جمہوریت ،الیکشن اور ہماری ٹائیں ٹائیں

الیکشن اور ضمنی الیکشن موجودہ جمہوریت کا تحفہ ہیں۔ عام انتخابات میں عوام ووٹ کے ذریعے نمائندوں کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ان کے مسائل حل کرسکےں۔( یہ الگ بات کہ ایسا ہو نہیں پاتا)۔جبکہ عام انتخابات کے بعد خصوصی صورتحال میں ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ضمنی انتخات منعقد کرنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔
۱ اگر الیکشن کمیشن امن و امان کی صورتحال کے باعث کسی حلقے میں پولنگ منسوخ کردے ۔
۲ اگر کوئی کامیاب امیدوار اپنی جیتی ہوئی نشست سے دستبردار ہوجائے۔
۳ اگر کامیاب امیدوار کی پارٹی اپنے نمائندے سے استعفیٰ لیکر اس سیٹ سے دستبردار ہوجائے
۴ اگر کسی حلقے کے انتخابی عمل پر اعتراضات اٹھائے جائیں اور اس کے خلاف عدالت میں پٹیشن دائر کردی جائیں
۵ اگر کسی حلقے کے کامیاب امیدوار کا خدانخواستہ انتقال ہوجائے یا پھر خدانخواستہ کسی معذوری کے باعث وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔
۶ اگر عدالت یا الیکشن کمیشن کسی کامیاب امیدوار کو کسی بھی وجہ سے نا اہل قرار دیدے
مذکرہ بالا کسی بھی صورت حال میں ضمنی الیکشن منعقد کرائے جاتے ہیں اور عوامی نمائدوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سنتا لیکن ہم پھربھی کرپشن،دھاندلی،اقربا پروری،اور جھوٹ کی سیاست کے اس نقار خانے میں طوطی کی طرح ٹائیں ٹائیں کرتے رہیں گے چاہے کسی پر اثر ہو یا نہ ہو،یہ سوچ کر کہ شائد کبھی تو ہماری یہ ٹائیں ٹائیںکامیاب ہوگی۔
آج ہماری ٹائیں ٹائیں کا موضوع یہی ہے کہ ضمنی الیکشن کیوں اور کس لئے منعقد کئے جائیں؟ اگر ضمنی الیکشن منعقد کرنا ناگزیر ہیں تو پھر کیا ضروری ہے کہ سرکاری خزانے پر ہی اس کا بوجھ ڈالا جائے؟ سرکاری خزانہ یعنی میری آپ کی جیبوں سے جبری طور پر لئے گئے ٹیکس کے پیسوں سے ان کرپٹ اور دو نمبر لوگوں کو اسمبلی میں بھیجنے کا عمل پورا کیا جائے ،جو جعلی ڈگریاں بناتے ہیں،جو لینڈ مافیا کو سپورٹ کرتے ہیں،جو فراڈ کے کیسوں میں ملوث ہوتے ہیں،جو اپنی کرپشن چھپانے کے لئے پولیس اور تھانوں پر بھی حملے کرتے ہیں اور پھر جب ان کرپشن ،اور فراڈ کے کیسوںمیں ان کو گرفتار کیا جائے تو بڑی ڈھٹائی اور بے غیرتی سے وکٹری کا نشان بھی بناتے ہیں ۔
دیکھیں کسی بھی حلقے میں انتخابات منعقد کئے جانے کی صورت میں کروڑوں روپے صرف کئے جاتے ہیں ، اس میں سب سے پہلے اس اسٹیشنری اور بیلیٹ پیپرز کی چھپائی کا خرچہ جو کہ انتخابات میں استعمال ہونگے۔ اس کے بعد عدالتی اور تعلیمی عملہ جو کہ پولنگ کے عمل میں الیکشن کمیشن کی معاونت کرے گا اس کے لئے اسپیشل الاوئنس کا خرچہ،پھر اس کے بعد پورے حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشنز کی سیکورٹی پر ہزاروں سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی اور ان کے اخراجات۔ یہ مجموعی طور پر کروڑوں کی رقم بنتی ہے جبکہ پارٹی اپنے امیدوار کو جب الیکشن میں کھڑا کرے گی توچایس پچاس ہزار روپے زر ضمانت جمع کراکے الیکشن میں حصہ لے گی۔
