امریکی ’’ڈھول سپاہی‘‘، پیمپرز اور پتھر کا دور

خبر ہے کہ امریکہ بہادر اور نیٹو کے فوجی پیمپر باندھ کر لڑتے ہیں۔ کیوں جب ’’سپر پاور‘‘ کے ان ’’بہادر‘‘ اور ’’جانباز‘‘ سپاہیوں کا طالبان اور مجاہدین سے سامنا ہوتا ہے تو ان کا پیشاب اور۔۔۔۔۔ خطا ہوجاتاہے۔ بڑی حیرت انگیز خبر ہے لیکن سچ ہے۔ اب حقیقت کھلی کہ یہ ہے وہ ’’سپر پاور‘‘ کی ’’توپ‘‘ قسم کی فوج جس سے جنرل پرویز مشرف اور ان کے اس وقت کے نفس ناطقہ شیخ رشید احمد قوم کو ڈرایا کرتے تھے کہ اگر امریکہ سے پنگا لیا تو وہ ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دے گا۔

اب ذرا تصور تو کریں کہ اس وقت کیا عالم ہوتا ہوگا جب امریکہ کے یہ ’’ڈھول سپاہی‘‘ طالبان کی تلاش میں نکلتے ہونگے اور طالبان کا سامنا ہوتے ہیں ان کی پینٹ’’گیلی‘‘ ہوجاتی ہوگی۔ خبر کے مطابق امریکی حکام نے پاکستانی حکومت سے درخواست کی ہے کہ کم از کم پیمپرز تو فوری طور پر روانہ کئے جائیں جبکہ خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ یہ ’’بہادر‘‘ فوجی بکتربند گاڑیوں میں ہونے کے باوجود رفع حاجت کے لئے باہر نہیں نکلتے بلکہ وہیں فارغ ہوتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ہنسنے کی بات ہے لیکن دراصل یہ عبرت کا مقام ہے کہ دنیا کی سپر پاور کہلانے والی اور دنیا کے ہر معاملے میں چوہدری کا کردار ادا کرنے والے ملک کے فوجیوں کی ہمت اوردلیری کا یہ حال ہے کہ وہ آرام سے رفع حاجت بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔۔۔

بات یہ ہے کہ جدید اسلحہ، مادی وسائل اور کثیر تعداد میں ہونا ایک اور بات ہے لیکن بہادری اور دلیری کا تعلق اخلاقیات سے ہوتا ہے۔ اس خبر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکیوں کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ وہ افغانستان کے نجات دہندہ نہیں بلکہ قابضین ہیں، اسی وجہ سے ان کے اندر وہ اخلاقی جرأت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بہادری نہیں ہے۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ وہ جن سے مقابلہ کرنے آئے ہیں وہ اس گھر کے مالک ہیں اور کوئی چور یا قبضہ گیر چاہے کتنا ہی طاقتور اور با اثر کیوں نہ ہو اس کے دل میں چور تو ہوتا ہی ہے۔

اس کے برعکس مجاہدین (طالبان) یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ عددی برتری، مادی وسائل کی کثرت کے باوجود اللہ تعالیٰ حق کیساتھ ہے۔ وہ اسلام کی تاریخ سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں کہ کس طرح 313 نے 1000 کے لشکر کو شکست دی، کس طرح 10ہزار نے تبوک کے میدان میں لاکھوں کے لشکر کو للکارا تھا اور وقت کی سپرپاور روم کا لاکھوں کا لشکر مقابلے پر آنے کی ہمت ہی نہی کرسکا تھا۔ نصرت اور تائیدغیبی تو مجاہدین اور اہل ایمان کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ ذرا غور سے ان تصاویر کو دیکھئے۔۔۔

ایک جانب امریکہ اور ناٹو کے جدید اسلحے سے لیس وہ فوجی ہیں جنہوں نے مکمل حفاظتی لباس زیب تن کررکھا ہے، سر پر ہیلمٹ، سینے پر بلٹ پروف جیکیٹ، پتھریلے اور سخت راستوں پر چلنے کے لئے فل بوٹ، حتیٰ کہ گھٹنو ں اور کہنیوں پر حفاظتی پیڈز باندھے گئے تاکہ اگر کہیں زمین پر لیٹ کر آگے بڑھنا پڑے تو گھٹنے اور کہنیاں نہ چھلیں۔

طالبان مجاہدین تورابورا کے علاقے میں دشمن سے جھڑپ کے دوران (تصویر: اے پی)

ایک مجاہد صوبہ وردک میں اپنی مشین گن کے ساتھ (تصویر اے ایف پی)

اور اس کے بر عکس زرا مجاہدین کی تصاویر بھی دیکھیں، نہ کوئی ہیلمٹ، نہ بلٹ پروف جیکٹ حتیٰ کہ پیروں میں ایک جیسے جوتے تک نہیں لیکن پھر بھی اللہ کے راستے پر چلنے کے باعث، جہاد کی سنت کو زندہ کرنے کے باعث اللہ نے دشمنوں کے دلوں میں ان کا رعب ڈال دیا ہے اوران کو دیکھتے ہی امریکہ کے بہادر فوجیوں کا پیشاب خطا ہوجاتا ہے۔

