ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں ہے، ماہر امراض اطفال ڈاکٹر شاہد رفیق سے گفتگو

میرے بچے کی طبیعت خراب ہے‘ وہ دودھ نہیں پی رہا۔
بچہ دودھ نہیں پی رہا؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔
شوہر نے بتایا کہ دراصل ہم تو بہت کوشش کررہے ہیں لیکن بچہ دودھ منہ میں لیتا ہی نہیں۔ زبردستی دیں تو نکال دیتا ہے۔
یہ مریض میرے زیر علاج رہ چکا ہے، اس کے ہاں پہلی ولادت ہوئی تھی۔ ہمارے معاشرے کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ مریض کو جس ڈاکٹر سے فائدہ ہوجائے وہ اپنی ہر بیماری کے لیے اسی سے رابطہ کرتا ہے چاہے وہ اس میں مہارت نہ رکھتا ہو۔ اس کو میں نے ماہر امراضِ اطفال سے مشورے کا کہا، لیکن وہ بضد تھا کہ آپ ہی مسئلہ حل کرائیں۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیوی گھبرائی ہوئی بھی ہے، اس کا سانس تیز چلنے لگتا ہے۔

میں نے ان خاتون کی رپورٹس دیکھیں۔ خون کی کمی تھی لیکن تھوڑی سی۔ اتنی نہیں جتنا یہ سانس پھولنے اور دیگر تکالیف بتا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم نے گائنی کی ڈاکٹر سے بات کی، اس نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں۔ گائنی کی ڈاکٹر صاحبہ نے معائنہ کیا اور ایک منٹ بعد چلی گئیں۔ اب ہم کسے دکھائیں! بچے کا ڈاکٹر کہتا ہے: بی بی آپ خود کو سنبھالیں۔ وہ کہتی ہے مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔

میں نے اسے سائیکالوجسٹ فرحی فاطمہ صاحبہ سے بیوی کی بات کرانے کا کہا۔ سائیکالوجسٹ نے بتایا کہ ان کے یہاں پہلی ولادت ہے اس لیے خاندان میں سب ہی خوش ہیں، لیکن ساس پہلے سے کہہ رہی تھی کہ پوتا ہوگا۔ بیٹی ہوئی تو اس نے کوئی منفی بات کہہ دی جس پر اس فرد کی بیوی بہت پریشان ہے۔ اس کے علاوہ اس خاتون کو نارمل ڈپریشن ہے جو پہلی ولادت کے بعد بہت سی خواتین کو ہوتا ہے۔ یہ گھر والوں کے اچھے رویّے، محبت اور توجہ کے ساتھ ایک ہفتہ میں ختم ہوجاتا ہے۔

بچے کے دودھ کا مسئلہ یہ تھا کہ ماں کو دودھ پلانا ہی نہیں آتا تھا۔ ساس یا کسی تجربہ کار خاتون نے اسے بتایا نہیں کہ دودھ کیسے پلانا ہے۔ اسپتال میں بھی کسی نے اسے تفصیل کے ساتھ دودھ پلانے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ بس اتنا کہہ دیا گیا ‘بی بی بچے کو اپنا دودھ پلائیں’۔ یہ اسپتال بہت معروف ادارہ ہے، لیکن اس میں کوئی بھی اسٹاف نرس یا بریسٹ فیڈ کے بارے میں بتانے والی نہیں ہے۔ نہ ہی گائنی کی او پی ڈی میں ماں کو پہلے سے کسی نے دودھ پلانے کے بارے میں بتایا۔ حالانکہ یہ خاتون باقاعدگی سے نو ماہ تک گائنی او پی ڈی میں آکر معائنہ کراتی رہی۔

سائیکالوجسٹ صاحبہ نے اسے تسلی دی۔ دودھ پلانے کے بارے میں سمجھایا۔ اس کے شوہر کو مزید توجہ اور ہمدردی کرنے کا مشورہ دیا۔ سائیکوتھراپی کے چند سیشن کے بعد ماں کی طبیعت بہتر ہوگئی، بچہ بھی دودھ پینے لگا اور ماں کو دودھ بھی زیادہ آنے لگا۔
ہم نے بچوں کو دودھ پلانے اور اس میں پیش آنے والے مسائل کے حل کے حوالے سے ماہر امراض اطفال ڈاکٹر شاہد رفیق سے گفتگو کی۔

ڈاکٹر شاہد رفیق نے بتایا کہ ہمارے اسپتال میں گائنی کی ہر او پی ڈی میں ایک نرس صرف ماں کو بچے کے دودھ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ ہمارے اسپتال کے علاوہ امریکہ کے تمام اسپتالوں میں بچے کو دودھ پلانے کے بارے میں بتانے والی نرس گائنی او پی ڈی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ نرسیں باقاعدہ اس میں تربیت یافتہ ہوتی ہیں جنہیں Lactation Specialist کہا جاتا ہے۔ یہ نرسیں ماں کو دودھ کے بارے میں ساری معلومات دیتی ہیں۔ دودھ کیسے پیدا ہوتا ہے‘ کیسے پلائیں‘ دودھ کو بڑھانے کے طریقے کیا ہیں‘ دودھ کس عمر میں کتنی مرتبہ پلائیں اور کب نہ پلائیں وغیرہ وغیرہ۔