اب ہم اپنے پوائنٹ کی طرف آتے ہیں ۔دیکھیں ہمارے خیال میں اوپر تحریر کی گئی وجوہات میں سے صر ف پانچویں وجہ ایسی ہے کہ ضمنی الیکشن منعقد کئے جاسکتے ہیں جبکہ دوسری وجوہات میں ضمنی الیکشن معقد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اب ہم ترتیب وار تمام وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اگر کوئی کامیاب امیدوار اپنی جیتی ہوئی نشست سے دستبردار ہوجائے
ایسی صورت میں ضمنی الیکشن منعقد کرانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے ۔ہمارے یہاں عموماً یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی فرد بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیتا ہے۔ یا صوبائی اور قومی اسمبلی کے دو تین حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیتا ہے اول تو ایک امیداور کو ایک ہی حلقے سے انتخابات میں حصہ لینا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ایک فرد ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوچکا ہے اور قانون کے تحت وہ ایک ہی نشست اپنے پاس رکھ سکتا ہے اس لئے وہ ایک نشست سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ اب مجھے یہ بتائیں کہ اگر کسی فرد کو ایک حلقے کے عوام منتخب کریں اور ان کے مینڈیٹ کو ٹھکراتے ہوئے اس سیٹ سے دستبردار ہوجاتا ہے تو کیا وہاں دوبارہ انتخابات ہونے چاہئیں؟ ہمارے خیال میں تو نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ جب ایک فرد نے خود ہی ایک سیٹ چھوڑ دی ہے تو بجائے دوبارہ الیکشن کرانے کے اس سیٹ پر کامیاب امیدوار کے قریب ترین حریف کو کامیاب قرار دیکر وہ سیٹ دوسرے امیدار کے نام کردینی چاہئے۔ تاکہ اس رجحان کی بیخ کنی ہوسکے۔
اگر کامیاب امیدوار کی پارٹی اپنے نمائندے سے اسبملی کی رکینت سے استعفیٰ لیکر اس سیٹ سے دستبردار ہوجائے
یہ صورت حال بھی اوپر بیان کی گئی صورتحال سے مماثلث رکھتی ہے ا سلئے یہاں بھی دوبارہ الیکشن کرانے کے بجائے سیدھے سادے طریقے سے کامیاب امیدوار کے قریب ترین امیدوار کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے وہ سیٹ اس کے نام الاٹ کردئے ۔ کیونکہ کسی بھی پارٹی کو یہ حق نہیں ہے وہ عوام کے پیسوں سے یا سرکاری خزانے کے بل بوتے پر عوام کو اپنی مکروہ سیاست کی بھینٹ چڑھائے،سیدھی سی بات ہے کہ عوام نے ایک پارٹی پر اعتبار کیا اور اس کے جھنڈے تلے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کو اسمبلی میں پہنچایا،اب اگر وہ پارٹی عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے اپنے کامیاب نمائندے سے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ طلب کرلیتی ہے تو اب اس پارٹی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ دوبارہ اس سیٹ پر الیکشن کا کھڑاگ کرے بلکہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کی سزا یہی ہے کہ اس کے قریب ترین حریف کو وہ سیٹ دیدی جائے۔