تو جناب یہ ہے وہ توپ قسم کی فوج جس سے جنرل مشرف قوم کو ڈراتے رہتے تھے کہ اگر امریکہ کی بات نہ مانی تو وہ ہمیں پتھر کے دور میں پہنچا دے گا۔ اور پھر یہ ہوا کہ پتھر کے دور سے بچنے کے لئے ہم امریکہ اور مغربی اقوام کے سامنے جھکتے چلے گئے، جہاد کو دہشت گردی، مجاہدین کو دہشت گرد کہا جانے لگا۔ دین پر عمل کرنا مشکل بنایا جانے لگا، نام نہاد روشن خیالی کا تصور پروان چڑھایا جانے لگا۔ دینی رجحان رکھنے والے ڈاکٹرز، انجنیئرز اور تاجروں کو ماورائے عدالت ایجنسیوں کی حراست میں لیا جانے لگا ( اور درجنوں ایسے افراد آج بھی لاپتہ ہیں جن کی بازیابی کے لئے سپریم کورٹ میں کیس داخل کیا جاچکا ہے)۔ پتھر کے دورمیں جانے سے بچنے کے لئے کشمیر کاز کو چھوڑ دیا گیا، کشمیر پالیسی پر یو ٹرن لیا گیا، بھارت کو لچک دکھائی جانے لگی، اس قدر لچک کہ اب ان کی ثقافت ہمارے گھروں میں داخل ہوگئی ہے اور ہمارے نوجوان کمر لچکانے لگے ہیں۔ یہ سارے کے سارے کام اس امید پر کئے گئے تھے کہ ان سب کے عوض ملک میں خوشحالی آئے گی، قرضوں سے نجات ملے گی، کشمیر کو آزادی نصیب ہوگی اور ملک کی سرحدیں محفوظ ہونگی اور امن و امان کی صورتحال مستحکم ہوگی، دنیا بھر کے ممالک میں ہمارا ’’سافٹ امیج‘‘ اجاگر ہوگا۔ لیکن یہ سارے کام کرکے بھی ہم کچھ بھی حاصل نہ کرپائے۔

آئیے ذرا ایک انمول حدیث قدسی کا مفہوم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اللہ تعالیٰ انسان سے فرماتا ہے کہ اے ابنِ آدم! ایک میری چا ہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے، ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔ پس اگر تْو نے سپْرد کردیا خود کو اْس کے جو میری چاہت ہے تو وْہ بھی میں تْجھے دْوں گا جو تیری چاہت ہے۔ اگر تْو نے مخالفت کی اْس کی جو میری چاہت ہے، تو میں تھکا دْوں گا تْجھ کو اْس میں جو تیری چاہت ہے۔ ہوگا پھر وْہی جو میری چاہت ہے۔

اور واقعی اللہ کا وعدہ سچا ہے ’’ اگر تْو نے مخالفت کی اْس کی جو میری چاہت ہے، تو میں تھکا دْوں گا تْجھ کو اْس میں جو تیری چاہت ہے۔‘‘ہم نے اللہ کی نافرمانی کی راہ اختیار کی اور ترقی کرنا چاہی، استحکام پیدا کرنا چاہا، معیشت مضبوط کرنا چاہی، خزانہ بھرنا چاہا، کشمیر آزاد کرانا چاہا لیکن کچھ بھی حاصل نہ ہوا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمادیا کہ ’ہوگا وہی جو میری چاہت ہے‘‘ آج ہم امریکہ اور صلیبی افواج کا ساتھ دینے کے باوجود پتھر کے دور میں پہنچ چکے ہیں۔ جی ہاں سوچیں اور غور کریں کہ کیا پتھر کے دور میں یہی کچھ نہ ہوتا تھا کہ کسی کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے اور لوگ باگ چھین چھپٹ اور شکار کرکے اپنا پیٹ بھرتے تھے، آج ملک میں بیروزگاری ہے، چوری، ڈاکے، موبائل چھننے کی وارادتیں ہیں چھینا چھپٹی ہے۔ پتھر کے دور میں بجلی نہیں ہوتی تھی اور آج ہم بھی بجلی کی قلت کا رونا رو رہے ہیں، صنعتیں بند ہورہی ہیں، پتھر کے دور میں گیس نہیں ہوتی تھی بلکہ لوگ باگ لکڑیاں وغیرہ جلا کر اپنا کام چلایاکرتے تھے، آج ہم گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کررہے ہیں، آج ہمارے چولہے بجھے ہوئے ہیں۔ ذرا خبارات پر ایک نظر تو ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر اخبار میں یہی خبریں ہوتی ہیں کہ فلاں جگہ گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث مظاہرے ہورہے ہیں، فلاں جگہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف لوگ جمع ہوگئے، فلاں علاقے کے صنعت کاروں نے مظاہرہ کیا، فلاں علاقے میں صنعتیں بند ہونے سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہوگئے۔ ہماری سرحدیں پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہیں، ہماری معیشت دگرگوں ہے، آج ڈالر91 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، قرضوں کا حجم بڑھتا چلا جارہا ہے اور ایٹمی پروگرام خطرات کی زدمیں ہے اور ان سب کے باوجود دنیا بھر میں ہمارا امیج کیا ہے؟ ایک دھوکے باز ریاست کا امیج، ایک دہشت گرد ملک کا امیج۔

سوچیں اور غور کریں کہ کیا امریکہ کی مخالفت کرکے اس سے زیادہ نقصان ہوسکتا تھا؟
ہمارے خیال میں تو ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس ہوتا، ہمارے پڑوس میں ایران امریکہ کو للکارتا رہتا ہے، امریکہ اور اس کے حواری آئے دن ایران کو دھمکاتے رہتے ہیں لیکن وہ ان کی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتا، تو کیا وہ پتھر کے دور میں پہنچ گیا؟جی نہیں۔