ڈاکٹر شاہد رفیق نے بتایا کہ سورة بقرہ کی آیت 233 میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بتادیا ہے:

مائیں بچوں کو دو سال تک دودھ پلائیں۔

اس مدت میں ماں کے کھانے، پینے اور آرام کا خیال رکھنا والد کی ذمہ داری ہے۔
ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ ماں کے دودھ کا کوئی متبادل دنیا میں نہیں۔ انسان نے بہت کوششیں کی ہیں، بہت سے فارمولے بنائے، یہاں تک کہ چین میں ایک ریسرچ گروپ نے ماں کی چھاتی سے کچھ Tissue نکال کر گائے میں لگائے اور ماں کے غدودوں سے گائے کے جسم میں ماں جیسے دودھ کی پروڈکشن کی کوشش کررہے ہیں، لیکن وہ بھی اب تک ماں کے دودھ جیسا 80 فیصد کے قریب دودھ بنا پائے ہیں۔ یہ سب تجرباتی ہے۔

ڈاکٹر شاہد رفیق سے سوال کیا گیا کہ بچے کو گائے یا بھینس کا دودھ دے سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ گائے اور بھینس کے دودھ کے ساتھ چند مسائل ہیں۔ ایک تو اس میں جو Fat کی مقدار ہوتی ہے وہ بچے کی ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ دودھ استعمال کرنے والے بچوں کی مائیں اکثر یہ شکایت کرتی ہیں کہ بچہ دودھ پینے کے بعد Potty کردیتا ہے۔

گائے کے دودھ میں ایسے کیمیکل ہوتے ہیں جو گردے کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔
گائے کے دودھ میں فاسفورس زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے کیلشیم اور فاسفورس کا توازن جسم میں بگڑ جاتا ہے۔ ہڈیاں بننے کا عمل متاثر ہوجاتا ہے۔ ماں کے دودھ کے بجائے گائے کا دودھ استعمال کرنے والے بچوں کی ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں۔ بچہ کمزور ہوسکتا ہے۔ فاسفورس کی زیادتی کی وجہ سے بچے کے گردے متاثر ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد رفیق نے کہا کہ بچے کو پیدائش کے فوری بعد ماں کا دودھ دیں۔ دودھ دینے سے پہلے نپل کو گیلے کپڑے سے ہمیشہ صاف کریں۔ ماں کو چاہیے کہ وہ چھاتی کو ہاتھ سے اٹھائے اور نپل کو انگلی اور انگوٹھے سے پکڑ کر بچے کے منہ میں دے۔
پیدائش کے بعد بچے کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا نازک منہ ماں کی چھاتی کے وزن کی وجہ سے اسے پکڑ نہیں پاتا، اس لیے ماں اپنے ہاتھ سے چھاتی کو اٹھاکر بچے کے منہ میں دے۔ اگر ماں ہاتھ سے سہارا نہیں دے گی تو چھاتی کے وزن سے بچے کی ناک بند ہوسکتی ہے۔ بہت سے بچے جنہیں دودھ نہ پینے کی شکایت تھی‘ اس ترکیب پر عمل کرکے دودھ پینے لگے۔

ڈاکٹر شاہد رفیق نے مشورہ دیا کہ پہلے دو ماہ بچے کو دودھ ایک گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ‘ دو گھنٹہ بعد دیں۔ جب بچہ روئے اُس وقت اسے دودھ دیں۔ پہلے دو ماہ میں کوئی شیڈول نہیں بنایا جاسکتا۔ دو ماہ سے اوپر کے بچوں کو ہر چار گھنٹے بعد دونوں چھاتیوں سے دودھ پلائیں اور دس منٹ تک لازمی پلائیں۔ یہ یاد رکھیں کہ جب تک چھاتی خالی نہیں ہوگی مزید دودھ نہیں بنے گا۔ اگر ایک مرتبہ پہلے سیدھی اور پھر الٹی چھاتی سے دودھ پلایا ہے تو اگلی مرتبہ بھی یہی ترتیب رکھیں کہ پہلے سیدھی سے پلائیں اور پھر الٹی سے، یا یوں سمجھیں کہ جس والی چھاتی سے پہلے پلایا تھا اسی سے اگلی مرتبہ بھی پہلے پلائیں۔

ڈاکٹر شاہد رفیق نے بتایا کہ جب بچہ زیادہ بھوکا ہوتا ہے تو زیادہ چوستا ہے۔ ماں کو چاہیے کہ وہ نپل پورا بچے کے منہ میں دے۔ بچے کے ہونٹ جب نپل کے بعد والے حصہ میں لگتے ہیں تو یہ حصہ دماغ کو بچے کا پیغام پہنچاتا ہے اور دماغ حکم دیتا ہے اور تیزی سے دودھ بننا شروع ہوجاتا ہے۔