اگر عدالت یا الیکشن کمیشن کسی کامیاب امیدوار کو کسی بھی وجہ سے نا اہل قرار دیدے۔
یہ تو ایسی صورت حال ہے کہ اس میں مزید کسی بات کی گنجائش ہی نہیں ہے۔صاف سی بات ہے کہ ایک فرد نے عوام کو،عدالت کو،الیکشن کمیشن کو دھوکہ دیا۔ وہ الیکشن میں حصہ لینے کے قابل ہی نہیں تھا لیکن نے جعل سازی سے الیکشن میں حصہ لیااور ایک اہل امیدوار کا حق مارتے ہوئے وہ اسمبلی میں پہنچ گیا۔ اب اس کی جعل سازی سامنے آنے کے بعد اس سیٹ پر تو دوبارہ انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اول تو اس فرد کے قریب ترین حریف کو کامیاب قرار دیکر سیٹ اس کے حوالے کی جائے۔ دوم اس فرد کے اوپر نہ صرف قید بلکہ جرمانے کی سزا بھی عائد کی جائے اور اگر الیکشن کمیشن اس حلقے میں ضمنی الیکشن کراناضروری سمجھتا ہے تو اس کے تمام اخراجات فراڈی اور جعل ساز امیدوار سے وصول کئے جائیں۔ جبکہ فراڈی امیدوار کی پارٹی کو بھی اس حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے نا اہل قرار دیدیا جائے تاکہ اس پارٹی کا کوئی بھی فرد کم از کم اس حلقے سے الیکشن میں حصہ نہ لے سکے
گر الیکشن کمیشن امن و امان کی صورتحال کے باعث کسی حلقے میں پولنگ منسوخ کردے یا اگر کسی حلقے کے انتخابی عمل پر اعتراضات اٹھائے جائیں اور اس کے خلاف عدالت میں پٹیشن دائر کردی جائیں
ایسی صورتحال میں ضمنی الیکشن تو کرائے جائیں لیکن اول تو اس میں یہ دیکھا جائے کہ انکوائری رپورٹس کے مطابق کونسی پارٹی انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے،دھاندلی ،دنگا فساد میں ملوث تھی اور کس پارٹی کے باعث نقص امن کا خطرہ پیدا ہوا جس کے باعث انتخابی عمل متاثر ہوا اور عوام کا وقت اور پیسہ برباد ہوا۔ اور پھر اس عمل کے ذمہ دار امیدوار یا پھر اس کی پارٹی سے مذکورہ حلقے کے انتخابات میں ہونے والے تمام اخراجات وصول کئے جائیں اور ایسے امیدوار کو نا اہل قرار دیدیا جائے۔
اگر اس حلقے کے کامیاب امیدوار کا خدانخواستہ انتقال ہوجائے یا پھر خدانخواستہ کسی معذوری کے باعث وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔
یہ ایک ایسی صورتحال ہے کہ جس میں ضمنی الیکشن منعقد کرائے جاسکتے ہیں لیکن اس میں بھی ہماری تجویز یہ ہے کہ اگر رکن اسمبلی کا تعلق کسی پارٹی سے تھا ،اور مجموعی طور پر اس رکن اسمبلی کی کارکردگی سے حلقے کے عوام مطمئن تھے تو پھر ایسی صورت میں انتخابات کرانے کے بجائے اسی پارٹی کے ایسے ممبر کو جو کہ حلقے کی حدود میں رہائش پذیر ہو اور مجموعی طور پر اچھے کردار کا مالک ہو، ایسے فرد کو منتخب کرکے الیکشن کمیشن پارٹی کو کہے کہ وہ اس فرد کو نامزد کرے اور پھر اس فرد کو متوفی یا معذور رکن اسمبلی کی جگہ پر اسمبلی کی رکنیت دیدی جائے۔
تو قارئین ہمارے ملک کے اس جمہوری اور انتخابی نقار خانے میں ہماری ٹائیں ٹائیں ہے ۔ آپ کو ہماری یہ ٹائیں ٹائیں کسی لگی؟ آپ کے تبصرے ہماری رہنمائی کریں گے۔

فیس بک تبصرے

جمہوریت ،الیکشن اور ہماری ٹائیں ٹائیں“ ایک تبصرہ

  1. Pingback: جمہوریت ،الیکشن اور ہماری ٹائیں ٹائیں | Tea Break

Leave a Reply