بے سروسامان مجاہدین نے آج امریکہ غرور خاک میں ملا دیا ہے،وہی امریکہ جس کے لئے ملا عمر دنیا کے مطلوب ترین افراد میں سے ایک تھا اسی امریکہ نے ملا عمر کا نام مطلوب ترین افراد کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ آج طالبان کو قطر میں دفتر کھولنے کی اجازت دی جارہی ہے تاکہ وہاں موجودہ امریکی سنٹرل کمانڈ آفس طالبان سے بہ آسانی اور براہ راست رابطہ کرسکے اور واپسی کی بھیک مانگ سکے لیکن طالبان اسے یہ بھیک دینے کو تیار تو ہیں لیکن اپنی شرائط پر، حال ہی میں امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کے بعد گوانتاناموبے میں قید پانچ طالبان کمانڈرز کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور عین ممکن ہے کہ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں اس وقت ان کمانڈرز کو رہا کردیا گیا ہو۔ آج رحمان ملک صاحب کبھی طالبان سے اپیل کرتے ہیں اور کبھی ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے مائی باپ امریکہ نے بھی تو طالبان کی حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے۔

امریکہ تو اس خطے سے جارہا ہے اور اس کو جانا ہی ہے لیکن اصل مسئلہ تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے پرائی جنگ میں اپنے لوگوں کو قتل کیا، جو امریکی تہذیب و ثقافت کی غلاظت روشن خیالی کے نام پر یہاں پھیلانا چاہ رہے تھے، جنہوں نے امریکہ کے ہر ہر اقدام کی حمایت کی۔ اب ان کو یہ فکر لگ گئی ہے کہ اگر امریکہ چلا گیا تو ہمارا کیا ہوگا؟ کچھ نہیں ہوگا! وہی ہوگا جو اللہ چاہے گا۔

’’اللہ تعالیٰ انسان سے فرماتا ہے کہ اے ابنِ آدم! ایک میر ی چا ہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے، ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔ پس اگر تْو نے سپْرد کر دیا خود کو اْس کے جو میری چاہت ہے تو وْہ بھی میں تْجھے دْوں گا جو تیری چاہت ہے۔ اگر تْو نے مخالفت کی اْس کی جو میری چاہت ہے، تو میں تھکا دْوں گا تْجھ کو اْس میں جو تیری چاہت ہے۔ ہوگا پھر وْہی جو میری چاہت ہے۔‘‘

فیس بک تبصرے

امریکی ’’ڈھول سپاہی‘‘، پیمپرز اور پتھر کا دور“ پر 22 تبصرے

  1. بہت اعلیٰ جناب ….امریکیوں کی بزدلی کی داستانیں تو بہت پڑھی ہیں لیکن اس بار جو مرچ مصالحہ لگا ہے اسکا جواب نہیں ہے. اس بارے میں سب سے پہلی خبر قرآن اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور مومنین کو خاص طور پر انکی “چلت پھرت” سے مرعوب نا ہونے کی تلقین کی ہے کیونکہ کفر اور کافر ظالم تو ہوسکتا ہے بہادر نہیں.
    بہت مزہ آیا مضمون پڑھ کر. جزاک اللہ

  2. ہم جسے بزدلی سمجھ رہے ہیں کہیں وہ ان کی تکنیک ہی نہ ہو؟! اصل میں آپ کی یہ تنقید ہمارے احساس کمتری کی عکاس ہے جب ہم زندگی کے عملی میدانوں میں اپنے آپ کو ان ترقی یافتہ قوموں سے بہت پیچھے پاتے ہیں تو پھراس طرح کی باتیں ہمارے احساس کمتری کے لیے مرہم کا کام کرتی ہیں ہم اگر اپنے ارد گرد نظریں دوڑایں تو جو سائنس کی لاجواب ترقی نظر آتی ہے اس میں ہم مسلمانوں کا کتنا ہاتھ ہے یہ تو سب جانتے ہی ہیں اور آچ میں، آپ اور ہم سب سائنس کی پیدا کردہ دنیا میں رہ رہے ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس ترقی کے پیچھے ایک بہت ہی زبردست، منظم اور مربوط نظام ہے جس میں خود کو بدلنے اور بہتر بنانے کی بے انتہا صلاحیت موجود ہے۔ اب ہم سائنس کے لاتعدار کرشموں کو دیکھ کر اس نظام کی منطقی حیثیت کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں اور یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب یہ نظام ایک فوج کے پیچھے کارفرما ہو گا تو کیسے نتائج برآمد ہوں گے۔
    ہمارے پاس تو اپنے ہتھیار بھی نہیں کلاشنکوف کیا ہم نے ایجاد کی تھی؟ اگر ہم افواج پاکستان کے پاس موجود ہتھیاروں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ تمام کام کی چیزیں امریکن ہی ہیں۔ تو ہمارے پاس لے دے کر صرف ایک جذبہ ہی رہ جاتا ہے تو ظاہر ہے ہم اسی کے ترانے گايں گے۔

