrow world view, intolerance, and ofcourse inclination towards domestic violence, homosexuality and anarchy.

    • کیا بات ہے بھائی جان یعنی اسلام خواتین پر نماز فرض نہیں کرتا بہت خوب لولززززز۔۔۔
      تھوڑا مطالعہ کرو اسلام کا، اب ماروی سرمد کا اسلام تو ایسا ہی ہوگا۔
      رائٹ ونگ یا اسلام پسند کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شٹل کاک برقے میں ملبوس خواتین۔ اگر اسلامسٹ پرنٹ میڈیا میں نہ ہوتے / ہوتیں تو یہ آج کے انکل سام کے چمچے ان سے تھر تھر کانپ نہ رہے ہوتے۔ ایسے ہی افغانستان انکل سام سے پہلے کے آقا سوویت یونین کا قبرستان نہیں بنا 😉
      اسلام پسندوں کی انٹیلجنس کو چھوڑو، تمہارے تبصروں سے تو تمہارے آئی کیو لیول کا خوب پتہ چل رہا ہے۔ بیچارے پست ذہنیت لوگ۔۔۔

  29. Please read carefully. I said Pakistani women do not offer friday prayers in mosque. Secondly, I asked any female columnist in Ummat, Jang who fulfils your criteria of pakistaniyat.

  30. Thanks for your time and patience. Kashif bhai and Waqar bhai
    Please accept your inaccuracy,, as you have accepted your vulgarity and personal attack towards Sabeen Mahmud already.
    Thanks.

  31. @ علی شاہد صاحب : تحریر پڑھنے اور تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ۔

  32. well said…

  33. Well written article, Allah kare zore Qalamr or ziaada

Leave a Reply to عمران اقبال Cancel reply