یہ اللہ کی ایسی نشانیاں ہیں کہ اگر ان کے بارے میں معلوم ہو تو انسان ربِ کائنات کے آگے جھک جاتا ہے۔

ڈاکٹر شاہد رفیق نے بتایا کہ دودھ پلانے کے بعد بچے کو پانچ‘ سات منٹ تک سینے سے لگاکر رکھیں، بچے کی پیٹھ پر تھپکی دے سکتی ہیں، اگر پیٹھ پر تھپکی نہ دیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ بچہ ڈکار لے سکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ڈکار نہ لے۔ بچے کو سینے سے لگاکر سیدھا رکھنے سے دودھ کو معدے میں سیٹ ہونے کا وقت مل جاتا ہے۔

ڈاکٹر شاہد رفیق نے بتایا کہ بہت سے بچوں کو دودھ پلانے کے بعد سیٹ کرنے کا وقت دینے کے باوجود الٹی آجاتی ہے، یا وہ ہر مرتبہ سب کچھ کرنے کے بعد لیٹتے ہی دودھ نکال دیتے ہیں۔ ایسے بچے جن کے معدے میں یہ مسئلہ ہو کہ لیٹتے ہی ان کا دودھ غذا کی اوپری نالی میں آجائے اور الٹی ہوجائے اُن کی ماﺅں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ بچے کے بستر کو سر اور پیٹھ کے اوپری حصہ میں 45 ڈگری تک اوپر اٹھائیں۔ اس طرح الٹی اگر آبھی رہی ہے تو واپس اندر چلی جائے گی۔

بستر کے نیچے تکیہ لگاکر یہ پوزیشن باآسانی بن سکتی ہے، یا اگر بچے کا اپنا الگ بیڈ ہے تو سر کی جانب پائے کے نیچے 6 انچ کے دو لکڑی کے ٹکڑے یا اینٹ لگادیں۔
ڈاکٹر شاہد رفیق نے بتایا کہ ایک سال تک بچے کی مرکزی غذا ماں کا دودھ ہے۔ چار ماہ کے بعد اسے غذا کھلا سکتے ہیں۔ کیلا‘ کھچڑی‘ حلوہ وغیرہ۔ لیکن ماں کا دودھ ہی اصل غذا ہوتی ہے۔ ماں کا دودھ اگر دو سال تک پلائیں تو یہ ماں اور بچے کے تعلقات میں بہتری‘ بچے کی ذہنی اور جسمانی حالت کی بہتری‘ اور ماں کو کینسر سے بچانے کی بہترین ترکیب ہے۔

ماں کا دودھ بڑھانے کی ترکیبیں :
1- ماں پانی اور مشروبات زیادہ استعمال کرے۔
2- جو وٹامنز، غذائیں اور پھل وغیرہ حمل میں لے رہی تھی، لیتی رہے۔
3- اپنے جسم کو دھوپ لازمی لگائے۔
4- ذہنی طور پر پُرسکون رہے‘ ماں جتنی زیادہ زیادہ پُرسکون ہوگی اتنا ہی دودھ زیادہ بنے گا۔
5- بچے کے والد اور اہلِ خانہ ماں کو کوئی تلخ بات نہ کہیں اور اس کی لغزشوں کو معاف کریں۔

ڈاکٹر شاہد رفیق کا تعارف:
ڈاکٹر شاہد رفیق نے ایم بی بی ایس لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے 1986ءمیں کیا۔ ہاﺅس جاب کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے اور بچوں کے امراض میں مہارت کی تربیت Henry Ford Hospital Detryod Mischegan اور Training for Children Hospital Dallus Texas سے حاصل کی۔ بچوں میں مہارت کا پوسٹ گریجویشن امتحان پاس کیا اور آج کل Best Care peadratric Husp Texas میں پریکٹس کررہے ہیں۔ خدمتِ خلق کے کاموں میں زمانہ طالب علمی سے ہی حصہ لیتے رہے ہیں۔ امریکہ میں ریلیف آرگنائزیشن ICNA ریلیف سے وابستہ ہیں اور ICNA Relief کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔

فیس بک تبصرے

ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں ہے، ماہر امراض اطفال ڈاکٹر شاہد رفیق سے گفتگو“ پر 2 تبصرے

  1. نہایت عمدہ مضمون ہے. خاص طور پرنوذائیدہ بچوں کو دودھ پلانے کے سلسلے میں بہت اچھی معلومات دی گئی ہیں.
    ماں کے دودھ میں قدرتی مدافعت پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اسی لیے ماں کے دودھ کو غذا کے ساتھ ساتھ دوا کی بھی حیثیت حاصل ہے. جو بچے ڈبے کا دودھ پیتے ہیں ان میں پیٹ اور سینہ کے امراض عام ہوتے ہیں.

  2. بہت عمدہ ۔
    يہ سب باتيں پتہ نہيں کس طرح ميری ماں جانتی تھيں اور اُنہوں نے اپنی ميری بيوی سميت اپنی بہوؤں اور بيٹيوں کو سکھايا

Leave a Reply