    • مرزا صاحب۔ آخر مسلمانوں کو ہتھیار بنانے سے کس نے روکا ہے۔اگر ہماری کلاشنکوف امریکہ سے بہتر ہو تو مسلمان کبھی بھی دوسروں کا ایجاد کردہ ہتھیار استعمال نہیں کریں گے۔اگر یہ لڑنے والے ہتھیار بھی بنائیں تم کالج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلمانوں کی بھی کچھ ذمہ داری ہوگی یا نہیں۔وہ نہ لڑ رہے ہیں نہ ہتھیار بنا رہے ہیں۔ دہرے مجرم۔ یہ کم از کم لڑتو رہے ہیں۔ ہم سے اگر ہوسکتا ہو تو ہتھیار ایجاد کر کے انکی پشت مضبوط کریں ۔صرف نوکریاں حاصل کرنے اور دفتروں میں بیٹھنے کیلئے تعلیم حاصل نہ کریں۔گویا تقسیم کار رہے گا۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ محاذ پر ہوگا اور دوسرالیبارٹری میں رہ کر انکی محاذی صروریات کی تکمیل کرے گا۔پہلا طبقہ تو اپنا کام کر رہا ہے مگر دوسرا طبقہ اپنی ہی عیاشیوں میں مصروف ہے۔ذرا انکو خواب خرگوش سے جگائیے

    • السلام و علیکم
      برادر غلام عباس مرزا، شرمندہ اور زچ تو دشمن کو ہونا چاہیے اپنی کمزوری اور بے بسی پر، کلاشنکوف اسکی ایجاد اور استعمال ہم کررہے ہیں۔ یعنی میری بلی مجھے میائوں۔ مومن کے لیے تو دنیا مسخر کردی گئی ہے۔ اب یہ اسکی خوش قسمتی کے اسکو بنی بنائی گن مل جائے۔ آپ کو کیوں اعتراض ہے؟ مقصد تو حاصل کررہے ہیں نا ہم۔ دشمن ذلیل ہورہا ہے افغانستان میں اور بے چین ہے بھاگنے کے لیے۔ دیکھیے دشمن کی گن اس پر اسی طرح استعمال ہورہی ہے جیسے فرعون نے حضرت موسیٰ کو پالا تھا بچپن سے اور وہی اس کی حکومت کے زوال کا باعث بنا۔ فرعون کو کتنی بے چینی ہوئی تھی اور وہ کتنا جزبز ہوا تھا اس بات پر۔ تو یہ تو سائیکولوجیکل وارفیئر ہوتی ہے۔ آپ دشمن کو اسکا اپنا ہاتھ دیکھا دیتے ہیں اسکی شکست میں۔ بھائی احساس کمتری تو آپ کے تبصرے سے جھلک رہی ہے۔ ہمارے پاس جزبہ ہے جو انکے پاس نہیں تو آپ اس پر کیوں خوش نہیں۔ ایک امریکی جنرل نے کہا تھا کہ ہم اُس آدمی کو کیسے شکست دے سکتے ہیں جس پر اگر گن تانی جائے تو اسکو اسکی نال میں سے جنت نظر آتی ہے!

      ویسے اس ٹیکنیکل ترقی کے پیچھے بھی مسلمانوں کا ہی ہاتھ ہے۔ انہوں نے عربی سے لاطینی میں ترجمہ کرلیا سب کچھ جیسے الجبرا، کیمیا وغیرہ۔ یعنی برین کی کمی نہیں ہے ہمارے پاس بس آج کل ہم ذرا قتال میں مصروف ہیں۔ جب امن قائم ہوجائے گا تو دیکھنا کیسے ہم انسانیت کی خدمت کے لیے ٹیکنالوجیکل جہاد کرینگے۔

      اور ہاں آپ نے کبھی کسی باورچی کو بادشاہ کا مذاق اڑاتے دیکھا ہے کہ بڑے بادشاہ بنے پھرتے ہو، کھانا تو میرا پکا ہوا کھاتے ہو، کبھی خود بھی پکایا کھانا؟ 🙂

    • غلام عباس ،
      اگر آپ شیعہ ہیں تو ہمیں آپکے جذبات کا بخوبی اندازہ ہے اور افغانستان میں امریکی شکست اور طالبان کی فتح کے غم کو ہم سمجھ سکتے ہیں۔

  3. ویسے وہ پیمپر کا سائز کونسا پہنتے ہوں گے؟ ٹرپل ایکس ایل؟

  4. مودبانہ عرض ہے قرآن حکیم حکمت کا درس دیتا ہے اور پاک بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فیصلے میں کمال حکمت نظر آتی ہے۔ نبوت کے ابتدائی سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفیہ تبلیغ اور صحابہ اکرام کے ساتھ گھاٹیوں میں چھپ کر عبادت کرنا اور مخالفین کے ساتھ ٹکراؤ سے بچنا، ہجرت کرنا، غار ثور میں تین راتیں چھپ کر گزارنا، مدینہ پہنچ کر طاقت اور فائدے کے لیے کئی غیر مسلم قبائل سے دوستی کرنا صلح حدیبیہ اور جنگ سے بچنے کے لیے راستے بندلنا، غزوہ احزاب میں سلمان فارسی کی تجویز پر حند‍ق کھودنا اور ایسی کئی اور مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یعنی جنگ ہر مسئلے کا حل نہیں۔ اس لیے اسلام جوش سے نہیں بلکہ حکمت سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے۔ اگر دو سو بندے بھی چلتی ٹرین کے سامنے کھڑے ہو کر “بہادری اور شجاعت” سے اسے روکنے کی کوشش کریں تو نہیں روک سکتے بلکہ کچلے جایں گے اور اگر صرف ایک آدمی بھی کسی ہتھیار کی مدد سے ٹرین کی پٹڑی کے نٹ بولٹ کھول دے تو ساری ٹرین کو تباہ کر سکتا ہے یہ ہے حکمت!
    میرا مقصد یہ تھا کہ ہمیں موجودہ دور کے تقا‍ضوں کو سمجھنا چاہیے۔ اور محض جذبے کے زور پر امریکہ کو تباہ و برباد کرنے اور ساری دنیا پر چھا جانے کے فضول خیال کو ترک کر کے حکمت سے کام لینا چاہیے
    سائنس کی اہمیت پر ابامہ نے برسراقتدار ہوتے ہی کہا تھا “ہمیں جتنے بھی چیلنجز کا سامنا ہے اور ہماری جتنی بھی مشکلات ہیں چاہے ملک کی حفاظت ہو، عسکری ترقی ہو، بیماریوں کا علاج ہو، بے روزگری کا خاتمہ ہو گلوبل وارمنگ ہو ان سب چیزوں کا حل سائنس کے پاس ہے اور میری سب سے پہلی ترجیح سائنس کی ترقی اور ترویج ہو گی۔
    اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری مسجدوں کے خطبات میں بڑے بڑے مذہبی احتماعات اور محافل میں جہاں امریکہ کو کچلنے کی باتیں تو ہوتی ہیں اور ان کی تباہی کے لیے دعایں مانگی جاتی ہیں وہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترویج پر کہاں تک زور دیا جاتا ہے؟ تو آپ ہی بتایں یہ کام کون کرے گا؟ اور کون سا کام ذیادہ ضروری ہے؟
    میرے خیال میں کلاشنکوف چلانے سے کہیں بڑے محاذ ہمارے سامنے ہیں جہالت کی شکل میں بھوک ننگ کی شکل میں اور معاشرے کی اخلاقی بدحالی کی شکل میں ہمیں پہلے ان پر توجہ کرنی چاہیے۔ ہاں اپنے گھر کی حفاظت کے لیے تو خالی ہاتھ بھی لڑنا ہی پڑتا ہے لیکن اس سے سبق سیکھ کر اپنی حفاظت کا بندوبست کرنا چاہیے۔
    جہاں تک اس پیمپر والی خبر پر خوش ہونے کی بات ہے تو عرض ہے آچ کے جدید جنگی جہازوں کو اڑانے کے لیے ایسے سافٹ وئیرز کا استعمال کیا جاتا ہے جو جہاز کے اڑانے کا ذیادہ سے ذیادہ کام سمبھال سکیں تاکہ پائلٹ جہاز اڑانے سے ذیادہ اپنے مشن پر توجہ دے سکے اسی طرح پیشاب کی حاجت فوجی کے مشن کو ڈسٹرب کر سکتی ہے اور پیمپر اسے ڈسٹربنس سے بچا سکتا ہے۔

    • حضوروالا عرض ہے کہ قرآن حکیم یقیناً حکمت کا درس دیتا ہے لیکن ساتھ ہی بیغیرتی سے بچنے اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ آپ تو اپنے مطلب کے لیے نہ جانے کہاں کہاں کی تاویلات کو گڈمڈ کررہے ہیں۔ نبوت کے ابتدائی سالوں میں اور غار ثور میں جب رسول خدا اور ساتھیوں کی خود جانوں پر بنی تھی چھپ کر گذارنے کی مثالوں کا اس پوسٹ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ حکمت کی باتوں کے دوران آپ ان واقعات کو بھول ہی گئے جس میں ایک صحابی کا تو بڑا مشہور واقعہ ہے کہ جب وہ اسلام لائے تو لوگوں نے انہیں کہا کہ خانہ کعبہ میں جاکر کسی کو نہ بتانا لیکن اس پر انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم میں اعلی الاعلان کہونگا اور پھر خانہ کعبہ میں پہنچ کر اللہ اکبر کہا تو مشرکین مکہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ قصہ مختصر شدید زدو کوب ہونے کے بعد جب واپس ہوئے اور کسی نے کہا کہ دیکھا تمہیں منع کیا تھا نا؟ تو انکا جواب تھا کہ خدا کی قسم کل پھر یہی حرکت کرونگا اور اگلے دن پھر پہنچ کر نعرہ مستانہ بلند کیا۔ رسول خدا نے ان پر سلام بھیجا۔

      اور کبھی غور کیا کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ کے اسلام لانے کے بعد ایسی کیا جوہری تبدیلی واقعہ ہوگئی کہ وہ مسلمان جو چھپ کر نمازیں پڑھتے تھے خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنے لگے؟ کیا سائنسی ترقی عمر ساتھ لائے تھے؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے اور ایک خلقت آپ کے گرد جمع ہوگئی تو آپ نے سب سے پہلے ایک ریاست کی بنیاد رکھی اور آس پاس کے تمام یہودی قبائل کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا۔ آپ کو اس معاہدے میں کمزوری نظر آرہی ہے تو آپ کو چاہیے کہ ذرا دوبارہ اس کا مطالعہ کریں کیونکہ اس کی رو سے تمام معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو ہی آخری فیصلہ تسلیم کیا گیا۔ یعنی اختیار مسلمانوں کا۔

      ایک اور بات گوش گزار کرنا چاہونگا کہ اگر تاریخ سے کچھ شغف ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بندوق اور توپیں مسلمانوں ہی کی ایجاد ہیں اور سب سے پہلے بارہویں صدی عیسوی میں عربوں نے اسے استعمال کیا۔ ہمارے ہاں آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی آمد کو رحمت سے تعبیر کرتے نہیں تھکتے۔ دن رات یہی پروپگینڈا ان کی گھٹی میں پڑا ہے کہ جی مسلمان تو بس عیاشیاں کرتے رہے اور بس دشمن کے غارت ہونے کی دعا ہی کرتے رہے۔ تاکہ نسل نو کو شرمندہ اور احساس کمتری میں مبتلا رکھ کر اپنے آقائوں کی تہذیب کو بالادست ثابت کرسکیں۔ وہ ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ جہاں خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ ایک شخص عبدالغفور کے اثاثے ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ تھے۔ بنگال کے جگہت سیٹھ فیملی کے پاس بینک آف انگلینڈ سے زیادہ سرمایہ تھا۔ 1757 میں جنگ پلاسی کی لوٹ مار سے جو سرمایہ حاصل ہوا وہ پورے ہورپ کی جی ڈی پی سے زیادہ تھا۔ کیپٹن الیگزینڈر ہملٹن محمد تغلق کے زمانے کی روداد لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ صرف دلی شہر میں دس ہزار اسکول و کالج موجود تھے اور پورے شہر میں ستر بیمارستان یعنی ہسپتال تھے۔ بنگال میں چالیس ہزار اسکول اور کالج تھے جن میں کسی میں بھی چار سو سے کم طالب علم نہ تھے۔ دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل انڈسٹری برصغیر میں تھی۔ اور یہی حال جہازرانی کے شعبے کا تھا۔ برصغیر کی درآمدات ان ادوار میں کبھی بھی درآمدات سے زیادہ نہیں ہوئی۔

      لارڈمیکالے نے 1835 میں برطانوی دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے اسکی تصدیق کی کہ میں نے ہندوستان کے طول عرض میں سفر کیا ہے اور مجھے کسی جگہ کوئی فقیر نظر نہیں آیا اور کہیں کوئی چور دکھائی نہیں دیا۔ یہ وہی لارڈ میکالے ہیں جن کا بنایا ہوا نظام تعلیم آج بھی اس ملک میں نافذ ہے جو اطاعت کے لیے صرف کلرک ہی پیدا کرتا ہے۔ اور اسی نظام تعلیم کے پروردہ بیچارے عام زندگی میں سائنس کی ترقی کا رونا روتے ہیں۔

      میں تو صرف یہ پوچھتا ہوں کہ کیا ملا آپ کو سائنس کی تعلیم سے منع کرتا ہے؟ اس ملک کے کتنے فیصد بچے دنی مدرسوں میں جاتے ہیں اور کتنے فیصد اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں اور پھر ان سے نکل کر کیا تیر مارلیتے ہیں؟ بجائے اسکے کہ اپنی خامیوں کو سدھاریں اور نظام کو بدلنے کی کوشش کریں یارلوگ مجاہدین کی ٹانگیں کھنچنے اور انہیں جاہل، اجڈ، گنوار اور حکمت سے عاری قرار دینے میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ بہت خوب۔

      آپ کے استدلال سے میں تو یہی سمجھ رہا ہوں کہ افغانوں کو اپنے ملک کو آزاد کرنے سے پہلے سائنس میں ترقی کرنی چاہیے تب ہی وہ امریکا کو نکال باہر کرسکیں گے۔ یعنی جب تک انکو جنگی جہازوں کے مقابلے کے لیے جنگی جہاز نہ ملیں۔ ڈرون کے مقابلے کے لیے ڈرون نہ تیار کرلیں، ٹینکوں اور بکھتربند کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹینک اور بکھتربند گاڑیاں نہ بنالیں۔ وغیرہ وغیرہ اس وقت تک مقابلے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ شاید لوگ روس کا حشر بھول گئے ہیں۔ لیکن روس کا ذکر آتے ہیں یار لوگ امریکی امداد کا واویلا کرنا شروع کردینگے تو جناب اگر تمام امریکی امداد اور روسی ٹینکالوجی کا موازنہ کیا جائے تو کیا مجاہدین کے پاس برابر کی قابلیت تھی؟ کیا مگ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کے مقابلے کے لیے یہی سامان حرب انکے پاس بھی تھا؟ پتہ نہیں روسی پیمپر پہنتے تھے یا نہیں۔۔۔۔ 😉

      جہاں تک جنگی جہازوں کو اڑانے اور فضائی مہم جوئی کی بات ہے تو شاید آپ کو اس بابت تھوڑا اور مطالعے کی ضرورت ہے۔ یہ جہاز دس ہزار میل دور سے پرواز کرکے نہیں آتے کہ جنہیں ٹارگٹ تک پہنچنے کے لیے 10 سے پندرہ گھنٹے چاہیے ہوں۔ اگر کوئی طیارہ بگرام کے ہوائی اڈے سے پرواز کرے تو اسے افغانستان کے طول عرض میں کہیں بھی پہنچنے کے لیے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا۔ اب اتنے کم وقت کے لیے بھی پیپر کا استعمال تو جاہلانہ ہی ہے۔ ہاں اگر بکھتربند گاڑیوں میں دشمن کے علاقے میں شیر بن کر پھرنا ہو تو یقیناً اس کے لیے ان شیروں کو پیمپر کی ضرورت پڑیگی۔۔۔ 😆

  5. اگر میرے تبصرے میں کوئی املاء کی کوئی غلطی ہو تو برائے مہربانی اسے نظر انداز کیا جائے!

  6. اسّلام و علیکم

    بھائی ہمارا زمانہ پچھلا زمانہ ہے نہ کے پہلا ، تو آپکی تو مثال ہی غلط ہو گئی ،ینی نبوت کے ابتدائی سالوں والی .
    الله کریم ارشاد فرماتے ہیں:
    :

    10 وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ

    11 أُولَـٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ

    12 فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ

    13 ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ

    14 وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ
    سورة الواقعة

    10 اور سب سے اول ایمان لانے والے سب سے اول داخل ہونے والے ہیں

    11 وہ الله کے ساتھ خاص قرب رکھنے والے ہیں

    12 نعمت کے باغات ہوں گے

    13 پہلوں میں سے بہت سے

    14 اور پچھلوں میں سے تھوڑے سے

    اور مولانا اباما کے فتوے آپکو مبارک ہوں ہم ان سے ہدایت لینے والوں میں سے نہی الحمدلللہ. وسے انکی پبلک تو ان سے خوش نہی ہے اور سڑکوں پر نکل آئی ہے
    لو جی اب آپ ہمیں گن چلانے سے بھی روک رہے ہیں ابھی تو ایجاد کرنے کا کہ رہے تھے . ویسے ہم بھوکے ننگے لوگ تو بوہت ہی اچھا جہاز اڑا یے گے- نہ پیٹ میں کھانا پینا نہ پمپر کی ضرورت 🙂
    بھائی اسلام میں با وضو رہنے کی اہمیت تو جنگ میں بھی فائدہ مند رہتی ہی اور جنگ بدر تو حالت روزہ لری گئی . تو کیسا اچھا ہو گا وہ مسلم پائلٹ جو روزے سے ہو اور با وضو بھی ہو . جو لوگ سا اینس کی طرف رجوع کرتے ہیں اسلام کی بجایے تو وہ انکو ایسا ہی نجس اور غلاظت سے بھرا بنا دیتی ہے

  7. مخترمہ ام عروبہ! ہم اسی طرح باتوں کی جنگ جوگے رہ گئے ہیں۔اور اپنی کمزوریاں ماننے کو تیار ہی نہیں۔ ورنہ لیبیا، عراق اور افغانستان کا حال ہمارے سامنے ہے۔
    میری باتوں سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت چاہتا ہوں!
    اللہ ہمارے حال پر رحم کرے!

    • محترم آپ کا انداز فکر اپنی کمزوریاں منوانا نہیں بلکہ عوام الناس کو احساس کمترمیں میں مبتلا کرنا زیادہ نظر آتا ہے۔ اپنی کمزوریوں کا ادراک حکومتوں کو کرنا ہے کہ وہ کس وجہ سے دفاع اور معیشت کے میدان میں پیچھے ہیں نہ کہ عوام انفرادی طور پر اس کا کھوج لگاکر اس پر قابو پائیں۔ ہاں اگر عوام میں یہ یہ شعور پیدا کیا جائے کہ کیسے لوگوں کو اقتدار حوالے کیا جائے تو یقیناً کچھ بات بن سکتی ہے لیکن یہ جو اخلاقیات اخلاقیات کا رونا ہمارے مغرب زدہ دانشور کرتے ہیں اس سے تو اب الرجی سی ہونے لگی ہے۔ اخلاقیات کی بات کریں تو آپ کہیں گے کے جناب شراب نواشی وغیرہ تو اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتیں انکے یہاں تو جناب بالکل ہم اسکو نہیں چھیڑتے لیکن اخلاقیات کے دوسرے معیاروں میں انکا اور ہمارا کیا مقابلہ؟

      اپنے انکل ٹام نے جو خود کینیڈا میں سکونت پذیر ہیں ہمارے دیسیوں کے گوروں کی اخلاقیات اخلاقیات کی گردان سن کر بلاخر اپنے دل کی بھڑاس یہاں نکالی ہے۔ ضرور پڑھیے گا۔
      http://www.silent-voice.ca/2011/07/pakistanio-ka-ahsas-e-kamtari/

      والسلام۔۔۔۔

  8. برادار وقار اعظم صاحب! میں آپ کے مطالعہ کی قدر کرتا ہوں اور جوابی حوالے دے کر شیخی بھگارنے سے پرہیز کرتے ہوئے صرف اپنے اپری تبصرے سے دو باتییں کاپی پیسٹ کرتا ہوں جس میں آپ کے دو بڑے سوالوں کے جواب ہیں 1۔ میرا اصل اعتراض کیا ہے؟ 2۔ کیا طالبان کو جنگ چھوڑ کر سائنس کی ترقی میں لگ جانا چاہیے؟

    “میرا مقصد یہ تھا کہ ہمیں موجودہ دور کے تقا‍ضوں کو سمجھنا چاہیے۔ اور محض جذبے کے زور پر امریکہ کو تباہ و برباد کرنے اور ساری دنیا پر چھا جانے کے فضول خیال کو ترک کر کے حکمت سے کام لینا چاہیے”

    “ہاں اپنے گھر کی حفاظت کے لیے تو خالی ہاتھ بھی لڑنا ہی پڑتا ہے لیکن اس سے سبق سیکھ کر اپنی حفاظت کا بندوبست کرنا چاہیے۔”

  9. وقاراعظم صاحب!
    میں ضرور پڑھوں گا انکل ٹام صاحب کو اور تبصرہ بھی وہیں کروں گا
    اللہ حافظ

  10. اسلام و علیکم
    اپنی ملّت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
    خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

    اگر افغانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
    کہ خون صد ہزارانجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

    یقین پیدا کر ا ے مرزا کہ مغلوب گماں تو ہے
    ——————————————————-
    اور وقار بھائی آپ نی تو محفل لوٹ لی ، ہمیں تو پتا بھی نہ تھا کہ اتنی جلدی اتنی اچھی کمک مل جا ے گی -خوشی ہوئی آپ سے مل کر .اپنی قماش کی آدمی لگتے ہیں آپ .اب تک کی خبر کی مطابق 🙂

    • آپ سے مل کر بھی خوشی ہوئی کہ آج کے اس دور میں ہماری بہنیں ہر محاذ پر اپنا کردار ادا کررہی ہیں. ویسے مراز صاحب بھی اپنے ہی بندے ہیں بس ذرا ٹیکنالوجی اور تیاری پر زور زیادہ ہے… 😀

  11. کل ایک امریکی فوجی جا رہا تھا پیدل پتہ نہیں نشے میں تھا موا۔ اسے ٹھوکر لگی اور منہ کے بل جا گر ناک سے خون کا فوارا جاری ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ہو جائے اس واقعہ پر ایک گراما گرم پوسٹ اور احباب کی واہ واہ۔۔ 😆
    معذرت چاہتا ہوں مذاق کیا ہے!
    😉

    • پینٹاگون کے دیسی ترجمان نے اس خبر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ فوجی ٹھوکر لگنے سے زخمی نہیں ہوا بلکہ اس کی ناک میں لگی مائکرو چپ جو انہیں حملہ آوروں کی بو کو محسوس کرنے میں مدد دیتی ہے کی خرابی کی وجہ سے دوران خون متاثر ہوا تھا۔ یاد رہے کہ مقامی ذرائع ابلاغ میں کل سے یہ خبر گردش کررہی تھی اور اس خبر پر یقین کرنے کی وجہ پاکستان کے راستے رسد کی بندش ہے۔ امریکی فوج کے لیے سب سے اہم پیپمر کی عدم دستیابی کی وجہ سے پہلے ہی امریکی فوجی شدید عصابی تنائو کا شکار ہیں جس کی وجہ سے انہیں دشمن کے علاقے میں رفع حاجب کے لیے بکہتر بند گاڑیوں کی پناہ سے نکلنا پڑتا ہے اور اسی نکلنے کے دوران ہوسکتا ہے کہ وہ چکرا کر گرپڑا ہو اور اسکی نکسیر پھوٹ گئی ہو۔

      مرزا صاحب آپ یہ خبر جاری کرنا بھول گئے شاید۔۔۔ :mrgreen:

  12. السلام عليكم
    بس وقار بھائی الله سے یہی دعا ہے کہ وہ اسلام کی سربلندی اور دین کے غلبے میں ہم سے بھی کچھ کام لے لے۔انگلی کٹا کر شہیدوں میں ہی شامل ہو جائيں۔ ویسے یہی ایک ماؤس ہے جس سے ڈرنے کی بجاۓ میں انگلیوں پرنچا سکتی ہوں 🙂
    مرزا بھائ اپنے ہی بندے ہیں مگر غیروں کی طرف داری چھوڑیں تو بات بنے 🙂
    ————
    مرزا بھائ اسے سامنے سے کوئ طالبان آتا ہوا نظر آگیا ہو گا:) لیجۓ لگا دی ہم نے گرہ آپکی فرمائش پر 🙂

  13. میری ہمدردیاں اپنے گھر کے لیے لڑنے والے طالبان کے ساتھ ہیں مگر جذبے کی نرم نرم حرارت میں سونے اور ساری دنیا کو فتح کرنے جیسے میٹھے خواب دیکھنے والوں کے بارے میں کیا کہیے؟ اللہ نہ کرے انہیں کسی بوٹ کی ٹھوکر سے جاگنا پڑے اور وہ بوٹ کسی آدمی کا نہیں بلکہ بلٹ پروف روبوٹ کا ہو 😐

  14. السلام عليكم
    ہاں جب پیمپر کی سپلائ بند ہو جاۓ گی تو مجبوا” انہیں روبوٹ ہی اتارنے پڑیں گے-
    آپ کفار کی سائنسی طرقی سے کسقدر مرعوب اور خوف زدہ ہیں۔جبکہ قرآن ہمیں سینکڑوں سالوں سے بتاتا ہے کہ حضرت سلیمان ءس کے زمانے میں ایک شخص جسکو کتاب کا علم دیا گیا تھا اس نے مائیکرو سیکنڈ میں ملکہ شیبا کا تخت ٹیلی پورٹ کیا تھا-
    یعنی جتنے پکے اور سچے اور حامل قرآن ہم لوگ ہوں گے اتنی ہی آسانی سے ہم دنیا تسخیر کریں گے۔

    کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
    مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق

    رہ گیا آپ کا ہم جیسوں کی کوششوں اور جذبوں کا مذاق اڑانا تو یہ پڑھۓمیرے پیارے امام انور العو لقی رح کی تحریر کہ جہاد کیسے ایک ٹیم ورک کا نام ہے۔ہر ایک کو اپنی جگہ اپنے حصے کی کوشش کرنی ہے۔
    http://www.facebook.com/notes/arslan-salafi/%D8%AC%DB%81%D8%A7%D8%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%B4%D8%B1%DA%A9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-44%D8%B7%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%92/139844119462292

Leave a Reply